Surah

Information

Surah # 64 | Verses: 18 | Ruku: 2 | Sajdah: 0 | Chronological # 108 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD)
يَعۡلَمُ مَا فِى السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضِ وَيَعۡلَمُ مَا تُسِرُّوۡنَ وَمَا تُعۡلِنُوۡنَ‌ؕ وَاللّٰهُ عَلِيۡمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوۡرِ‏ ﴿4﴾
وہ آسمان و زمین کی ہر ہرچیز کا علم رکھتا ہے اور جو کچھ تم چھپاؤ اورجو ظاہر کرو وہ ( سب کو ) جانتا ہے اللہ تو سینوں کی باتوں تک کو جاننے والا ہے ۔
يعلم ما في السموت و الارض و يعلم ما تسرون و ما تعلنون و الله عليم بذات الصدور
He knows what is within the heavens and earth and knows what you conceal and what you declare. And Allah is Knowing of that within the breasts.
Woh aasman-o-zamin ki her her cheez ka ilm rakhta hai aur jo kuch tum chupao aur jo zahir kero woh ( sab ko ) janta hai. Allah to seenon ki baaton tak ko jannay wala hai.
آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے ، وہ اسے جانتا ہے ، اور جو کچھ تم چھپ کر کرتے ہو اور جو کچھ کھلم کھلا کرتے ہو ، اس کا بھی اسے پورا علم ہے ، اور اللہ دلوں کی باتوں تک کا خوب جاننے والا ہے ۔
جانتا ہے جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے اور جانتا ہے جو تم چھپاتے اور ظاہر کرتے ہو ، اور اللہ دلوں کی بات جانتا ہے ،
زمین اور آسمانوں کی ہر چیز کا اسے علم ہے ۔ جو کچھ تم چھپاتے ہو اور جو کچھ تم ظاہر کرتے ہو8 سب اس کو معلوم ہے ، اور وہ دلوں کا حال تک جانتا ہے 9 ۔
جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے وہ جانتا ہے اور ان باتوں کو ( بھی ) جانتا ہے جو تم چھپاتے ہو ، اور جو ظاہر کرتے ہو اور اللہ سینوں والی ( راز کی ) باتوں کو ( بھی ) خوب جاننے والا ہے
سورة التَّغَابُن حاشیہ نمبر :8 دوسرا ترجمہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ جو کچھ تم چھپ کر کرتے ہو اور جو کچھ تم علانیہ کرتے ہو ۔ سورة التَّغَابُن حاشیہ نمبر :9 یعنی وہ انسان کے صرف ان اعمال ہی سے واقف نہیں ہے جو لوگوں کے علم میں آ جاتے ہیں بلکہ ان اعمال کو بھی جانتا ہے جو سب سے مخفی رہ جاتے ہیں ۔ مزید براں وہ محض اعمال کی ظاہر شکل ہی کو نہیں دیکھتا بلکہ یہ بھی جانتا ہے کہ انسان کے ہر عمل کے پیچھے کیا ارادہ اور کیا مقصد کار فرما تھا اور جو کچھ اس نے کیا کس نیت سے کیا اور کیا سمجھتے ہوئے کیا ۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جو ہر انسان غور کرے تو اسے اندازہ ہو سکتا ہے انصاف صرف آخرت ہی میں ہو سکتا ہے اور صرف خدا ہی کی عدالت میں صحیح انصاف ہونا ممکن ہے ۔ انسان کی عقل خود یہ تقاضا کرتی ہے کہ آدمی کو اس کے ہر جرم کی سزا ملنی چاہیے ، لیکن آخر یہ بات کون نہیں جانتا کہ دنیا میں اکثر و بیشتر جرائم یا تو چھپے رہ جاتے ہیں یا ان کے لیے کافی شہادت بہم نہ پہنچنے کی وجہ سے مجرم چھوٹ جاتا ہے ، یا جرم کھل بھی جاتا ہے تو مجرم اتنا با اثر اور طاقتور ہوتا ہے کہ اسے سزا نہیں دی جا سکتی ۔ پھر انسان کی عقل یہ بھی چاہتی ہے کہ آدمی کو محض اس بنا پر سزا نہیں ملنی چاہیے کہ اس کے فعل کی صورت ایک مجرمانہ فعل کی سی ہے ، بلکہ یہ تحقیق ہونا چاہیے کہ جو فعل اس نے کیا ہے بالارادہ سوچ سمجھ کر کیا ہے ، اس کے ارتکاب کے وقت وہ ایک ذمہ دار عامل کی حیثیت سے کام کر رہا تھا ، اس کی نیت فی الواقع ارتکاب جرم ہی کی تھی ، اور وہ جانتا تھا کہ جو کچھ وہ کر رہا ہے وہ جرم ہے ۔ اسی لیے دنیا کی عدالتیں مقدمات کا فیصلہ کرنے میں ان امور کی تحقیق کرتی ہیں اور ان کی تحقیق کو اصول انصاف کا تقاضا مانا جاتا ہے ۔ مگر کیا واقعی دنیا میں کوئی ذریعہ ایسا پایا جاتا ہے جس سے ان کی ٹھیک ٹھیک تحقیق ہو سکے جو ہر شبہ سے بالا تر ہو ؟ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو یہ آیت بھی اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد سے گہرا منطقی ربط رکھتی ہے کہ اس نے زمین اور آسمانوں کو بر حق پیدا کیا ہے ۔ بر حق پیدا کرنے کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ اس کائنات میں صحیح اور کامل عدل ہو ۔ یہ عدل لازماً اسی صورت میں قائم ہو سکتا ہے جبکہ عدل کرنے والے کی نگاہ سے انسان جیسی ذمہ دار مخلوق کا نہ صرف یہ کہ کوئی فعل چھپا نہ رہ جائے بلکہ وہ نیت بھی اس سے مخفی نہ رہے جس کے ساتھ کسی شخص نے کوئی فعل کیا ہو ۔ اور ظاہر ہے کہ خالق کائنات کے سوا کوئی دوسری ہستی ایسی نہیں ہو سکتی جو اس طرح کا عدل کر سکے ۔ اب اگر کوئی شخص اللہ اور آخرت کا انکار کرتا ہے تو وہ گویا یہ دعویٰ کرتا ہے کہ ہم ایک ایسی کائنات میں رہتے ہیں جو فی الحقیقت انصاف سے خالی ہے ، بلکہ جس میں سے انصاف کا کوئی امکان ہی نہیں ہے ۔ اس احمقانہ تخیل پر جس شخص کی عقل اور جس کا قلب و ضمیر مطمئن ہو وہ بڑا ہی بے شرم ہے اگر وہ اپنے آپ کو ترقی پسند یا عقلیت پسند سمجھتا ہو اور ان لوگوں کو تاریک خیال یا رجعت پسند سمجھے جو کائنات کے اس انتہائی معقول ( Rational ) تصور کو قبول کرتے ہیں جسے قرآن پیش کر رہا ہے ۔