Surah

Information

Surah # 65 | Verses: 12 | Ruku: 2 | Sajdah: 0 | Chronological # 99 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD)
اَللّٰهُ الَّذِىۡ خَلَقَ سَبۡعَ سَمٰوٰتٍ وَّمِنَ الۡاَرۡضِ مِثۡلَهُنَّ ؕ يَتَنَزَّلُ الۡاَمۡرُ بَيۡنَهُنَّ لِتَعۡلَمُوۡۤا اَنَّ اللّٰهَ عَلٰى كُلِّ شَىۡءٍ قَدِيۡرٌ ۙ وَّاَنَّ اللّٰهَ قَدۡ اَحَاطَ بِكُلِّ شَىۡءٍ عِلۡمًا‏ ﴿12﴾
اللہ وہ ہے جس نے سات آسمان بنائے اور اسی کے مثل زمینیں بھی ۔ اس کا حکم ان کے درمیان اترتا ہے تاکہ تم جان لو کہ اللہ ہرچیز پر قادر ہے ۔ اور اللہ تعالٰی نے ہرچیز کو بہ اعتبار علم گھیر رکھا ہے ۔
الله الذي خلق سبع سموت و من الارض مثلهن يتنزل الامر بينهن لتعلموا ان الله على كل شيء قدير و ان الله قد احاط بكل شيء علما
It is Allah who has created seven heavens and of the earth, the like of them. [His] command descends among them so you may know that Allah is over all things competent and that Allah has encompassed all things in knowledge.
Allah woh hai jiss ney saat aasaman banaye aur issi kay misil zaminen bhi. Iss ka hukum inn kay darmiyan utarta hai takay tum jaan lo kay Allah her cheez per qadir hai aur Allah Taalaa ney her cheez ko ba-aetbaar ilm gher rakha hai.
اللہ وہ ہے جس نے سات آسمان پیدا کیے ، اور زمین بھی انہی کی طرح ( ١٤ ) اللہ کا حکم ان کے درمیان اترتا رہتا ہے ، تاکہ تمہیں معلوم ہوجائے کہ اللہ ہر چیز پر پوری قدرت رکھتا ہے اور یہ کہ اللہ کے علم نے ہر چیز کا احاطہ کیا ہوا ہے ۔
اللہ ہے جس نے سات آسمان بنائے ( ف۳۵ ) اور انہی کی برابر زمینیں ( ف۳٦ ) حکم ان کے درمیان اترتا ہے ( ف۳۷ ) تاکہ تم جان لو کہ اللہ سب کچھ کرسکتا ہے ، اللہ کا علم ہر چیز کو محیط ہے ،
اللہ وہ ہے جس نے سات آسمان بنائے اور زمین کی قسم سے بھی انہی کے مانند 23 ۔ ان کے درمیان حکم نازل ہوتا رہتا ہے ۔ ( یہ بات تمھیں اس لیئے بتائی جا رہی ہے ) تاکہ تم جان لو کہ اللہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے ، اور یہ کہ اللہ کا علم ہر چیز پر محیط ہے ۔ ع
اللہ ( ہی ) ہے جس نے سات آسمان پیدا فرمائے اور زمین ( کی تشکیل ) میں بھی انہی کی مِثل ( تہ بہ تہ سات طبقات بنائے ) ، ان کے درمیان ( نظامِ قدرت کی تدبیر کا ) امر اترتا رہتا ہے تاکہ تم جان لو کہ اللہ ہر چیز پر بڑا قادر ہے ، اور یہ کہ اللہ نے ہر چیز کا اپنے علم سے احاطہ فرما رکھا ہے ( یعنی آنے والے زمانوں میں جب سائنسی اکتشافات کامل ہوں گے تو تمہیں اللہ کی قدرت اور علمِ محیط کی عظمت کا اندازہ ہو جائے گا کہ کس طرح اُس نے صدیوں قبل ان حقائق کو تمہارے لئے بیان فرما رکھا ہے )
