Surah

Information

Surah # 66 | Verses: 12 | Ruku: 2 | Sajdah: 0 | Chronological # 107 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD)
اِنۡ تَتُوۡبَاۤ اِلَى اللّٰهِ فَقَدۡ صَغَتۡ قُلُوۡبُكُمَا‌ۚ وَاِنۡ تَظٰهَرَا عَلَيۡهِ فَاِنَّ اللّٰهَ هُوَ مَوۡلٰٮهُ وَجِبۡرِيۡلُ وَصَالِحُ الۡمُؤۡمِنِيۡنَ‌ۚ وَالۡمَلٰٓٮِٕكَةُ بَعۡدَ ذٰلِكَ ظَهِيۡرٌ‏ ﴿4﴾
۔ ( اے نبی کی دونوں بیویو ! ) اگر تم دونوں اللہ کے سامنے توبہ کر لو ( تو بہت بہتر ہے ) یقیناً تمہارے دل جھک پڑے ہیں اور اگر تم نبی کے خلاف ایک دوسرے کی مدد کرو گی پس یقیناً اس کا کار ساز اللہ ہے اور جبرائیل ہیں اور نیک اہل ایمان اور ان کے علاوہ فرشتے بھی مدد کرنے والے ہیں ۔
ان تتوبا الى الله فقد صغت قلوبكما و ان تظهرا عليه فان الله هو مولىه و جبريل و صالح المؤمنين و الملىكة بعد ذلك ظهير
If you two [wives] repent to Allah , [it is best], for your hearts have deviated. But if you cooperate against him - then indeed Allah is his protector, and Gabriel and the righteous of the believers and the angels, moreover, are [his] assistants.
( aey nabi ki dono biwiyo! ) agar tum dono Allah kay samney tauba kerlo ( to boht behtar hai ) yaqeenan tumharay dil jhuk paren hain aur agar tum nabi kay khilaf aik doosray ki madad kero gi pus yaqeenan uss ka kaar saaz Allah hai aur jibraeel hain aur nek ehal-e-eman aur inn kay ilawa farishtay bhi madad kerney walay hain.
۔ ( اے نبی کی بیویو ) اگر تم اللہ کے حضور توبہ کرلو ( تو یہی مناسب ہے ) کیونکہ تم دونوں کے د ل مائل ہوگئے ہیں ، ( ٦ ) اور اگر نبی کے مقابلے میں تم نے ایک دوسری کی مدد کی ، تو ( یاد رکھو کہ ) ان کا ساتھی اللہ ہے اور جبریل ہیں اور نیک مسلمان ہیں ، اور اس کے علاوہ فرشتے ان کے مددگار ہیں ۔
نبی کی دونوں بیبیو! اگر اللہ کی طرف تم رجوع کرو تو ( ف۱۰ ) ضرور تمہارے دل راہ سے کچھ ہٹ گئے ہیں ( ف۱۱ ) اور اگر ان پر زور باندھو ( ف۱۲ ) تو بیشک اللہ ان کا مددگار ہے اور جبریل اور نیک ایمان والے ، اور اس کے بعد فرشتے مدد پر ہیں ،
اگر تم دونوں اللہ سے توبہ کرتی ہو ﴿تو یہ تمہارے لیے بہتر ہے﴾ کیونکہ تمہارے دل سیدھی راہ سے ہٹ گئے ہیں7 ، اور اگر نبی کے مقابلہ میں تم نے باہم جتھہ بندی کی8 تو جان رکھو کہ اللہ اس کا مولی ہے اور اس کے بعد جبریل اور تمام صالح اہل ایمان اور سب ملائکہ اس کے ساتھی اور مدد گار ہیں9 ۔
اگر تم دونوں اللہ کی بارگاہ میں توبہ کرو ( تو تمہارے لئے بہتر ہے ) کیونکہ تم دونوں کے دل ( ایک ہی بات کی طرف ) جھک گئے ہیں ، اگر تم دونوں نے اس بات پر ایک دوسرے کی اعانت کی ( تو یہ نبی مکرّم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے باعثِ رنج ہوسکتا ہے ) سو بیشک اللہ ہی اُن کا دوست و مددگار ہے ، اور جبریل اور صالح مومنین بھی اور اس کے بعد ( سارے ) فرشتے بھی ( اُن کے ) مددگار ہیں
