Surah

Information

Surah # 65 | Verses: 12 | Ruku: 2 | Sajdah: 0 | Chronological # 99 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD)
رَّسُوۡلًا يَّتۡلُوۡا عَلَيۡكُمۡ اٰيٰتِ اللّٰهِ مُبَيِّنٰتٍ لِّيُخۡرِجَ الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ مِنَ الظُّلُمٰتِ اِلَى النُّوۡرِ‌ؕ وَمَنۡ يُّؤۡمِنۡۢ بِاللّٰهِ وَيَعۡمَلۡ صَالِحًـا يُّدۡخِلۡهُ جَنّٰتٍ تَجۡرِىۡ مِنۡ تَحۡتِهَا الۡاَنۡهٰرُ خٰلِدِيۡنَ فِيۡهَاۤ اَبَدًا‌ؕ قَدۡ اَحۡسَنَ اللّٰهُ لَهٗ رِزۡقًا‏ ﴿11﴾
یعنی ) رسول جو تمہیں اللہ کے صاف صاف احکام پڑھ کر سناتا ہے تاکہ ان لوگوں کو جو ایمان لائیں اور نیک عمل کریں وہ تاریکیوں سے روشنی کی طرف لے آئے اور جو شخص اللہ پر ایمان لائے اور نیک عمل کرے اللہ اسے ایسی جنتوں میں داخل کرے گا جس کے نیچے نہریں جاری ہیں جن میں یہ ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے ۔ بیشک اللہ نے اسے بہترین روزی دے رکھی ہے ۔
رسولا يتلوا عليكم ايت الله مبينت ليخرج الذين امنوا و عملوا الصلحت من الظلمت الى النور و من يؤمن بالله و يعمل صالحا يدخله جنت تجري من تحتها الانهر خلدين فيها ابدا قد احسن الله له رزقا
[He sent] a Messenger [Muhammad] reciting to you the distinct verses of Allah that He may bring out those who believe and do righteous deeds from darknesses into the light. And whoever believes in Allah and does righteousness - He will admit him into gardens beneath which rivers flow to abide therein forever. Allah will have perfected for him a provision.
( yani ) rasool jo tumhen Allah kay saaf saaf ehkaam parh ker sunata hai takay unn logon ko jo eman layen aur nek amal keren woh tareekiyon say roshni ki taraf ley aaye aur jo shaks Allah per eman laye aur nek amal keray Allah ussay aisi jannaton mein dakhil keray ga jiss kay neechay nehren jari hain jin mein yeh hamesha hamesha rahen gay. Be-shak Allah ney ussay behtareen rozi dey rakhi hai.
یعنی وہ رسول جو تمہارے سامنے روشنی دینے والی اللہ کی آیتیں پڑھ کر سناتے ہیں ، تاکہ جو لوگ ایمان لائے ہیں اور جنہوں نے نیک عمل کیے ہیں ان کو اندھیروں سے نکال کر روشنی میں لے آئیں ، اور جو شخص اللہ پر ایمان لے آئے ، اور نیک عمل کرے ، اللہ اس کو ایسے باغات میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی ، جہاں جنتی لوگ ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے ۔ اللہ نے ایسے شخص کے لیے بہترین رزق طے کردیا ہے ۔
( ۱۱ ) وہ رسول ( ف۳۱ ) کہ تم پر اللہ کی روشن آیتیں پڑھتا ہے تاکہ انہیں جو ایمان لائے اور اچھے کام کیے ( ف۳۲ ) اندھیریوں سے ( ف۳۳ ) اجالے کی طرف لے جائے ، اور جو اللہ پر ایمان لائے اور اچھا کام کرے وہ اسے باغوں میں لے جائے گا جن کے نیچے نہریں بہیں جن میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں ، بیشک اللہ نے اس کے لیے اچھی روزی رکھی ۔ ( ف۳٤ )
ایک ایسا رسول 21 جو تم کو اللہ کی صاف صاف ہدایت دینے والی آیات سنا تا ہے تاکہ ایمان لانے والوں اور نیک عمل کرنے والوں کو تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لے آئے 22 ۔ جو کوئی اللہ پر ایمان لائے اور نیک عمل کرے ، اللہ اسے ایسی جنتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی ۔ یہ لوگ ان میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے ۔ اللہ نے ایسے شخص کے لیئے بہترین رزق رکھا ہے ۔
۔ ( اور ) رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کو ( بھی بھیجا ہے ) جو تم پر اللہ کی واضح آیات پڑھ کر سناتے ہیں تاکہ اُن لوگوں کو جو ایمان لائے ہیں اور نیک اعمال کرتے ہیں تاریکیوں سے نکال کر روشنی کی طرف لے جائے ، اور جو شخص اللہ پر ایمان رکھتا ہے اور نیک عمل کرتا ہے وہ اسے ان جنتوں میں داخل فرمائے گا جن کے نیچے سے نہریں رواں ہیں وہ ان میں ہمیشہ رہنے والے ہیں ، بیشک اللہ نے اُس کے لئے نہایت عمدہ رزق ( تیار کر ) رکھا ہے
سورة الطَّلَاق حاشیہ نمبر :21 مفسرین میں سے بعض نے نصیحت سے مراد قرآن لیا ہے ، اور رسول سے مراد محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور بعض کہتے ہیں کہ نصیحت سے مراد خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ہی ہیں ، یعنی آپ کی ذات ہمہ تن نصیحت تھی ۔ ہمارے نزدیک یہی دوسری تفسیر زیادہ صحیح ہے ، کیونکہ پہلی تفسیر کی رو سے فقرہ یوں بنانا پڑے گا کہ ہم نے تمہاری طرف ایک نصیحت نازل کی ہے اور ایک ایسا رسول بھیجا ہے قرآن کی عبارت میں اس تبدیلی کی آخر ضرورت کیا ہے جب کہ اس کے بغیر ہی عبارت نہ صرف پوری طرح بامعنی ہے بلکہ زیادہ پر معنی بھی ہے ۔ سورة الطَّلَاق حاشیہ نمبر :22 یعنی جہالت کی تاریکیوں سے علم کی روشنی میں نکال لائے ۔ اس ارشاد کی پوری اہمیت اس وقت سمجھ میں آتی ہے جب انسان طلاق ، عدت اور نفقات کے متعلق دنیا کے دوسرے قدیم اور جدید عائلی قوانین کا مطالعہ کرتا ہے ۔ اس تقابلی مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ بار بار کی تبدیلیوں اور نت نئی قانون سازیوں کے باوجود آج تک کسی قوم کو ایسا معقول اور فطری اور معاشرے کے لیے مفید قانون میسر نہیں آ سکا ہے جیسا اس کتاب اور اس کے لانے والے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ڈیڑھ ہزار برس پہلے ہم کو دیا تھا اور جس پر کسی نظر ثانی کی ضرورت نہ کبھی پیش آئی نہ پیش آ سکتی ہے ۔ یہاں اس تقابلی بحث کا موقع نہیں ہے ۔ اس کا محض ایک مختصر سا نمونہ ہم نے اپنی کتاب حقوق الزوجین کے آخری حصہ میں درج کیا ہے ۔ لیکن جو اصحاب علم چاہیں وہ دنیا کے مذہبی اور لادینی قوانین سے قرآن و سنت کے اس قانون کا مقابلہ کر کے خود دیکھ لیں ۔