Surah

Information

Surah # 66 | Verses: 12 | Ruku: 2 | Sajdah: 0 | Chronological # 107 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD)
عَسٰى رَبُّهٗۤ اِنۡ طَلَّقَكُنَّ اَنۡ يُّبۡدِلَهٗۤ اَزۡوَاجًا خَيۡرًا مِّنۡكُنَّ مُسۡلِمٰتٍ مُّؤۡمِنٰتٍ قٰنِتٰتٍ تٰٓٮِٕبٰتٍ عٰبِدٰتٍ سٰٓٮِٕحٰتٍ ثَيِّبٰتٍ وَّاَبۡكَارًا‏ ﴿5﴾
اگر وہ ( پیغمبر ) تمہیں طلاق دے دیں تو بہت جلد انہیں ان کا رب! تمہارے بدلے تم سے بہتر بیویاں عنایت فرمائے گا جو اسلام والیاں ایمان والیاں اللہ کے حضو ر جھکنے والیاں توبہ کرنے والیاں عبادت بجا لانے والیاں روزے رکھنے والیاں ہوں گی بیوہ اور کنواریاں ۔
عسى ربه ان طلقكن ان يبدله ازواجا خيرا منكن مسلمت مؤمنت قنتت تىبت عبدت سىحت ثيبت و ابكارا
Perhaps his Lord, if he divorced you [all], would substitute for him wives better than you - submitting [to Allah ], believing, devoutly obedient, repentant, worshipping, and traveling - [ones] previously married and virgins.
Agar ( woh ) payghumbar tumhen tallaq dey den to boht jald enhen inn ka rab! Tumharay badlay tum say behtar biwiyan inayat farmaye ga jo islam waliyan eman waliyan tauba kerney waliyan ibadat baja laaney waliyan rozay rakhney waliyan hongi baiwa aur kanwariyan .
اگر وہ تمہیں طلاق دے دیں تو ان کے پروردگار کو اس بات میں دیر نہیں لگے گی کہ وہ ان کو ( تمہارے ) بدلے میں ایسی بیویاں عطا فرما دے جو تم سب سے بہتر ہوں ، مسلمان ، ایمان والی ، طاعت شعار ، توبہ کرنے والی ، عبادت گذار اور روزہ دار ہوں ، چاہے پہلے ان کے شوہر رہے ہوں ، یا کنواری ہوں ۔
ان کا رب قریب ہے اگر وہ تمہیں طلاق دے دیں کہ انہیں تم سے بہتر بیبیاں بدل دے اطاعت والیاں ایمان والیاں ادب والیاں ( ف۱۳ ) توبہ والیاں بندگی والیاں ( ف۱٤ ) روزہ داریں بیاہیاں اور کنواریاں ( ف۱۵ )
بعید نہیں کہ اگر نبی تم سب بیویوں کو طلاق دے دے تو اللہ اسے ایسی بیویاں تمہارے بدلے میں عطا فرما دے جو تم سے بہتر ہوں10 ، سچی مسلمان ، باایمان11 ، اطاعت گزار12 ، توبہ گزار13 ، عبادت گزار14 ، اور روزہ دار15 ، خواہ شوہر دیدہ ہوں یا باکرہ ۔
اگر وہ تمہیں طلاق دے دیں تو عجب نہیں کہ اُن کا رب انہیں تم سے بہتر ازواج بدلہ میں عطا فرما دے ( جو ) فرمانبردار ، ایماندار ، اطاعت گزار ، توبہ شعار ، عبادت گزار ، روزہ دار ، ( بعض ) شوہر دیدہ اور ( بعض ) کنواریاں ہوں گی
سورة التَّحْرِيْم حاشیہ نمبر :10 اس سے معلوم ہوا کہ قصور صرف حضرت عائشہ اور حفصہ ہی کا نہ تھا ، بلکہ دوسری ازواج مطہرات بھی کچھ نہ کچھ قصور وار تھیں ، اسی لیے ان کے بعد اس آیت میں باقی ازواج کو بھی تنبیہ فرمائی گئی ہے ۔ قرآن مجید میں اس قصور کی نوعیت پر کوئی روشنی نہیں ڈالی گئی ہے البتہ احادیث میں اس کے متعلق کچھ تفصیلات آئی ہیں ۔ ان کو ہم یہاں نقل کر دیتے ہیں ۔ بخاری میں حضرت انس کی روایت ہے کہ حضرت عمر نے فرمایا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں نے آپس کے رشک و رقابت میں مل جل کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو تنگ کر دیا تھا ۔ ( اصل الفاظ ہیں اجتمع نساء النبی صلی اللہ علیہ وسلم فی الغیرۃ علیہ ) ۔ اس پر میں نے ان سے کہا کہ بعید نہیں اگر حضور تم کو طلاق دے دیں تو اللہ تم سے بہتر بیویاں آپ کو عطا فرما دے ۔ ابن ابی حاتم نے حضرت انس کے حوالہ سے حضرت عمر کا بیان ان الفاظ میں نقل کیا ہے: مجھے خبر پہنچی کہ امہات المومنین اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان کچھ ناچاقی ہو گئی ہے ۔ اس پر میں ان میں سے ایک ایک کے پاس گیا اور ان سے کہا کہ تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تنگ کرنے سے باز آ جاؤ ورنہ اللہ تمہارے بدلے تم سے بہتر بیویاں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو عطا فرما دے گا ۔ یہاں تک کہ جب میں امہات المومنین میں سے آخری کے پاس گیا ( اور یہ بخاری کی ایک روایت کے بموجب حضرت ام سلمہ تھیں ) تو انہوں نے مجھے جواب دیا اے عمر ، کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عورتوں کی نصیحت کے لیے کافی نہیں ہیں کہ تم انہیں نصیحت کرنے چلے ہو؟ اس پر میں خاموش ہو گیا اور اس کے بعد اللہ تعالی نے یہ آیت نازل فرمائی ۔ مسلم میں حضرت عبداللہ بن عباس کی روایت ہے کہ حضرت عمر نے ان سے بیان کیا کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیویوں سے علیحدگی اختیار فرما لی تو میں مسجد نبوی میں پہنچا ۔ دیکھا لوگ متفکر بیٹھے ہوئے کنکریاں اٹھا اٹھا کر گرا رہے ہیں اور آپس میں کہہ رہے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیویوں کو طلاق دے دی ہے ۔ اس کے بعد حضرت عمر نے حضرت عائشہ اور حفصہ کے ہاں ا پنے جانے اور ان کو نصیحت کرنے کا ذکر کیا ، پھر فرمایا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور میں نے عرض کیا بیویوں کے معاملہ میں آپ کیوں پریشان ہوتے ہیں؟ اگر آپ ان کو طلاق دے دیں تو اللہ آپ کے ساتھ ہے ، سارے ملائکہ اور جبریل و میکائیل آپ کے ساتھ ہیں اور میں اور ابو بکر اور سب اہل ایمان آپ کے ساتھ ہیں ۔ میں اللہ کا شکر بجا لاتا ہوں کہ کم ہی ایسا ہوا ہے میں نے کوئی بات کہی ہو اور اللہ سے یہ امید نہ رکھی ہو کہ وہ میرے قول کی تصدیق فرما دے گا چنانچہ اس کے بعد سورۃ تحریم کی یہ آیات نازل ہو گئیں ۔ پھر میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ آپ نے بیویوں کو طلاق دے دی ہے؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں ۔ اس پر میں نے مسجد نبوی کے دروازے پر کھڑے ہو کر با آواز بلند اعلان کیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیویوں کو طلا ق نہیں دی ہے ۔ بخاری میں حضرت انس اور مسند احمد میں حضرت عبداللہ بن عباس ، حضرت عائشہ اور حضرت ابو ہریرہ سے یہ روایات منقول ہوئی ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مہینہ تک کے لیے اپنی بیویوں سے علیحدہ رہنے کا عہد فرما لیا تھا اور اپنے بالا خانے میں بیٹھ گئے تھے ۔ 29 دن گزر جانے پر جبریل علیہ السلام نے آ کر کہا آپ کی قسم پوری ہو گئی ہے ، مہینہ مکمل ہو گیا ۔ حافظ بدر الدین عینی نے عمدۃ القاری میں حضرت عائشہ کے حوالہ سے یہ بات نقل کی ہے کہ ازواج مطہرات کی دو پارٹیاں بن گئی تھیں ۔ ایک میں خود حضرت عائشہ اور حضرت حفصہ ، حضرت سودہ اور حضرت صفیہ تھیں ، اور دوسری میں حضرت زینب ، حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنھن اور باقی ازواج مطہرات شامل تھیں ۔ ان تمام روایات سے کچھ اندازہ ہو سکتا ہے کہ اس وقت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خانگی زندگی میں کیا حالات پیدا ہوگئے تھے جن کی بنا پر یہ ضروری ہوا کہ اللہ تعالی مداخلت کر کے ازواج مطہرات کے طرز عمل کی اصلاح فرمائے ۔ یہ ازواج اگرچہ معاشرے کی بہترین خواتین تھیں ۔ مگر بہرحال تھیں انسان ہی ، اور بشریت کے تقاضوں سے مبرا نہ تھا ۔ کبھی ان کے لیے مسلسل عسرت کی زندگی بسر کرنا دشوار ہو جاتا تھا اور وہ بے صبر ہو کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے نفقہ کا مطالبہ کرنے لگتیں ۔ اس پر اللہ تعالی نے سورہ احزاب کی آیات 28 ۔ 29 نازل فرما کر ان کو تلقین کی اگر تمہیں دنیا کی خوشحالی مطلوب ہے تو ہمارا رسول تم کو بخیر و خوبی رخصت کر دے گا ۔ اور اگر تم اللہ اور اس کے رسول اور دار آخرت کو چاہتی ہو تو پھر صبر و شکر کے ساتھ ان تکلیفوں کو برداشت کرو جو رسول کی رفاقت میں پیش آئیں ( تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد چہارم ، الاحزاب حاشیہ 41 ، اور دیباچہ سورہ احزاب صفحہ 84 ) ۔ پھر کبھی نسائی فطرت کی بنا پر ان سے ایسی باتوں کا ظہور ہوجاتا تھا جو عام انسانی زندگی میں معمول کے خلاف نہ تھیں ، مگر جس گھر میں ہونے کا شرف اللہ تعالی نے ان کو عطا فرمایا تھا ، اس کی شان اور اس کی عظیم ذمہ داریوں سے وہ مطابقت نہ رکھتی تھیں ۔ ان باتوں سے جب یہ اندیشہ پیدا ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خانگی زندگی کہیں تلخ نہ ہو جائے اور اس کا اثر ان کار عظیم پر مترتب نہ ہو جو اللہ تعالی حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے لے رہا تھا ، قرآن مجید میں یہ آیات نازل کر کے ان کی صلاح فرمائی گئی تاکہ ازواج مطہرات کے اندر اپنے اس مقام اور مرتبے کی ذمہ داریوں کا احساس پیدا ہو جو اللہ کے آخری رسول کی رفیق زندگی ہونے کی حیثیت سے ان کو نصیب ہوا تھا ، اور وہ اپنے آپ کو عام عورتوں کی طرح اور اپنے گھر کو عام گھروں کی طرح نہ سمجھ بیٹھیں ۔ اس آیت کا پہلا ہی فقرہ ایسا تھا کہ اس کو سن کر ازواج مطہرات کے دل لرز اٹھے ہوں گے ۔ اس ارشاد سے بڑھ کر ان کے لیے تنبیہ اور کیا ہو سکتی تھی کہ اگر نبی تم کو طلاق دے دے تو بعید نہیں کہ اللہ اس کو تمہاری جگہ تم سے بہتر بیویاں عطا کر دے ۔ اول تو نبی سے طلاق مل جانے کا تصور ہی ان کے لیے ناقابل برداشت تھا ، اس پر یہ بات مزید کہ تم سے امہات المؤمنین ہونے کا شرف چھن جائے گا اور دوسری عورتیں جو اللہ تعالی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجیت میں لائے گا وہ تم سے بہتر ہوں گی ۔ اس کے بعد تو یہ ممکن ہی نہ تھا کہ ازواج مطہرات سے پھر کبھی کسی ایسی بات کا صدور ہوتا جس پر اللہ تعالی کی طرف سے گرفت کی نوبت آتی ۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید میں بس دو ہی مقامات ہم کو ایسے ملتے ہیں جہاں ان برگزیدہ خواتین کو تنبیہ فرمائی گئی ہے ۔ ایک سورۃ احزاب دور دوسرے یہ سورہ تحریم ۔ سورة التَّحْرِيْم حاشیہ نمبر :11 مسلم اور مومن کے الفاظ جب ایک ساتھ لائے جاتے ہیں تو مسلم کے معنی عملاً احکام الہی پر عمل کرنے والے کے ہوتے ہیں اور مومن سے مراد وہ شخص ہوتا ہے جو صدق دل سے ایمان لائے ۔ پس بہترین مسلمان بیویوں کی اولین خصوصیات یہ ہے کہ وہ سچے دل سے اللہ اور اس کے رسول اور اس کے دین پر ایمان رکھتی ہوں ، اور عملاً اپنے ا خلاق ، عادات ، خصائل اور برتاؤ میں اللہ کے دین کی پیروی کرنے والی ہوں ۔ سورة التَّحْرِيْم حاشیہ نمبر :12 اس کے دو معنی ہیں اور دونوں ہی یہاں مراد ہیں ۔ ایک ، اللہ اور اس کے رسول کی تابع فرمان ۔ دوسرے ، اپنے شوہر کی اطاعت کرنے والی ۔ سورة التَّحْرِيْم حاشیہ نمبر :13 تائب کا لفظ جب آدمی کی صفت کے طور پر آؤے تو اس کے معنی بس ایک ہی دفعہ توبہ کر لینے والے کے نہیں ہوتے بلکہ ایسے شخص کے ہوتے ہیں جو ہمیشہ اللہ سے اپنے قصوروں کی معافی مانگتا رہے ، جس کا ضمیر زندہ اور بیدار ہو ، جسے ہر وقت اپنی کمزوریوں اور لغزشوں کا احساس ہوتا رہے اور وہ ان پر نادم و شرمسار ہو ۔ ایسے شخص میں کبھی غرور و تکبر اور نخوت و خود پسندی کے جذبات پیدا نہیں ہوتے بلکہ وہ طبعاً نرم مزاج اور حلیم ہوتا ہے ۔ سورة التَّحْرِيْم حاشیہ نمبر :14 عبادت گزار آدمی بہرحال کبھی اس شخص کی طرح خدا سے غافل نہیں ہو سکتا جس طرح عبادت نہ کرنے والا انسان ہوتا ہے ۔ ایک عورت کو بہترین بیوی بنانے میں اس چیز کا بھی بڑا دخل ہے ۔ عبادت گزار ہونے کی وجہ سے وہ حدود اللہ کی پابندی کرتی ہے ، حق والوں کے حق پہنچانتی اور ادا کرتی ہے ، اس کا ایمان ہر وقت تازہ اور زندہ رہتا ہے ، اس سے اس امر کی زیادہ توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ احکام الہی کی پیروی سے منہ نہیں موڑے گی ۔ سورة التَّحْرِيْم حاشیہ نمبر :15 اصل میں لفظ سائحات استعمال ہوا ہے ۔ متعدد صحابہ اور بکثرت تابعین نے اس کے معنی صائمات بیان کیے ہیں ۔ روزے کے لیے سیاحت کا لفظ جس مناسبت سے استعمال کیا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ قدیم زمانے میں سیاحت زیادہ تر راہب اور درویش لوگ کرتے تھے ، اور ان کے ساتھ کوئی زاد راہ نہیں ہوتا تھا ۔ اکثر ان کو اس وقت تک بھوکا رہنا پڑتا تھا جب تک کہیں سے کچھ کھانے کو نہ مل جائے ۔ اس بنا پر روزہ بھی ایک طرح کی درویشی ہی ہے کہ جب تک افطار کا وقت نہ آئے روزہ دار بھی بھوکا رہتا ہے ۔ ابن جریر نے سوۃ توبہ آیت 12 کی تفسیر میں حضرت عائشہ کا قول نقل کیا ہے کہ سیاحۃ ھذا الاماۃ الصیام ، اس امت کی سیاحت ( یعنی درویشی ) روزہ ہے ۔ اس مقام پر نیک بیویوں کی تعریف میں ان کی روزہ داری کا ذکر اس معنی میں نہیں کیا گیا ہے کہ وہ محض رمضان کے فرض روزے رکھتی ہیں ، بلکہ اس معنی میں ہے کہ وہ فرض کے علاوہ نفل روزے بھی رکھا کرتی ہیں ۔ ازواج مطہرات کو خطاب کر کے اللہ تعالی کا یہ ارشاد کہ اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم تم کو طلاق دے دیں تو اللہ تمہارے بدلے میں ان کو ایسی بیویاں عطا فرمائے گا جن میں یہ اور یہ صفات ہوں گی ، اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ازواج مطہرات یہ صفات نہیں رکھتی تھیں ۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ تمہاری جس غلط روش کی وجہ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اذیت ہو رہی ہے اس کو چھوڑ دو اور اس کے بجائے اپنی ساری توجہات اس کوشش میں صرف کرو کہ تمہارے اندر یہ پاکیزہ صفات بدرجہ اتم پیدا ہوں ۔