Surah

Information

Surah # 66 | Verses: 12 | Ruku: 2 | Sajdah: 0 | Chronological # 107 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD)
يٰۤاَيُّهَا النَّبِىُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَاۤ اَحَلَّ اللّٰهُ لَـكَ‌ۚ تَبۡتَغِىۡ مَرۡضَاتَ اَزۡوَاجِكَ‌ؕ وَاللّٰهُ غَفُوۡرٌ رَّحِيۡمٌ‏ ﴿1﴾
اے نبی! جس چیز کو اللہ نے آپ کے لئے حلال کر دیا ہے اسے آپ کیوں حرام کرتے ہیں؟ ( کیا ) آپ اپنی بیویوں کی رضامندی حاصل کرنا چاہتے ہیں اور اللہ بخشنے والا رحم کرنے والا ہے ۔
يايها النبي لم تحرم ما احل الله لك تبتغي مرضات ازواجك و الله غفور رحيم
O Prophet, why do you prohibit [yourself from] what Allah has made lawful for you, seeking the approval of your wives? And Allah is Forgiving and Merciful.
Aey nabi! Ji ss cheez ko Allah ney aap kay liye halal ker diya hai ussay aap kiyon haram kertay hain? ( Kiya ) aap apni biwiyon ki raza mandi hasil kerna chahatay hain aur Allah bakhshney wala reham kerney wala hai.
اے نبی ! جو چیز اللہ نے تمہارے لیے حلال کی ہے ، تم اپنی بیویوں کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے اسے کیوں حرام کرتے ہو؟ ( ١ ) اور اللہ بہت بخشنے والا ، بہت مہربان ہے ۔
اے غیب بتانے والے ( نبی ) تم اپنے اوپر کیوں حرام کئے لیتے ہو وه چیز جو اللہ نے تمھارے لئے حلال کی ( ف۲ ) اپنی بیبیوں کی مرضی چاہتے ہو اور اللہ بخشنے والا ٴ مہربان ہے ،
اے نبی ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ، تم کیوں اس چیز کو حرام کرتے ہو جو اللہ نے تمہارے لیے حلال کی ہے1؟ ﴿کیا اس لیے کہ ﴾ تم اپنی بیویوں کی خوشی چاہتے ہو2؟ ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ معاف کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے3 ۔
اے نبئ ( مکرّم! ) آپ خود کو اس چیز ( یعنی شہد کے نوش کرنے ) سے کیوں منع فرماتے ہیں جسے اللہ نے آپ کے لئے حلال فرما رکھا ہے ۔ آپ اپنی ازواج کی ( اس قدر ) دل جوئی فرماتے ہیں ، اور اللہ بڑا بخشنے والا نہایت مہربان ہے
سورة التَّحْرِيْم حاشیہ نمبر :1 یہ دراصل استفہام نہیں ہے ۔ بلکہ ناپسندیدگی کا اظہار ہے ۔ یعنی مقصود نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ دریافت کرنا نہیں ہے کہ آپ نے یہ کام کیوں کیا ہے ، بلکہ آپ کو اس بات پر متنبہ کرنا ہے کہ اللہ کی حلال کی ہوئی چیز کو اپنے اوپر حرام کر لینے کا جو فعل آپ سے صادر ہوا ہے وہ اللہ تعالی کو ناپسند ہے ۔ اس سے خود بخود یہ مضمون مترشح ہوتا ہے کہ اللہ نے جس چیز کو حلال کیا ہے اسے حرام کرنے کا اختیار کسی کو بھی نہیں ہے ، حتی کہ خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی یہ اختیار نہیں رکھتے ۔ اگرچہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس چیز کو نہ عقیدۃً حرام سمجھا تھا اور نہ اسے شرعاً حرام قرار دیا تھا ، بلکہ صرف اپنی ذات پر اس کے استعمال کو حرام کر لیا تھا ، لیکن چونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیثیت ایک عام آدمی کی نہیں بلکہ اللہ کے رسول کی تھی ، اور آپ کے کسی چیز کو اپنے اوپر حرام کر لینے سے یہ خطرہ پیدا ہو سکتا تھا کہ امت بھی اس شے کو حرام یا کم از کم مکروہ سمجھنے لگے ، یا امت کے افراد یہ خیال کرنے لگیں کہ اللہ کی حلال کی ہوئی چیز کو اپنے اوپر حرام کر لینے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے ، اس لیے اللہ تعالی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فعل پر گرفت فرمائی اور آپ کو اس تحریم سے باز رہنے کا حکم دیا ۔ سورة التَّحْرِيْم حاشیہ نمبر :2 اس سے معلوم ہوا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے تحریم کا یہ فعل خود اپنی کسی خواہش کی بنا پر نہیں کیا تھا بلکہ بیویوں نے یہ چاہا تھا کہ آپ ایسا کریں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے محض ان کو خوش کرنے کے لیے ایک حلال چیز اپنے لیے حرام کر لی تھی ۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اللہ تعالی نے تحریم کے اس فعل پر ٹوکنے کے ساتھ اس کی اس وجہ کا ذکر خاص طور پر کیوں فرمایا ؟ ظاہر ہے کہ اگر مقصود کلام صرف تحریم حلال سے آپ کو باز رکھنا ہوتا تو یہ مقصد پہلے فقرے سے پورا ہو جاتا تھا اور اس کی ضرورت نہ تھی کہ جس وجہ سے آپ نے یہ کام کیا تھا اس کی بھی تصریح کی جاتی ۔ اس کو بطور خاص بیان کرنے سے صاف معلوم ہوتاہے کہ مقصد صرف حضور ہی کو تحریم حلال پر ٹوکنا نہیں تھا بلکہ ساتھ ساتھ ازواجِ مطہرات کو بھی اس بات پر متنبہ کرنا تھا کہ انہوں نے ازواجِ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہونے کی حیثیت سے اپنی نازک ذمہ داریوں کا احساس نہ کیا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک ایسا کام کرا دیا جس سے ایک حلال چیز کے حرام ہو جانے کا خطرہ پیدا ہو سکتا تھا ۔ اگرچہ قرآن میں یہ نہیں بتایا گیا کہ وہ چیز کیا تھی جسے حضور نے اپنے اوپر حرام کیا تھا ، لیکن محدثین و مفسرین نے اس سلسلے میں دو مختلف واقعات کا ذکر کیا ہے جو اس آیت کے نزول کا سبب بنے ۔ ایک واقعہ حضرت ماریہ قبطیہ کا ہے اور دوسرا واقعہ یہ کہ آپ نے شہد استعمال نہ کرنے کا عہد کر لیا تھا ۔ حضرت ماریہ کا قصہ یہ ہے کہ صلح حدیبیہ سے فارغ ہونے کے بعد رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جو خطوط اطراف و نواح کے بادشاہوں کو بھیجے تھے ان میں سے ایک اسکندریہ کے رومی بطریق ( Patriarch ) کے نام بھی تھا جسے عرب مقوقس کہتے تھے حضرت حاطب بن ابی بلتعہ یہ نامہ گرامی لے کر جب اسکے پاس پہنچے تو اس نے اسلام قبول نہ کیا ، مگر اس کے ساتھ اچھی طرح پیش آیا اور جواب میں لکھا مجھے یہ معلوم ہے کہ ایک نبی آنا ابھی باقی ہے ، لیکن میرا خیال یہ ہے کہ وہ شام میں نکلے گا ۔ تاہم میں آپ کے ایلچی کے ساتھ احترام سے پیش آیا ہوں اور آپ کی خدمت میں دو لڑکیاں بھیج رہا ہوں جو قبطیوں میں بڑا مرتبہ رکھتی ہیں ( ابن سعد ) ۔ ان لڑکیوں میں سے ایک سیرین تھیں اور دوسری ماریہ ( عیسائی حضرت مریم کو ماریہ Mary کہتے ہیں ) مصر سے واپسی پر راستہ میں حضرت حاطب نے دونوں کے سامنے اسلام پیش کیا اور وہ ایمان لے آئیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں تو آپ نے سیرین کو حضرت حسان بن ثابت کی ملک یمین میں دےدیا اور حضرت ماریہ کو اپنے حرم میں داخل فرمایا ۔ ذی الحجہ 8 ھجری میں انہی کے بطن سے حضور کے صاحبزادے ابراہیم پیدا ہوئے ( الاستیعاب ۔ الاصابہ ) ۔ یہ خاتون نہایت خوبصورت تھیں ۔ حافظ ابن حجر نے الاصابہ میں ان کے متعلق حضرت عائشہ کا یہ قول نقل کیا ہے کہ مجھے کسی کا آنا اس قدر ناگوار نہ ہوا جتنا ماریہ کا آنا ہوا تھا ، کیونکہ وہ حسین و جمیل تھیں اور حضور کو بہت پسند آئی تھیں ۔ ان کے بارے میں متعدد طریقوں سے جو قصہ احادیث میں نقل ہوا ہے وہ مختصراً یہ ہے کہ ایک روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت حفصہ کے مکان میں تشریف لے گئے اور وہ گھر پر موجود نہ تھیں ۔ اس وقت حضرت ماریہ آپ کے پاس وہاں آ گئیں اور تخلیہ میں آپ کے ساتھ رہیں ۔ حضرت حفصہ کو یہ بات ناگوار گزری اور انہوں نے حضور سے اس کی سخت شکایت کی ۔ اس پر آپ نے ان کو راضی کرنے کے لیےان سے یہ عہد کر لیا کہ آئندہ ماریہ سے کوئی ازدواجی تعلق نہ رکھیں گے ۔ بعض روایات میں یہ ہے کہ آپ نے ماریہ کو اپنے اوپر حرام کر لیا ، اور بعض میں بیان کیا گیا ہے کہ آپ نے اس پر قسم بھی کھائی تھی ۔ یہ روایات زیادہ تر تابعین سے مرسلا نقل ہوئی ہیں ، لیکن ان میں سے بعض حضرت عمر ، حضرت عبداللہ بن عباس اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہم سے بھی مروی ہیں ۔ ان کی کثرت طرق دیکھتے ہوئے حافظ ابن حجر نے فتح الباری میں یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ اس قصے کی کوئی نہ کوئی اصل ضرور ہے ۔ مگر صحاح ستہ میں سے کسی میں بھی یہ قصہ نقل نہیں کیا گیا ہے ۔ نسائی میں حضرت انس سے صرف اتنی بات منقول ہوئی ہے کہ حضور کی ایک لونڈی تھی جس سے آپ تمتع فرماتے تھے پھر حضرت حفصہ اور حضرت عائشہ آپ کے پیچھے پڑ گئیں یہاں تک کہ آپ نے اسے اپنے اوپر حرام کر لیا ۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ اے نبی تم کیوں اس چیز کو حرام کرتے ہو جسے اللہ نے تمہارے لیے حلال کیا ہے ۔ دوسرا واقعہ بخاری ، مسلم ، ابو داؤد ، نسائی اور دوسری متعدد کتب حدیث میں خود حضرت عائشہ سے جس طرح نقل ہوا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بالعموم ہر روز عصر کے بعد تمام ازواج مطہرات کے ہاں چکر لگاتے تھے ۔ ایک موقع پر ایسا ہوا کہ آپ حضرت زینب بنت جحش کے ہاں جا کر زیادہ دیر بیٹھنے لگے ، کیونکہ ان کے ہاں کہیں سے شہد آیا ہوا تھا ، اور حضور کو شیرینی بہت پسند تھی ، اس لیے آپ ان کےہاں شہد کاشربت نوش فرماتے تھے ۔ حضرت عائشہ کا بیان ہے کہ مجھ کو اس پر رشک لاحق ہوا اور میں نے حضرت حفصہ ، سودہ اور حضرت صفیہ سے مل کر یہ طے کیا کہ ہم میں سے جس کے پاس بھی آپ آئیں وہ آپ سے کہے کہ آپ کے منہ سے مغافیر کی بو آتی ہے ۔ مغافیر ایک قسم کا پھول ہوتا ہے جس میں کچھ بساند ہوتی ہے اور اگر شہد کی مکھی اس سے شہد حاصل کرے تو اس کے ا ندر بھی اس بساند کا اثر آ جاتا ہے ۔ یہ بات سب کو معلوم تھی کہ حضور نہایت نفاست پسند ہیں اور آپ کو اس سے سخت نفرت ہے کہ آپ کے اندر کسی قسم کی بد بو پائی جائے ۔ اس لیے آپ کو حضرت زینب کے ہاں ٹھیرنے سےروکنے کی خاطریہ تدبیر کی گئی اور یہ کارگر ہوئی ۔ جب متعدد بیویوں نے آپ سے کہا کہ آپ کے منہ سے مغافیر کی بو آئی ہے تو آپ نے عہد کر لیا کہ اب یہ شہد استعمال نہیں فرمائیں گے ۔ ایک روایت میں آپ کے الفاظ یہ ہیں کہ فلن اعود لہ و قد حلفت اب میں ہرگز اسے نہ پیونگا ، میں نے قسم کھا لی ہے ۔ دوسری روایت میں صرف فلن اعودلہ کے الفاظ ہیں ، وقد حلفت کا ذکر نہیں ہے ۔ اور ابن عباس سے بروایت ابن المنذر ، ابن ابی حاتم ، طبرانی اور ابن مردویہ نے نقل کی ہے اس میں یہ الفاظ ہیں کہ واللہ لااشربہ خدا کی قسم میں اسے نہ پیو گا ۔ اکابر اہل علم نے ان دونوں قصوں میں سے اسی دوسرے قصے کو صحیح قرار دیا ہے اور پہلے قصے کو ناقابلِ اعتبار ٹھیرایا ہے ۔ امام نسائی کہتے ہیں کہ شہد کے معاملہ میں حضرت عائشہ کی حدیث نہایت صحیح ہے ، اور حضرت ماریہ کو حرام کر لینے کا حصہ کسی عمدہ طریقہ سے نقل نہیں ہوا ہے ۔ قاضی عیاض کہتے ہیں صحیح یہ ہے کہ یہ آیت ماریہ کے معاملہ میں نہیں بلکہ شہد کے معاملہ میں نازل ہوئی ہے ۔ قاضی ابو بکرابن العربی بھی شہد ہی کے قصے کو صحیح قرار دیتے ہیں ، اور یہی رائے امام نووی اور حافظ بدر الدین عینی کی ہے ۔ ابن ہمام فتح القدیر میں کہتے ہیں کہ شہد کی تحریم کا قصہ صحیحین میں خود حضرت عائشہ سے مروی ہے جن کے ساتھ یہ معاملہ پیش آیا تھا ، اس لیے یہی زیادہ قابل اعتبار ہے ۔ حافظ ابن کثیر کہتے ہیں صحیح بات یہ ہے کہ یہ آیت شہد کو اپنے اوپر حرام کر لینے کے بارے میں نازل ہوئی ہے ۔ سورة التَّحْرِيْم حاشیہ نمبر :3 یعنی بیویوں کی خوشی کی خاطر ایک حلال چیز کو حرام کر لینے کا جو فعل آپ سے صادر ہوا ہے یہ اگرچہ آپ کے اہم ترین ذمہ دارانہ منصب کے لحاظ سے مناسب نہ تھا ، لیکن یہ کوئی گناہ بھی نہ تھا کہ اس پر مواخذہ کیا جائے ۔ اس لیے اللہ تعالی نے صرف ٹوک کر اس کی اصلاح کر دینے پر اکتفا فرمایا اور آپ کی اس لغزش کو معاف کر دیا ۔
اس سورت کی ابتدائی آیتوں کے شان نزول میں مفسرین کے اقوال یہ ہیں ( ا ) بعض تو کہتے ہیں یہ حضرت ماریہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے انہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اوپر حرام کر لیا تھا جس پر یہ آیتیں نازل ہوئیں ، نسائی میں یہ روایت موجود ہے کہ حضرت عائشہ اور حضرت حفصہ کے کہنے سننے سے ایسا ہوا تھا کہ ایک لونڈی کی نسبت آپ نے یہ فرمایا تھا اس پر یہ آیتیں نازل ہوئیں ، ابن جریر میں ہے کہ ام ابراہیم کے ساتھ آپ نے اپنی کسی بیوی صاحبہ کے گھر میں بات چیت کی جس پر انہوں نے کہا یا رسول اللہ میرے گھر میں اور میرے بستر پر؟ چنانچہ آپ نے اسے اپنے اوپر حرام کر لیا تو انہوں نے کہا یا رسول اللہ کہ حلال آپ پر حرام کیسے ہو جائے گا ؟ تو آپ نیقسم کھائی کہ اب ان سے اس قسم کی بات چیت نہ کروں گا ۔ اس پر یہ آیت اتری ، حضرت زید فرماتے ہیں اس سے معلوم ہوا کہ کسی کا یہ کہہ دینا کہ تو مجھ پر حرام ہے لغو اور فضول ہے ، حضرت زید بن اسلم فرماتے ہیں آپ نے یہ فرمایا تھا کہ تو مجھ پر حرام ہے اللہ کی قسم میں تجھ سے صحبت داری نہ کروں گا ۔ حضرت مسروق فرماتے ہیں پس حرام کرنے کے باپ میں تو آپ پر عتاب کیا گیا اور قسم کے کفارے کا حکم ہوا ، ابن جریر میں ہے کہ حضرت ابن عباس نے حضرت عمر سے دریافت کیا کہ یہ دونوں عورتیں کون تھیں؟ فرمایا عائشہ اور حفصہ اور ابتدا قصہ ام ابراہیم قطبیہ کے بارے میں ہوئی ۔ حضرت حفضہ کے گھر میں ان کی باری والے دن حضور صلی اللہ علیہ وسلم ان سے ملے تھے ۔ جس پر حضرت حفضہ کو رنج ہوا کہ میری باری کے دن میرے گھر اور میرے بستر پر؟ حضور نے انہیں رضامند کرنے اور منانے کے لئے کہہ دیا کہ میں اسے اپنے اوپر حرام کرتا ہوں ، اب تم اس واقعہ کا ذکر کسی سے نہ کرنا لیکن حضرت حفضہ نے حضرت عائشہ سے واقعہ کہہ دیا کہ میں اسے اپنے اوپر حرام کرتا ہوں ، اب تم اس واقعہ کا ذکر کسی سے نہ کرنا لیکن حضرت حفضہ نے حضرت عائشہ سے واقعہ کہہ دیا اللہ نے اس کی اطلاعق اپنے نبی کو دے دی اور یہ کل آیتیں نازل فرمائیں ، آپ نے کفارہ دے کر اپنی قسم توڑ دی اور اس لونڈی سے ملے جلے ، اسی واقعہ کو دلیل بنا کر حضرت عبداللہ بن عباس کا فتویٰ ہے کہ جو کہے فلاں چیز مجھ پر حرام ہے اسے قسم کا کفارہ دینا چاہئے ، ایک شخص نے آپ سے یہی مسئلہ پوچھا کہ میں اپنی عورت کو اپنے اوپر حرام کر چکا ہوں تو آپ نے فرمایا وہ تجھ پر حرام نہیں ، سب سے زیادہ سخت کفارہ اس کا تو راہ اللہ غلام آزاد کرنا ہے ۔ امام احمد اور بہت سے فقہاء کا فتویٰ ہے کہ جو شخص اپنی بیوی ، لونڈی یا کسی کھانے پینے پہننے اوڑھنے کی چیز کو اپنے اوپر حرام کر لے تو اس پر کفارہ واجب ہو جاتا ہے ۔ امام شافعی وغیرہ فرماتے ہیں صرف بیوی اور لونڈی کے حرام کرنے پر کفارہ ہے کسی اور پر نہیں ، اور اگر حرام کہنے سے نیت طلاق کی رکھی تو بیشک طلاق ہو جائے گی ، اسی طرح لونڈی کے بارے میں اگر آزادگی کی نیت حرام کا لفظ کہنے سے رکھی ہے تو وہ آزاد ہو جائے گی ۔ ( 2 ) ابن عباس سے مروی ہے کہ یہ آیت اس عورت کے باب میں نازل ہوئی ہے جس نے اپنا نفس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ہبہ کیا تھا ، لیکن یہ غریب ہے ، بالکل صحیح بات یہ ہے کہ ان آیتوں کا اترنا آپ کے شہد حرام کر لینے پر تھا ۔ ( 3 ) صحیح بخاری میں اس آیت کے موقعہ پر کہ حضرت زینب بنت بخش رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے گھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شہد پیتے تھے اور اس کی خاطر ذرا سی دیر وہاں ٹھہرتے بھی تھے اس پر حضرت عائشہ حضرت عائشہ اور حضرت حفضہ نے آپس میں مشورہ کیا کہ ہم میں سے جس کے ہاں حضور صلی اللہ علیہ وسلم آئیں وہ کہے کہ یا رسول اللہک آج تو آپ کے منہ سے گوند کی سی بدبو آتی ہے شاید آپ نے مغافیر کھایا ہو گا چنانچہ ہم نے یہی کیا آپ نے فرمایا نہیں میں نے تو زینب کے گھر شہد پیا ہے اب قسم کھاتا ہو کہ نہ پیوں گا یہ کسی سے کہنا مت ، امام بخاری اس حدیث کو کتاب الایمان والندوہ میں بھی کچھ زیادتی کے ساتھ لائے ہیں جس میں ہے کہ دونوں عورتوں سے یہاں مراد عائشہ اور حفصہ ہیں رضی اللہ عنہما اور چپکے سے بات کہنا یہی تھا کہ میں نے شہد پیا ہے ، کتاب الطلاق میں امام صاحب رحمتہ اللہ علیہ اس حدیث کو لائے ہیں ۔ پھر فرمایا ہے مغافیر گوندے کے مشابہ ایک چیز ہے جو شور گھاس میں پیدا ہوتی ہے اس میں قدرے مٹھاس ہوتی ہے ۔ صحیح خباری شریف کی کتاب الطلاق میں یہ حدیث حضرت عائشہ سے ان لافاظ میں مروی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو مٹھاس اور شہد بہت پسند تھا عصر کی نماز کے بعد اپنی بیویوں کے گھر آتے اور کسی سے نزدیکی کرتے ایک مرتبہ آپ حضرت حفضہ کے گئے اور جتنا وہاں رکتے تھے اس سے زیادہ رکے مجھے غیرت سوار ہوئی تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ ان کی قوم کی ایک عورت نے ایک کپی شہد کے انہیں بطور ہدیہ کے بھیجی ہے ، انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو شہد کا شربت پلایا اور اتنی دیر روک رکھا میں نے کہا خیر اس کسی حیلے سے ٹال دوں گی چنانچہ میں نے حضرت سودہ بنت زمعہ سے کہا کہ تمہارے پاس جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم آئیں اور قریب ہوں تو تم کہنا کہ آج کیا آپ نے مغافیر کھایا ہے آپ فرمائیں گے نہیں تم کہنا پھر یہ بدبو کیسی آتی ہے؟ آپ فرمائیں گے مجھے حفضہ نے شہد پلایا تھا تو تم کہنا کہ شاید شہد کی مکھی نے عرفط نامی خار دار درخت چوسا ہو گا ، میرے پاس آئیں گے میں بھی یہی کہوں گی ، پھر اے صفیہ تمہارے پاس جب آئیں تو تم بھی یہی کنا ، حضرت سودہ فرماتی ہیں جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم میرے گھر آئے ابھی تو دروازے ہی پر تھے جو میں نے ارادہ کیا کہ تم نے جو مجھ سے کہا میں آپ سے کہہ دوں کیونکہ میں تم سے بہت ڈرتی تھی لیکن خیر اس وقت تو خاموش رہی جب آپ میرے پاس آئے میں نے تمہارا تمام کہنا پورا کر دیا ، پھر حضرت صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس آئے میں نے بھی یہی کہا پھر حضرت صفیہ کے پاس گئے انہوں نے بھی یہی کہا پھر جب حضرت حفضہ کے پاس گئے تو حضرت حفضہ نے شہد کا شربت پلانا چاہا آپ نے فرمایا مجھے اس کی حاجت نہیں ، حضرت سودہ فرمانے لگیں افسوس ہم نے اسے حرام کرا دیا میں نے کہا خاموش رہو ، صحیح مسلم کی اس حدیث میں اتنی زیادتی اور ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بدبو سے سخت نفرت تھی اسی لئے ان بیویوں نے کہا تھا کہ آپ نے مغافیر کھایا ہے اس میں بھی قدرے بدبو ہوتی ہے ، جب آپ نے جواب دیا کہ نہیں میں نے تو شہد پیا ہے تو انہوں نے کہہ دیا کہ پھر اس شہد کی مکھی نے عرفط درخت کو چوسا ہو گا جس کے گوند کا نام مغافیر ہے اور اس کے اثر سے اس شہد میں اس کی بو رہ گئی ہو گی ، اس روایت میں لفظ جرست ہے جس کے معنی جوہری نے کئے ہیں کھایا اور شہد کی مکھیوں کو بھی جو راس کہتے ہیں اور جرس مد ہم ہلکی آواز کو کہتے ہیں ، عرب کہتے ہیں جبکہ پرنددانہ چگ رہا ہو اور اس کی چونچ کی آواز سنائی دیتی ہو ، ایک حدیث میں ہے پھر وہ جنتی پرندوں کی ہلکی اور میٹھی سہانی آوازیں سنیں گے ، یہاں بھی عربی میں لفظ جرس ہے ، اصمعی کہتے ہیں میں حضرت شعبہ کی مجلس میں تھا وہاں انہوں نے اس لفظ جرس کو جرش بڑی شین کے ساتھ پڑھا میں نے کہا چھوٹے سین سے ہے حضرت شعبہ نے میری طرف دیکھا اور فرمایا یہ ہم سے زیادہ اسے جانتے ہیں یہی ٹھیک ہے تم اصلاح کر لو ، الغرض شہد نوشی کے واقعہ میں شہد پلانے والیوں میں دو نام مروی ہیں ایک حضرت حفضہ کا دوسرا حضرت زینب کا بلکہ اس امر پر اتفاق کرنے والیوں میں حضرت عائشہ کے ساتھ حضرت حفضہ کا نام ہے پس ممکن ہے یہ وہ واقعہ ہوں ، یہاں تک تو ٹھیک ہے لیکن ان دونوں کے بارے میں اس آیت کا نازل ہونا ذرا غور طلب ہے واللہ اعلم ، آپس میں اس قسم کا مشورہ کرنے والی حضرت عائشہ اور حضرت حفضہ تھیں یہ اس حدیث سے بھی معلوم ہوتا ہے جو مسند امام احمد میں حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے فرماتے ہیں مجھے مدتوں سے آرزو تھی کہ حضرت عمر سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ان دونوں بیوی صاحبان کا نام معلوم کروں جن کا ذکر آیت ان تتوبا الخ ، میں ہے پس حج کے سفر میں جب خلیفتہ الرسول چلے تو میں بھی ہم رکاب ہو لیا ایک راستے میں حضرت عمر راستہ چھوڑ جنگل کی طرف چلے میں ڈولچی لئے ہوئے پیچھے پیچھے گیا آپ حاجت ضروری سے فارغی ہو کر آئے میں نے پانی ڈلوایا اور وضو کرایا ، اب موقعہ پا کر سوال کیا کہ اے امیر المومنین جن کے بارے میں یہ آیت ہے وہ دونوں کون ہیں؟ آپ نے فرمایا ابن عباس افسوس ، حضرت زہری فرماتے ہیں حضرت عمر کو ان کا یہ دریافت کرنا برا معلوم ہوا لیکن چھپانا جائز نہ تھا اس لئے جواب دیا اس سے مراد حضرت عائشہ اور حضرت حفصہ ہیں رضی اللہ عنہما پھر حضرت عمر نے واقعہ بیان کرنا شروع کیا کہ ہم قریش تو اپنی عورتوں کو اپنے زیر فرمان رکھتے تھے لیکن مدینہ آئے تو ہماری عورتوں نے بھی ان کی دیکھا دیکھی ہم پر غلبہ حاصل کرنا چاہا ۔ میں مدینہ شریف کے بالائی حصہ میں حضرت امیہ بن زید کے گھر میں ٹھہرا ہوا تھا ایک مرتبہ میں اپنی بیوی پر کچھ ناراض ہوا اور کچھ کہنے سننے لگا تو پلٹ کر اس نے مجھے جواب دینے شروع کئے مجھے نہایت برا معلوم ہوا کہ یہ کیا حرکت ہے؟ یہ نئی بات کیسی؟ اس نے میرا تعجب دیکھ کر کہا کہ آپ کس خیال میں ہیں؟ اللہ کی قسم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بیواں بھی آپ کو جواب دیتی ہیں اور بعض مرتبہ تو دن دن بھر بول چال چھوڑ دیتی ہیں اب میں تو ایک دوسری الجھن میں پڑ گیا سیدھا اپنی بیٹی حفصہ کے گھر گیا اور دریافت کیا کہ کیا یہ سچ ہے کہ تم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو جواب دیتی ہو اور کبھی کبھی سارا سارا دن روٹھی رہتی ہو؟ جواب ملا کہ سچ ہے ۔ میں نے کہا کہ برباد ہوئی اور نقصان میں پڑی جس نے ایسا کیا ۔ کیا تم اس سے غافل ہوگئیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غصہ کی وجہ سے ایسی عورت پر اللہ ناراض ہو جائے اور وہ کہیں کی نہ رہے؟ خبردار آئندہ سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی جواب نہ دینا نہ آپ سے کچھ طلب کرنا جو مانگنا ہو مجھ سے مانگ لیا کرو ، حضرت عائشہ کو دیکھ کر تم ان کی حرص نہ کرنا وہ تم سے اچھی اور تم سے بہت زیادہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی منظور نظر ہیں ۔ اب اور سنو میرا پڑوسی ایک انصاری تھا اس نے اور میں نے باریاں مقرر کر لی تھیں ایک دن میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں گذارتا اور ایک دن وہ ، میں اپنی باری والے دن کی تمام حدیثیں آیتیں وغیرہ انہیں آ کر سنا دیتا اور یہ بات ہم میں اس وقت مشہور ہو رہی تھی کہ غسانی بادشاہ اپنے فوجی گھوڑوں کے نعل لگوا رہا ہے اور اس کا ارادہ ہم پر چڑھائی کرنے کا ہے ، ایک مرتبہ میرے ساتھی اپنی باری والے دن گئے ہوئے تھے عشاء کے وقت آ گئے اور میرا دروازہ کھڑ کھڑا کر مجھے آوازیں دینے لگے میں گھبرا کر باہر نکلا دریافت کیا خریت تو ہے؟ اس نے کہا آج تو بڑا بھاری کام ہو گیا میں نے کہا کیا غسانی بادشاہ آ پہنچا ؟ اس نے کہا اس سے بھی بڑھ کر میں نے پوچھا وہ کیا ؟ کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی میں نے کہا افسوس حفصہ برباد ہو گئی اور اس نے نقصان اٹھایا مجھے پہلے ہی سے اس امر کا کھٹکا تھا صبح کی نماز پڑھتے ہی کپڑے پہن کر میں چلا سیدھا حفضہ کے پاس گیا دیکھا کہ وہ رو رہی ہیں میں نے کہا کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہیں طلاق دے دی؟ جواب دیا یہ تو کچھ معلوم نہیں ، آپ ہم سے الگ ہو کر اپین اس بالا خانہ میں تشریف فرما ہیں میں وہاں گیا دیکھا کہ ایک حبشی غلام پہرے پر ہے میں نے کہا جاؤ میرے لئے اجازت طلب کرو وہ گیا پھر آ کر کہنے لگا حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ جواب نہیں دیا میں وہاں سے واپس چلا آیا مسجد میں گیا دیکھا کہ منبر کے پاس ایک گروہ صحابہ کا بیٹھا ہوا ہے اور بعض بعض کے تو آنسو نکل رہے ہیں ، میں تھوڑی سی دیر بیٹھا لیکن چین کہاں پھر اٹھ کھڑا ہوا اور وہاں جا کر غلام سے کہا کہ میرے لئے اجازت طلبب کرو اس نے پھر آ کر یہی کہا کہ کچھ جواب نہیں ملا ، میں دوبارہ مسجد چلا گیا پھر وہاں سے گھبرا کر نکلا یہاں آیا پھر غلام سے کہا غلام گیا آیا اور وہی جواب دیا میں واپس مڑا ہی تھا کہ غلام نے مجھے آواز دی کہ آیئے آپ کو اجازت مل گئی میں گیا دیکھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ایک بورے پر ٹیک لگائے بیٹھے ہوئے ہیں جس کے نشان آپ کے جسم مبارک پر ظاہر ہیں میں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا آپ نے اپنی بیویوں کو طلاق دے دی ہے؟ آپ نے سر اٹھا کر میری طرف دیکھا اور فرمایا نہیں ، میں نے کہا اللہ اکبر! یا رسول اللہک بات یہ ہے کہ ہم قوم قریش تو اپنی بیویوں کو اپنے دباؤ میں رکھا کرتے تھے لیکن مدینے والوں پر ان کی بیویاں غالب ہیں یہاں آ کر ہماری عورتوں نے بھی ان کی دیکھا دیکھی یہی حرکت شروع کر دی ، پھر میں نے اپنی بیوی کا واقعہ اور میرا یہ خبر پا کر کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوایں بھی ایسا کرتی ہیں یہ کہنا کہ کیا انہیں ڈر نہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے غصہ کی وجہ سے اللہ بھی ان سے ناراض ہو جائے اور وہ ہلاک ہو جائیں بیان کیا اس پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم مسکرا دیئے ۔ میں نے پھر اپنا حفصہ کے پاس جانا اور انہیں حضرت عائشہ کی ریس کرنے سے روکنا بیان کیا اس پر دوبارہ مسکرائے میں نے کہا اگر اجازت ہو تو ذرا سی دیر اور رک جاؤں؟ آپ نے اجازت دی میں بیٹھ گیا اب جو سر اٹھا کر چاروں طرف نظریں دوڑائیں تو آپ کی بیٹھک ( دربار خاص ) میں سوائے تین خشک کھالوں کے اور کوئی چیز نہ دیکھی ، آزردہ دل ہو کر عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دعا کیجئے کہ اللہ تعالیٰ آپ کی امت پر کشادگی کرے دیکھئے تو فارسی اور رومی جو اللہ کی عبادت ہی نہیں کرتے انہیں کس قدر دنیا کی نعمتوں میں وسعت دی گئی ہے؟ یہ سنتے ہی آپ سنبھل بیٹھے اور فرمانے لگے اے ابن خطاب کیا تو شک میں ہے؟ اس قوم کی اچھائیاں انہیں بہ عجلت دنیا میں ہی دے دی گئیں میں نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم میرے لئے اللہ سے طلب بخشش کیجئے ، بات یہ تھی کہ آپ نے سخت ناراضگی کی وجہ سے قسم کھالی تھی کہ مہینہ بھر تک اپنی بیویوں کے پاس نہ جاؤں گا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو تنبیہہ کی ، یہ حدیث بخاری مسلم ترمذی اور نسائی میں بھی ہے ، بخاری مسلم کی حدیث میں ہے ابن عباس فرماتے ہیں سال بھر اسی امید میں گذر گیا کہ موقعہ ملے تو حضرت عمر سے ان دونوں کے نام دریافت کروں لیکن ہیبت فاروقی سے ہمت نہیں پڑتی تھی یہاں تک کہ حج کی واپسی میں پوچھا پھر پوری حدیث بیان کی جو اوپر گذر چکی ، صحیح مسلم میں ہے کہ طلاق کی شہرت کا واقعہ پردہ کی آیتوں کے نازل ہونے سے پہلے کا ہے ، اس میں یہ بھی ہے حضرت عمر جس طرح حضرت حفضہ کے پاس جا کر انہیں سمجھا آئے تھے اسی طرح حضرت عائشہ کے پاس بھی ہو آئے تھے ، اور یہ بھی ہے کہ اس غلام کا نام جو ڈیوڑھی پر پہرہ دے رہے تھے حضرت رباح تھا رضی اللہ عنہ ، یہ بھی ہے کہ حضرت عمر نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا آپ عورتوں کے بارے میں اس مشقت میں کیوں پڑتے ہیں؟ اگر آپ انہیں طلاق بھی دے دیں دیں تو آپ کے ساتھ اللہ تعالیٰ ، اس کے فرشتے ، جبرائیل ، میکائیل اور میں اور ابو بکر اور جملہ مومن ہیں ، حضرت عمر فرماتے ہیں الحمد اللہ میں اس قسم کی جو بات کہتا مجھے امید لگی رہتی کہ اللہ تعالیٰ میری بات کی تصدیق نازل فرمائے گا ، پس اس موقعہ پر بھی آیت تخبیر یعنی ( عَسٰى رَبُّهٗٓ اِنْ طَلَّقَكُنَّ اَنْ يُّبْدِلَهٗٓ اَزْوَاجًا خَيْرًا مِّنْكُنَّ مُسْلِمٰتٍ مُّؤْمِنٰتٍ قٰنِتٰتٍ تٰۗىِٕبٰتٍ عٰبِدٰتٍ سٰۗىِٕحٰتٍ ثَيِّبٰتٍ وَّاَبْكَارًا Ĉ۝ ) 66- التحريم:5 ) اور ( وَاِنْ تَظٰهَرَا عَلَيْهِ فَاِنَّ اللّٰهَ هُوَ مَوْلٰىهُ وَجِبْرِيْلُ وَصَالِحُ الْمُؤْمِنِيْنَ ۚ وَالْمَلٰۗىِٕكَةُ بَعْدَ ذٰلِكَ ظَهِيْرٌ Ć۝ ) 66- التحريم:4 ) ، آپ پر نازل ہوئیں ، مجھے جب آپ سے معلوم ہوا کہا آپ نے اپنی ازواج مطہرات کو طلاق نہیں دی تو میں نے مسجد میں آ کر دروازے پر کھڑا ہو کر اونچی آواز سے سب کو اطلاع دے دی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ازواج مطہرات کو طلاق نہیں دی ، اسی کے بارے میں آیت الخ آخر تک اتری یعنی جہاں انہیں کوئی امن کی یا خوف کی خبر پہنچی کہ یہ اسے شہرت دینے لگتے ہیں اگر یہ اس خبر کو رسول صلی اللہ علیہ وسلم یا ذی عقل و علم مسلمانوں تک پہنچا دیتے تو بیشک ان میں سے جو لوگ محقق ہیں وہ اسے سمجھ لیتے ۔ حضرت عمر یہاں تک اس آیت کو پڑھ کر فرماتے پس اس امر کا استنباط کرنے والوں میں سے میں ہی ہوں اور بھی بہت سے بزرگ مفسرین سے مروی ہے کہ صالح المومنین سے مراد حضرت ابو بکر حضرت عمر ہیں ، بعض نے حضرت عثمان کا نام بھی لیا ہے بعض نے حضرت علی کا ۔ ایک ضعیف حدیث میں مرفوعاً صرف حضرت علی کا نام ہے لیکن سند ضعیف ہے اور بالکل منکر ہے ، صحیح بخاری شریف میں ہے کہ آپ کی بیویاں غیرت میں آ گئیں جس پر میں نے ان سے کہا کہ اگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم تمہیں طلاق دے دیں گے تو اللہ تعالیٰ تم سے بہتر بیویاں آپ کو دے گا پس میرے لفظوں ہی میں قرآن کی یہ آیت اتری ، پہلے یہ بیان ہو چکا ہے کہ حضرت عمر صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت سی باتوں میں قرآن کی موافقت کی جیسے پردے کے بارے میں بدری قیدیوں کے بارے میں مقام ابراہیم کو قبلہ ٹھہرانے کے بارے میں ، ابن ابی حاتم کی روایت میں ہے کہ مجھے جب امہات المومنین کی اس رنجش کی خبر پہنچی تو ان کی خدم تمیں میں گیا اور انہیں بھی کہنا شروع کیا یہاں تک کہ آخری ام المومنین کے پاس ہپنچا تو مجھے جواب ملا کہ کیا ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خود نصیحت کرنے کے لئے کم ہیں جو تم آ گئے؟ اس پر میں خاموش ہو گیا لیکن قرآن میں آیت عسی ربہ الخ ، نازل ہوئی ، صحیح بخاری میں ہے کہ جواب دینے والی ام المومنین حضرت ام سلمہ تھیں ۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں جو بات حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے چپکے سے اپنی بیوی صاحبہ سے کہی تھی اس کا واقعہ یہ ہے کہ آپ حضرت حفضہ کی گھر میں تھے وہ تشریف لائیں اور حضرت ماریہ سے آپ کو مشغول پایا تو آپ نے انہیں فرمایا تم ( حضرت ) عائشہ کو خبر نہ کرنا میں تمہیں ایک بشارت سناتا ہوں میرے انتقال کے بعد میری خلافت ( حضرت ) ابو بکر کے بعد تمہارے والد آئیں گے ۔ حضرت حفضہ نے حضرت عائشہ کو خبر کر دی پس حضرت عائشہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا اس کی خبر آپ کو کس نے پہنچائی؟ آپ نے فرمایا مجھے علیم و خبیر اللہ نے خبر پہنچائی ، صدیقہ نے کہا میں آپ کی طرف نہ دیکھوں گی جب تک کہا آپ ماریہ کو اپنے اوپر حرام نہ کرلیں آپ نے حرام کر لی اس پر آیت ( يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَآ اَحَلَّ اللّٰهُ لَكَ ۚ تَبْتَغِيْ مَرْضَاتَ اَزْوَاجِكَ ۭ وَاللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ Ǻ۝ ) 66- التحريم:1 ) ، نازل ہوئی ( طبرانی ) لیکن اس کی سند مخدوش ہے ، مقصد یہ ہے کہ ان تمام روایات سے ان پاک آیتوں کی تفسی ظاہر ہو گئی ۔ ترجمہ کی تفسیر تو ظاہر ہی ہے سائحات کی تفسیر ایک تو یہ ہے کہ روزے رکھنے والیاں ایک مرفوع حدیث میں بھی یہی تفسیر اس لفظ کی آئی ہے جو حدیث سورہ برات کے اس لفظ کی تفسیر میں گذر چکی ہے کہ اس امت کی سیاحت روزے رکھنا ہے ، دوسری تفسیر یہ ہے کہ مراد اس ہجرت کرنے والیاں ، لیکن اول قول ہی اولیٰ ہے واللہ اعلم ، پھر فرمایا ان میں سے بعض بیوہ ہوں گی اور بعض کنواریاں اس لئے جی خوش رہے ، قسموں کی تبدیلی نفس کو بھلی معلوم ہوتی ہے ، معجم طبرانی میں ابن یزید اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس آیت میں جو وعدہ فرمایا ہے اس سے مراد بیوہ سے تو حضرت آسیہ ہیں جو فرعون کی بیوی تھیں اور کنواری سے مراد حضرت مریم ہیں جو حضرت عمران کی بیٹی تھیں ، ابن عساکر میں ہے کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اس وقت حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا آپ کے پاس آئیں تو حضرت جبرائیل نے فرمایا اللہ تعالیٰ حضرت خدیجہ کو سلام کہتا ہے اور فرماتا ہے کہ انہیں خوشی ہو جنت کے ایک چاندی کے گھر کی جہاں نہ گرمی ہے نہ تکلیف ہے نہ شورو غل جو چھدے ہوئی موتی کا بنا ہوا ہے جس کے دائیں بائیں مریم بنت عمران اور آسیہ بنت مزاحم کے مکانات ہیں اور روایت میں ہے کہ حضرت خدیجہ کے انتقال کے وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے خدیجہ اپنی سوکنوں سے میرا سلام کہنا حضرت خدیجہ نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا مجھ سے پہلے بھی کسی سے نکاح کیا تھا ؟ آپ نے فرمایا نہیں مگر اللہ تعالیٰ نے مریم بنت عمران اور آسیہ زوجہ فرعون اور کلثوم بہن موسیٰ کی ان تینوں کو میرے نکاح میں دے رکھا ہے ، یہ حدیث بھی ضعیف ہے ، عمران اور آسیہ زوجہ فرعون اور کلثوم بہن موسیٰ کی ان تینوں کو میرے نکاح میں دے رکھا ہے ، یہ حدیث بھی ضعیف ہے ، حضرت ابو امامہ سے ابو یعلی میں مروی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا جانتے ہو اللہ تعالیٰ نے جنت میں میرا نکاح مریم بنت عمران کلثوم اخت موسیٰ اور آسیہ زوجہ فرعون سے کر دیا ہے ، میں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ کو مبارک ہو ، یہ حدیث بھی ضعیف ہے اور ساتھ ہی مرسل بھی ہے ۔