سورة الطَّلَاق حاشیہ نمبر :23 اُنہی کے مانند کا مطلب یہ نہیں ہے کہ جتنے آسمان بنائے اُتنی ہی زمینیں بھی بنائیں ، بلکہ مطلب یہ ہے کہ جیسے متعدد آسمان اس نے بنائے ہیں ویسی ہی متعدد زمینیں بھی بنائی ہیں ۔ اور زمین کی قسم سے مطلب یہ ہے کہ جس طرح یہ زمین جس پر انسان رہتے ہیں ، اپنی موجودات کے لیے فرش اور گہوارہ بنی ہوئی ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ نے کائنات میں اور زمینیں بھی تیار کر رکھی ہیں جو اپنی اپنی آبادیوں کے لیے فرش اور گہوارہ ہیں ۔ بلکہ بعض مقامات پر تو قرآن میں یہ اشارہ بھی کر دیا گیا ہے کہ جاندار مخلوقات صرف زمین ہی پر نہیں ہیں ، عالم بالا میں بھی پائی جاتی ہیں ( مثال کے طور پر ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد چہارم ۔ الشوریٰ ، آیت 29 ، حاشیہ 50 ) ۔ بالفاظ دیگر آسمان میں یہ جو بے شمار تارے اور سیارے نظر آتے ہیں ، یہ سب ڈھنڈار پڑے ہوئے نہیں ہیں بلکہ زمین کی طرح ان میں بھی بکثرت ایسے ہیں جن میں دنیائیں آباد ہیں ۔ قدیم مفسرین میں سے صرف ابن عباس ایک ایسے مفسر ہیں جنہوں نے اس دور میں اس حقیقت کو بیان کیا تھا جب آدمی اس کا تصور تک کرنے کے لیے تیار نہ تھا کہ کائنات میں اس زمین کے سوا کہیں اور بھی ذی عقل مخلوق بستی ہے ۔ آج اس زمانے کے سائنس دانوں تک کو اس کے امر واقعہ ہونے میں شک ہے ، کجا کہ 14 سو برس پہلے کے لوگ اسے بآسانی باور کر سکتے ۔ اسی لیے ابن عباس رضی اللہ عنہ عام لوگوں کے سامنے یہ بات کہتے ہوئے ڈرتے تھے کہ کہیں اس سے لوگوں کے ایمان متزلزل نہ ہو جائیں ۔ چنانچہ مجاہد کہتے ہیں کہ ان سے جب اس آیت کا مطلب پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا اگر میں اس کی تفسیر تم لوگوں سے بیان کروں تو تم کافر ہو جاؤ گے اور تمہارا کفر یہ ہوگا کہ اسے جھٹلاؤ گے ۔ قریب قریب یہی بات سعید بن جبیر سے بھی منقول ہے کہ ابن عباس نے فرمایا کیا بھروسہ کیا جاسکتا ہے کہ اگر میں تمہیں اس کا مطلب بتاؤں تو تم کافر نہ ہو جاؤ گے ۔ ( ابن جریر ۔ عبد بن حمید ) ۔ تاہم ابن جریر ، ابن ابی حاتم اور حاکم نے ، اور شعب الایمان اور کتاب الاسماء و الصفات میں بیہقی نے ابوالضحٰی کے واسطے سے باختلاف الفاظ ابن عباس کی یہ تفسیر نقل کی ہے کہ : فی کلِّ ارضٍ نبیٌّ کنبیِّکم و اٰدمُ کَاٰدَمَ و نوحٌ کنوح و ابراہیم کا براھیم و عیسیٰ کعیسیٰ ۔ ان میں سے ہر زمین میں نبی ہے تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم جیسا اور آدم ہے تمہارے آدم جیسا اور نوح ہے تمہارے نوح جیسا ، اور ابراہیم ہے تمہارے ابراہیم جیسا اور عیسیٰ ہے تمہارے عیسیٰ جیسا ۔ اس روایت کو ابن حجر نے فتح الباری میں اور ابن کثیر نے اپنی تفسیر میں بھی نقل کیا ہے ۔ اور امام ذہبی نے کہا ہے کہ اس کی سند صحیح ہے البتہ میرے علم میں ابوالضحٰی کے سوا کسی نے اسے روایت نہیں کیا ہے ، اس لیے یہ بالکل شاذ روایت ہے ۔ بعض دوسرے علماء نے اسے کذب اور موضوع قرار دیا ہے اور ملا علی قاری نے اس کو موضوعات کبیر ( ص 19 ) میں موضوع کہتے ہوئے لکا ہے کہ اگر یہ ابن عباس ہی کی روایت ہے تب بھی اسرائیلیات میں سے ہے ۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اسے رد کرنے کی اصل وجہ لوگوں کا اسے بعید از عقل و فہم سمجھنا ہے ، ورنہ بجائے خود اس میں کوئی بات بھی خلاف عقل نہیں ہے ۔ چنانچہ علامہ آلوسی اپنی تفسیر میں اس پر بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں: اس کو صحیح ماننے میں نہ عقلاً کوئی چیز مانع ہے نہ شرعاً ۔ مراد یہ ہے کہ ہر زمین میں ایک مخلوق ہے جو ایک اصل کی طرف اسی طرح راجع ہوتی ہے جس طرح بنی آدم ہماری زمین میں آدم علیہ السلام کی طرف راجع ہوتے ہیں ۔ اور ہر زمین میں ایسے افراد پائے جاتے ہیں جو اپنے ہاں دوسروں کی بہ نسبت اسی طرح ممتاز ہیں جس طرح ہمارے ہاں نوح اور ابراہیم علیہ السلام ممتاز ہیں ۔ آگے چل کر علامہ موصوف کہتے ہیں ممکن ہے کہ زمینیں سات سے زیادہ ہوں اور اسی طرح آسمان بھی صرف سات ہی نہ ہوں ۔ سات کے عدد پر ، جو عدد تام ہے ، اکتفا کرنا اس بات کو مستلزم نہیں کہ اس سے زائد کی نفی ہو ۔ پھر بعض احادیث میں ایک ایک آسمان کی درمیانی مسافت جو پانچ پانچ سو برس بیان کی گئی ہے اس کے متعلق علامہ موصوف کہتے ہیں : ھومن باب التقریب لِلافْھام ، یعنی اس سے مراد ٹھیک ٹھیک مسافت کی پیمائش بیان کرنا نہیں ہے ، بلکہ مقصود بات کو اس طرح بیان کرنا ہے کہ وہ لوگوں کی سمجھ سے قریب تر ہو ۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ حال میں امریکہ کے رانڈکارپوریشن ( Rand Corporation ) نے فلکی مشاہدات سے اندازہ لگایا ہے کہ زمین جس کہکشاں ( Galaxy ) میں واقع ہے صرف اسی کے اندر تقریباً 60 کروڑ ایسے سیارے پائے جاتے ہیں جن کے طبعی حالات ہماری زمین سے بہت کچھ ملتے چلتے ہیں اور امکان ہے کہ ان کے اندر بھی جاندار مخلوق آباد ہو ( اکانومسٹ ، لندن ۔ مورخہ 26 جولائی 1969ء ) ۔
حیرت ، افزا شان ذوالجلال اللہ تعالیٰ اپنی قدرت کاملہ اور اپنی عظیم الشان سلطنت کا ذکر فرماتا ہے تاکہ مخلوق اس کی عظمت و عزت کا خیال کر کے اس کے فرمان کو قدر کی نگاہ سے دیکھے اور اس پر عامل بن کر اسے خوش کرے ، تو فرمایا کہ ساتوں آسمانوں کا خلاق اللہ تعالیٰ ہے ، جیسے حضرت نوح علیہ السلام نے اپنی قوم سے فرمایا تھا ( ترجمہ ) کیا تم نہیں دیکھتے کہ اللہ پاک نے ساتوں آسمانوں کس طرح اوپر تلے پیدا کیا ہے؟ اور جگہ ارشاد ہے ( ترجمہ ) یعنی ساتوں آسمان اور زمین اور ان میں جو کچھ ہے سب اس اللہ کی تسبیح پڑھتے رہتے ہیں ، پھر فرماتا ہے اسی کے مثال زمینیں ہیں ، جیسے کہ بخاری و مسلم کی صحیح حدیث میں ہے جو شخص ظلم کر کے کسی کی ایک بالشت بھر زمین لے لے گا اسے ساتوں زمینوں کا طوق پہنایا جائے گا ، صحیح بخاری میں ہے اسے ساتویں زمین تک دھنسایا جائے گا ، میں نے اس کی تمام سندیں اور کل الفاظ ابتداء اور انتہا میں زمین کی پیدائش کے ذکر میں بیان کر دیئے ہیں ، فالحمد اللہ ، جن بعض لوگوں نے کہا ہے کہ اس سے مراد ہفت اقلیم ہے انہوں نے بےفائدہ دوڑ بھاگ کی ہے اور اختلاف بےجا میں پھنس گئے ہیں اور بلا دلیل قرآن حدیث کا صریح خلاف کیا ہے سورہ حدید میں آیت ( هُوَ الْاَوَّلُ وَالْاٰخِرُ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ ۚ وَهُوَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيْمٌ Ǽ۝ ) 57- الحديد:3 ) ، کی تفسیر میں ساتوں زمینوں کا اور ان کے درمیان کی دوری کا اور ان کی موٹائی کا جو پانچ سو سال کی ہے پورا بیان ہو چکا ہے ، حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ وغیرہ بھی یہی فرماتے ہیں ، ایک اور حدیث میں بھی ہے ساتوں آسمان اور جو کچھ ان میں اور ان کے درمیان ہے اور ساتوں زمینیں اور جو کچھ ان میں اور ان کے درمیان ہے کرسی کے مقابلہ میں ایسے ہیں جیسے کسی لمبے چوڑے بہت بڑے چٹیل میدان میں ایک چھلا پڑا ہو ، ابن جریر میں حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے مروی ہے کہ اگر میں اس کی تفسیر تمہارے سامنے بیان کروں تو اسے نہ مانو گے اور نہ ماننا جھوٹا جاننا ہے ، اور رویات میں ہے کہ کسی شخص نے اس آیت کا مطلب پوچھا تھا اس پر آپ نے فرمایا تھا کہ میں کیسے باور کرلوں کہ جو میں تجھے بتاؤں گا تو اس کا انکار کرے گا ؟ اور روایت میں مروی ہے کہ ہر زمین میں مثل حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اور اس زمین کی مخلوق کے ہے اور ابن مثنی والی اس روایت میں آیا ہے ہر آسمان میں مثل ابراہیم کے ہے ، بہیقی کی کتاب الاسماء والصفات میں حضرت ابن عباس کا قول ہے کہ ساتوں زمینوں میں سے ہر ایک میں نبی ہے مثل تمہارے نبی کے اور آدم ہیں مثل آدم کے اور نوح ہیں مثل نوح کے اور ابراہیم ہیں مثل ابراہمی کے اور عیسیٰ ہیں مثل عیسیٰ کے پھر امام بیہقی نے ایک اور روایت بھی ابن عباس کی وارد کی ہے اور فرمایا ہے اس کی اسناد صحیح ہے لیکن یہ بالکل شاذ ہے ابو الضحیٰ جو اس کے ایک راوی ہیں میرے علم میں تو ان کی متابعت کوئی نہیں کرتا ، واللہ اعلم ، ایک مرسل اور بہت ہی منکر روایت ابن ابی الدنیا لائے ہیں جس میں مروی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ایک مرتبہ صحابہ کے مجمع میں تشریف لائے دیکھا کہ سب کسی غور و فکر میں چپ چاپ ہیں ، پوچھا کیا بات ہے؟ جواب ملا اللہ کی مخلوق کے بارے میں سوچ رہے ہیں فرمایا ٹھیک ہے مخلوقات پر نظریں دوڑاؤ لیکن کہیں اللہ کیب ابت غور و خوض میں نہ پڑ جانا ، سنو اس مغرب کی طرف ایک سفید زمین ہے اس کی سفیدی اس کا نور ہے یا فرمایا اس کا نور اس کی سفیدی ہے سورج کا راستہ چالیس دن کا ہے وہاں اللہ کی ایک مخلوق ہے جس نے ایک آنکھ جھکپنے کے برابر بھی کبھی اس کی نافرمانی نہیں کی ، صحابہ نے کہا پھر شیطان ان سے کہاں ہے؟ فرمایا انہیں یہ بھی نہیں معلوم کہ شیطان پیدا بھی کیا گیا ہے یا نہیں؟ پوچھا کیا وہ بھی انسان ہیں؟ فرمایا انہیں حضرت آدم کی پیدائش کا بھی علم نہیں ، الحمد اللہ سورہ طلاق کی تفسیر بھی پوری ہوئی ۔