Surah

Information

Surah # 66 | Verses: 12 | Ruku: 2 | Sajdah: 0 | Chronological # 107 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD)
قَدۡ فَرَضَ اللّٰهُ لَـكُمۡ تَحِلَّةَ اَيۡمَانِكُمۡ‌ؕ وَاللّٰهُ مَوۡلٰٮكُمۡ‌ۚ وَهُوَ الۡعَلِيۡمُ الۡحَكِيۡمُ‏ ﴿2﴾
تحقیق کہ اللہ تعالٰی نے تمہارے لئے قسموں کو کھول ڈالنا مقرر کر دیا ہے اور اللہ تمہارا کارساز ہے وہی ( پورے ) علم والا ، حکمت والا ہے ۔
قد فرض الله لكم تحلة ايمانكم و الله مولىكم و هو العليم الحكيم
Allah has already ordained for you [Muslims] the dissolution of your oaths. And Allah is your protector, and He is the Knowing, the Wise.
Tehqeeq kay Allah Taalaa ney tumharay liye qasmon ka khol daalna muqarrar ker diya hai aur Allah Taalaa tumhara kaar saaz hai aur wohi ( pooray ) ilm wala hikmat wala hai.
اللہ نے تمہاری قسموں سے نکلنے کا طریقہ مقرر کردیا ہے ، ( ٢ ) اور اللہ تمہارا کارساز ہے اور وہی ہے جس کا علم بھی کامل ہے ، حکمت بھی کامل ۔
بیشک اللہ نے تمہارے لیے تمہاری قسموں کا اتار مقرر فرمادیا ( ف۳ ) اور اللہ تمہارا مولیٰ ہے ، اور اللہ علم و حکمت والا ہے ،
اللہ نے تم لوگوں کے لیے اپنی قسموں کی پابندی سے نکلنے کا طریقہ مقرر کر دیا ہے4 ۔ اللہ تمہارا مولی ہے ، اور وہی علیم و حکیم ہے5 ۔
۔ ( اے مومنو! ) بیشک اللہ نے تمہارے لئے تمہاری قَسموں کا ( کفارہ دے کر ) کھول ڈالنا مقرر فرما دیا ہے ۔ اور اللہ تمہارا مددگار و کارساز ہے ، اور وہ خوب جاننے والا بڑی حکمت والا ہے
سورة التَّحْرِيْم حاشیہ نمبر :4 مطلب یہ ہے کہ کفارہ دے کر قسموں کی پابندی سے نکلنے کا جو طریقہ اللہ تعالی نے سورۃ مائدہ ، آیت 89 میں مقرر دیا ہے اس کے مطابق عمل کر کے آپ اس عہد کو توڑ دیں جو آپ نے ایک حلال چیز کو اپنے اوپر حرام کرنے کے لیے کیا ہے ۔ یہاں ایک اہم فقہی سوال پیدا ہوتا ہے ، اور وہ یہ ہے کہ آیا یہ حکم اس صورت کے لیے ہے جبکہ آدمی نے قسم کھا کر حلال کو حرام کر لیا ہو ، یا بجائے خود تحریم ہی قسم کی ہم معنی ہے خواہ قسم کے الفاظ استعمال کیے گئے ہوں یا نہ کیے گئے ہوں؟ اس سلسلے میں فقہاء کے درمیان اختلاف ہے ۔ ایک گروہ کہتا ہے کہ محض تحریم قسم نہیں ہے ۔ اگر آدمی نے کسی چیز کو ، خواہ وہ بیوی ہو یا کوئی دوسری حلال چیز ، قسم کھائے بغیر اپنے اوپر حرام کیا ہو تو یہ ایک لغو بات ہے جس سے کوئی کفارہ لازم نہیں آتا ، بلکہ آدمی کفارے کے بغیر ہی وہ چیز استعمال کر سکتا ہے جسے اس نے حرام کیا ہے ۔ یہ رائے مسروق ، شعبی ، ربیعہ اور ابو سلمہ کی ہے اور اسی کو ابن جریر اور تمام ظاہریوں نے اختیار کیا ہے ۔ ان کے نزدیک تحریم صرف اس صورت میں قسم ہے جبکہ کسی چیز کو اپنے اوپر حرام کرتے ہوئے قسم کے الفاظ استعمال کیے جائیں ۔ اس سلسلے میں ان کا استدلال یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چونکہ حلال چیز کو اپنے لیے حرام کرنے کے ساتھ قسم بھی کھائی تھی ، جیسا کہ متعدد روایات میں بیان ہوا ہے ، اس لیے اللہ تعالی نے حضور سے فرمایا کہ ہم نے قسموں کی پابندی سے نکلنے کا جو طریقہ مقرر کر دیا ہے اس پر آپ عمل کریں ۔ دوسرا گروہ کہتا ہے کہ قسم کے الفاظ استعمال کیے بغیر کسی چیز کو حرام کر لینا بجائے خود قسم تو نہیں ہے ، مگر بیوی کا معاملہ اس سے مستثنیٰ ہے ۔ دوسری اشیاء مثلا کسی کپڑے یا کھانے کو آدمی نے اپنے اوپر حرام کر لیا ہو تو یہ لغو ہے ، کوئی کفارہ دیے بغیر آدمی اس کو استعمال کر سکتا ہے ۔ لیکن اگر بیوی یا لونڈی کے لیے اس نے کہا ہوکہ اس سے مباشرت میرے اوپر حرام ہے ، تو وہ حرام نہ ہو گی ، مگر اس کے پاس جانے سے پہلے کفارہ یمین لازم آئے گا ۔ یہ رائے شافعیہ کی ہے ( معنی المحتاج ) ۔ اور اسی سے ملتی جلتی رائے مالکیہ کی بھی ہے ( احکام القرآن لابن العربی ) تیسرا گروہ کہتا ہے کہ تحریم بجائے خود قسم ہے خواہ قسم کے الفاظ استعمال نہ کیے گئے ہوں ۔ یہ رائے حضرت ابو بکر صدیق ، حضرت عائشہ ، حضرت عمر ، حضرت عبداللہ بن مسعود ، حضرت عبداللہ بن عمر ، حضر زید بن ثابت اور حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم کی ہے ۔ اگرچہ ابن عباس سے ایک دوسری رائے بخاری میں یہ نقل ہوئی ہے کہ اذا حرم امراتہ فلیس بشیء ( اگر آدمی نے اپنی بیوی کو حرام کیا ہو تو یہ کچھ نہیں ہے ) ، مگر اس کی توجیہ یہ کی گئی ہے کہ ان کے نزدیک یہ طلاق نہیں بلکہ کفارہ ہے ، کیونکہ بخاری ، مسلم ، اور ابن ماجہ میں ابن عباس کا یہ قول نقل ہوا ہے کہ حرام قرار دینے کی صورت میں کفارہ ہے اور نسائی میں روایت ہے کہ ابن عباس سے جب یہ مسئلہ پوچھا گیا تو انہوں نے کہا وہ تیرے اوپر حرام تو نہیں ہے مگر تجھ پر کفارہ لازم ہے اور ابن جریر کی روایت میں ابن عباس کے الفاظ یہ ہیں: اگر لوگوں نے اپنے اوپر کسی چیز کو حرام کیا ہو جسےاللہ نے حلال کیا تو ان پر لازم ہے کہ اپنی قسموں کا کفارہ اداکریں ۔ یہی رائے حسن بصری ، عطاء ، طاؤس ، سلیمان بن یسار ، ابن جبیر اور قتادہ کی ہے ، اور اسی رائے کو حنفیہ نے اختیار کیا ہے ۔ امام ابو بکر جصاص کہتے ہیں کہ آیت لم تحرم ما احل اللہ لک کے ظاہر الفاظ اس بات پر دلالت نہیں کرتے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تحریم کے ساتھ ساتھ قسم بھی کھائی تھی ، اس لیے یہ ماننا پڑے گا کہ تحریم ہی قسم ، کیونکہ اس کے بعد اللہ تعالی نے اسی تحریم کے معاملہ میں قسم کا کفارہ واجب فرمایا ۔ آگے چل کر پھر کہتے ہیں ہمارے اصحاب ( یعنی حنفیہ ) نے تحریم کو اس صورت میں قسم قرار دیا ہے جبکہ اس کے ساتھ طلاق کی نیت نہ ہو ۔ اگر کسی شخص نے بیوی کو حرام کہا تو گویا اس نے یہ کہا کہ خدا کی قسم میں تیرے قریب نہیں آؤں گا ، اس لیے وہ ایلاء کا مرتکب ہوا ۔ اور اگر اس نے کسی کھانے پینے کی چیز وغیرہ کو اپنے لیے حرام قرار دیا تو گویا اس نے یہ کہا کہ خدا کی قسم میں وہ چیز استعمال نہ کروں گا ۔ کیونکہ اللہ تعالی نے پہلے یہ فرمایا کہ آپ اس چیز کو کیوں حرام کرتے ہیں جسے اللہ نے آپ کے لیے حلال کیا ہے ، اور پھر فرمایا کہ اللہ نے تم لوگوں کے لیے قسموں کی پابندی سے نکلنے کا طریقہ مقرر کر دیا ہے ۔ اس طرح اللہ تعالی نے تحریم کو قسم قرار دیا اور تحریم کا لفظ اپنے مفہوم اور حکم شرعی میں قسم کا ہم معنی ہو گیا ۔ اس مقام پر فائدہ عام کے لیے یہ بتا دینا بھی مناسب معلوم ہوتا ہے کہ بیوی کو اپنے اوپر حرام کرنے ، اور بیوی کے سوا دوسری چیزوں کو حرام کر لینے کے معاملہ میں فقہاء کے نزدیک شرعی حکم کیا ہے ۔ حنفیہ کہتے ہیں کہ اگر طلاق کی نیت کے بغیر کسی شخص نے بیوی کو اپنے لیے حرام کیا ہو ، یا قسم کھائی ہو کہ اس سے مقاربت نہ کرے گا ، تو یہ ایلاء ہے اور اس صورت میں مقاربت سے پہلے اسے قسم کا کفارہ دیناہوگا لیکن اگر اس نے طلاق کی نیت سے کہا ہو تو میرے اوپر حرام ہے تو معلوم کیا جائے گا کہ اس کی نیت کیا تھی ۔ اگر تین طلاق کی نیت تھی تو تین واقع ہوں گی اور اگر اس سے کم کی نیت تھی ، خواہ ایک کی نیت ہو یا دو کی ، تو دونوں صورتوں میں ایک ہی طلاق وارد ہو گی ۔ اور اگر کوئی یہ کہے کہ جو کچھ میرے لیے حلال تھا وہ حرام ہو گیا ، تو اس کا اطلاق بیوی پر اس وقت تک ہو گا جب تک اس نے بیوی کو حرام کرنے کی نیت سے یہ الفاظ نہ کہے ہوں ۔ بیوی کے سوا دوسری کسی چیز کو حرام کرنے کی صورت میں آدمی اس وقت تک وہ چیز استعمال نہیں کر سکتا جب تک قسم کا کفارہ ادا نہ کر دے ( بدائع الصنائع ، ہدایہ ، فتح القدیر ، احکام القرآن للجصاص ) ۔ شافعیہ کہتے ہیں کہ بیوی کو اگر طلاق یا ظہار کی نیت سے حرام کیا جائے تو جس چیز کی نیت ہو گی وہ واقع ہوجائے گی ۔ رجعی طلاق کی نیت ہو تو رجعی ، بائن کی نیت ہو تو بائن ، اور ظہار کی نیت ہو تو ظہار ۔ اور اگر کسی نے طلاق و ظہار دونوں کی نیت سے تحریم کے الفاظ استعمال کیے ہوں تو اس سے کہا جائے گا کہ دونوں میں سے کسی ایک چیز کو اختیار کر لے ۔ کیونکہ طلاق و ظہار ، دونوں بیک وقت ثابت نہیں ہو سکتے ۔ طلاق سے نکاح زائل ہوتا ہے ، اور ظہار کی صورت میں وہ باقی رہتا ہے ۔ اور اگر کسی نیت کے بغیر مطلقاً بیوی کو حرام قرار دیا گیا ہو تو وہ حرام نہ ہو گی مگر قسم کا کفارہ لازم آئے گا اور اگر بیوی کے سوا کسی اور چیز کو حرام قرار دیا ہو تو یہ لغو ہے ، اس پر کوئی کفارہ نہیں ہے ( مغنی المحتاج ) ۔ مالکیہ کہتے ہیں کہ بیوی کے سوا دوسری کسی چیز کو آدمی اپنے اوپر حرام کرے تو نہ وہ حرام ہوتی ہے اور نہ ا سے استعمال کرنے سے پہلے کوئی کفارہ لازم آتا ہے ۔ لیکن اگر بیوی کو کہہ دے کہ تو حرام ہے ، یا میرے لیے حرام ہے ، یا میں تیرے لیے حرام ہوں ، تو خواہ مدخولہ سے یہ بات کہے یا غیر مدخولہ سے ، ہر صورت میں یہ طلاق ہیں ، الایہ کہ اس نے تین سے کم کی نیت کی ہو ۔ اصبغ کا قول ہے کہ اگر کوئی یوں کہے کہ جو کچھ مجھ پر حلال تھا وہ حرام ہے توجب تک وہ بیوی کو مستثنیٰ نہ کرے ، اس سے بیوی کی تحریم بھی لازم آ جائے گی ۔ المدونہ میں مدخولہ اور غیر مدخولہ کے درمیان فرق کیا گیا ہے ۔ مدخولہ کو حرام کہہ دینے سےتین ہی طلاقیں پڑیں گی ، اور کسی خاص تعداد کی نیت نہ ہو تو پھر یہ تین طلاقیں ہوں گی ( حاشیۃ الدسوقی ) ۔ قاضی ابن العربی نے احکام القرآن میں اس مسئلے کے متعلق امام مالک کے تین قول نقل کیے ہیں ۔ ایک یہ کہ بیوی کی تحریم ایک طلاق بائن ہے ۔ دوسرا یہ کہ یہ تین طلاق ہیں ۔ تیسرا یہ کہ مدخولہ کے معاملہ میں تو یہ بہرحال تین طلاقیں ہیں البتہ غیر مدخولہ کے معاملہ میں ایک کی نیت ہو تو ایک ہی طلاق پڑے گی ۔ پھر کہتے ہیں کہ صحیح یہ ہے کہ بیوی کی تحریم ایک ہی طلاق ہے کیونکہ اگر آدمی حرام کہنے کے بجائے طلاق کا لفظ استعمال کرے اور کسی تعداد کا تعین نہ کرے تو ایک ہی طلاق واقع ہو گی ۔ امام احمد بن حنبل سے اس مسئلے میں تین مختلف اقوال منقول ہوئے ہیں ۔ ایک یہ کہ بیوی کی تحریم ، یا حلال کو مطلقاً اپنے لیے حرام قرار دینا ظہار ہے خواہ ظہار کی نیت ہو یا نہ ہو ۔ دوسرا یہ کہ صریح کنایہ ہے اور اس سےتین طلاق واقع ہو جاتی ہیں خواہ نیت ایک ہی کی ہو ۔ اور تیسرا قول یہ ہے کہ یہ قسم ہے ، الا یہ کہ آدمی نے طلاق یا ظہار میں سے کسی کی نیت کی ہو ، اور اس صورت میں جو نیت بھی کی گئی ہو وہی واقع ہو گی ۔ ان میں سے پہلا قول ہی مذہب حنبلی میں مشہور ترین ہے ( الانصاف ) ۔ سورة التَّحْرِيْم حاشیہ نمبر :5 یعنی اللہ تمہارا آقا اور تمہارے معاملات کامتولی ہے ۔ وہ زیادہ بہتر جانتا ہے کہ تمہاری بھلائی کس چیز میں ہے اور جو احکام بھی اس نے دیے ہیں سراسر حکمت کی بنا پر دیے ہیں ۔ پہلی بات ارشاد فرمانے کا مطلب یہ ہے کہ تم خود مختار نہیں ہو بلکہ اللہ کے بندے ہو اور وہ تمہارا آقا ہے ، اس لیے اس کے مقرر کیے ہوئے طریقوں میں رد و بدل کرنے کا اختیار تم میں سے کسی کو حاصل نہیں ہے ۔ تمہارے لیے حق یہی ہے کہ اپنے معاملات اس کے حوالے کر کے بس اس کی اطاعت کرتے رہو ۔ دوسری بات ارشاد فرمانے سے یہ حقیقت ذہن نشین کرائی گئی ہے کہ اللہ نے جو طریقے اور قوانین مقرر کیے ہیں وہ سب علم و حکمت پر مبنی ہیں ۔ جس چیز کو حلال کیا ہے علم حکمت کی بنا پرحلال کیا ہے اور جسے حرام قرار دیا ہے اسے بھی علم و حکمت کی بنا پر حرام قرار دیا ہے ۔ یہ کوئی الل ٹپ کام نہیں ہے کہ جسے چاہا حلال کر دیا اور جسے چاہا حرام ٹھرا دیا ۔ لہذاجو لوگ اللہ پر ایمان رکھتے ہیں انہیں یہ سمجھنا چاہیے کہ علیم و حکیم ہم نہیں ہیں بلکہ اللہ ہے اور ہماری بھلائی اسی میں ہے کہ ہم اس کے دیے ہوئے احکام کی پیروی کریں ۔