سورة التَّحْرِيْم حاشیہ نمبر :7 اصل الفاظ ہیں فقد صغت قلوبکما ۔ صغو عربی زبان میں مڑ جانے اور ٹیڑھا ہوجانے کے معنی میں بولا جاتا ہے ۔ شاہ ولی اللہ صاحب نے اس فقرے کا ترجمہ کیا ہے: ہر آئینہ کج شدہ است دل شما ۔ اور شاہ رفیع الدین صاحب کا ترجمہ ہے : کج ہو گئے ہیں دل تمہارے ۔ عبداللہ بن مسعود ، عبداللہ بن عباس سفیان ثوری اور ضحاک رحمہم اللہ نے اس کا مفہوم بیان کیا ہے زاعت قلوبکما یعنی تمہارے دل راہ راست سے ہٹ گئے ہیں ۔ امام رازی اس کی تشریح میں کہتے ہیں عدلت ومالت عن الحق و ھو حق الرسول صلی اللہ علیہ وسلم ‘ حق سےہٹ گئے ہیں ، اور حق سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حق ہے اور علامہ آلوسی کی تشریح یہ ہے:مالت عن الواجب من موافقتہ صلی اللہ علیہ وسلم ما یحبہ و کراھۃ یارھہ الی مخالفتہ یعنی تم پر واجب تو یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو کچھ پسند کریں اسے پسند کرنے میں اور جو کچھ آپ ناپسند کریں اسے ناپسند کرنے میں آپ کی موافقت کرو ۔ مگر تمہارے دل اس معاملہ میں آپ کی موافقت سے ہٹ کر آپ کی مخالفت کی طرف مڑ گئے ہیں ۔ سورة التَّحْرِيْم حاشیہ نمبر :8 اصل الفاظ میں وان تظاھرا علیہ تظاھر کے معنی ہیں کسی کے مقابلہ میں باہم تعاون کرنا یا کسی کے خلاف ایکا کرنا ۔ شاہ ولی اللہ صاحب نے اس فقرے کا ترجمہ کیا ہے: اگر باہم متفق شوید بر رنجایندرن پیغمبر ۔ عبدالقادر صاحب کا ترجمہ ہے : اگر تم دونوں چڑھائی کروگیاں اس پر ۔ اور مولانا شبیر احمد عثمانی صاحب نے اس کی تشریح کرتے ہوئے لکھا ہے: اگر تم دونوں اس طرح کی کارروائیاں اور مظاہرے کرتی رہیں ۔ آیت کا خطاب صاف طور پر دو خواتین کی طرف ہے ، اور سیاق و سباق سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ خواتین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات میں سے ہیں ، کیونکہ اس سورے کی پہلی آیت سے پانچویں آیت تک مسلسل حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج کے معاملات ہی زیر بحث آئے ہیں ۔ اس حد تک تو بات خود قرآن مجید کے انداز بیان سے ظاہر ہورہی ہے ۔ اب رہا یہ سوال کہ یہ دونوں بیویاں کون تھیں ، اور وہ معاملہ کیا تھا جس پر یہ عتاب ہوا ، اس کی تفصیل ہمیں حدیث میں ملتی ہے ۔ مسند احمد ، بخاری ، مسلم ، ترمذی اور نسائی میں حضرت عبداللہ بن عباس کی ایک مفصل روایت نقل ہوئی ہے جس میں کچھ لفظی اختلافات کے ساتھ یہ قصہ بیان کیا گیا ہے ۔ ابن عباس فرماتے ہیں: میں ایک مدت سے اس فکر میں تھا کہ حضرت عمر سے پوچھوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوں میں سے وہ کون سی دو بیویاں تھیں جنہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلہ میں جتھہ بندی کر لی تھی اور جن کے متعلق اللہ تعالی نے یہ آیت ارشاد فرمائی کہ ان تتوبا الی اللہ فقد صغت قلوبکما ۔ لیکن ان کی ہیبت کی وجہ سے میری ہمت نہ پڑتی تھی ۔ آخر ایک مرتبہ وہ حج کے لیے تشریف لے گئے اور میں ان کے ساتھ گیا ۔ واپسی پر راستہ میں ایک جگہ ان کو وضو کراتے ہوئے مجھے موقع مل گیا اور میں نے یہ سوال پوچھ لیا ۔ انہوں نے جواب دیا وہ عائشہ اور حفصہ تھیں ۔ پھر انہوں نے بیان کرنا شروع کیا کہ ہم قریش کے لوگ اپنی عورتوں کو دباکر رکھنے کے عادی تھے جب ہم مدینہ آئے توہمیں یہاں ایسے لوگ ملے جن پر ان کی بیویاں حاوی تھیں اور یہی سبق ہماری عورتیں بھی ان سے سیکھنے لگیں ۔ ایک روز میں اپنی بیوی پر ناراض ہوا تو کیادیکھتا ہوں کہ وہ مجھے پلٹ کر جواب دے رہی ہے ( اصل الفاظ ہیں فاذا ھی تراجعنی ) ۔ مجھے یہ بہت ناگوار ہوا کہ وہ مجھے پلٹ کر جواب دے ۔ اس نے کہا آپ اس بات پر کیوں بگڑتے ہیں کہ میں آپ کو پلٹ کر جواب دوں؟ خدا کی قسم رسول اللہ کی بیویاں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو دو بدو جواب دیتی ہیں ( اصل لفظ ہے لیراجعنہ ) اور ان میں سے کوئی حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے دن دن بھر روٹھی رہتی ہے ۔ ( بخاری کی روایت میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس سے دن بھر ناراض رہتے ہیں ) ۔ یہ سن کر میں گھر سے نکلا اور حفصہ کے ہاں گیا ( جو حضرت عمر کی بیٹی اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی تھیں ) ۔ میں نے اس سے پوچھا کیا تو رسول اللہ کو دو بدو جواب دیتی ہے؟ اس نے کہا ہاں ۔ میں نے پوچھا اور کیا تم میں سے کوئی دن دن بھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے روٹھی رہتی ہے؟ ( بخاری کی روایت میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم دن بھر اس سے ناراض رہتے ہیں ) ۔ اس نے کہا ہاں ۔ میں نے کہا نامراد ہو گئی اور گھاٹے میں پڑ گئی وہ عورت جو تم میں سے ایسا کرے ۔ کیا تم میں سے کوئی اس بات سے بے خوف ہو گئی ہے کہ اپنے رسول کے غضب کی وجہ سے اللہ اس پر غضبناک ہو جائے اور وہ ہلاکت میں پڑ جائے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کبھی زبان درازی نہ کر ( یہاں بھی وہی الفاظ ہیں لا تراجعی ) اور نہ ان سے کسی چیز کا مطالبہ کر ، میرے مال سے تیرا جو جی چاہیے مانگ لیا کر ۔ تو اس بات سے کسی دھوکے میں نہ پڑ کہ تیری پڑوسن ( مراد ہیں حضرت عائشہ ) تجھ سے زیادہ خوبصورت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو زیادہ محبوب ہے ۔ اس کے بعد میں وہاں سے نکل کر ام سلمہ کے پاس پہنچا جو میری رشتہ دار تھیں ، اور میں نے اس معاملہ میں ان سے بات کی ۔ انہوں نے کہا ، ابن خطاب تم بھی عجیب آدمی ہو ۔ ہر معاملہ میں تم نے دخل دیا یہاں تک کہ اب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کی بیویوں کے معاملے میں بھی دخل دینے چلے ہو ۔ ان کی اس بات نے میری ہمت توڑ دی ۔ پھر ایسا ہوا کہ میرا ایک انصاری پڑوسی رات کے وقت میرے گھر آیا اور اس نے مجھے پکارا ۔ ہم دونوں باری باری رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں حاضر ہوتے تھے اور جو بات کسی کی باری کے دن ہوتی تھی وہ دوسرے کو بتا دیا کرتا تھا ۔ زمانہ وہ تھا جب ہمیں غسان کے حملے کا خطرہ لگا ہوا تھا ۔ اس کے پکارنے پر جب میں نکلا تو اس نے کہا ایک بڑا حادثہ پیش آ گیا ہے میں نے کہا غسانی چڑھ آئے ہیں؟ اس نے کہا نہیں ، اس سے بھی زیادہ بڑا معاملہ ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیویوں کو طلاق دے دی ہے ۔ میں نے کہا برباد ہوئی نامراد ہو گئی حفصہ ، ( بخاری کے الفاظ ہیں رغم انف حفصہ و عائشۃ ) ، مجھے پہلے ہی اندیشہ تھا کہ یہ ہونے والی بات ہے ۔ اس کے آگے کا قصہ ہم نے چھوڑ دیا ہے جس میں حضرت عمر نے بتایا ہے کہ دوسرے روز صبح حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں جا کر انہوں نے کس طرح حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا غصہ ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی ۔ اس قصے کو ہم نے مسند احمد اور بخاری کی روایات جمع کر کے مرتب کیا ہے ۔ اس میں حضرت عمر نے مراجعت کا لفظ جو استعمال کیا ہے اسے لغوی معنی میں نہیں لیا جا سکتا بلکہ سیاق خود بتا رہا ہے کہ یہ لفظ دو بدو جواب دینے کے معنی میں استعمال ہوا ہے ، اور حضرت عمر کا اپنی بیٹی سے یہ کہنا کہ لا ترجعی رسول اللہ صاف طور پر اس معنی میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے زبان درازی نہ کیا کر ۔ اس ترجمے کو بعض لوگ غلط کہتے ہیں اور انکا اعتراض یہ ہے کہ مراجعت کا ترجمہ پلٹ کر جواب دینا ، یا دو بدو جواب دینا تو صحیح ہے ، مگر اس کا ترجمہ زبان درازی صحیح نہیں ہے ۔ لیکن یہ معترض حضرات اس بات کو نہیں سمجھتے کہ اگر کم مرتبے کا آدمی اپنے سے بڑے مرتبے کے آدمی کو پلٹ کر جواب دے ، یا دو بدو جواب دے تو اسی کا نام زبان درازی ہے ۔ مثلا باپ بیٹے کو کسی بات ڈانٹے یا اس کے کسی فعل پر ناراضی کا اظہار کرے اور بیٹا اس پر ادب سے خاموش رہنے یا معذرت کرنے کے بجائے پلٹ کر جواب دینے پر اتر آئے ، تو اس کو زبان درازی کے سوا اور کچھ نہیں کہا جا سکتا ۔ پھر جب یہ معاملہ باپ اور بیٹے کے درمیان نہیں بلکہ اللہ کے رسول اور امت کے کسی فرد کے درمیان ہو تو صرف ایک غبی آدمی ہی یہ کہہ سکتا ہے کہ اس کا نام زبان درازی نہیں ہے ۔ بعض دوسرے لوگ ہمارے اس ترجمے کو سوء ادب قرار دیتے ہیں ، حالانکہ یہ سوء ادب اگر ہو سکتا تھا تو اس صورت میں جبکہ ہم اپنی طرف سے اس طرح کے الفاظ حضرت حفصہ کے متعلق استعمال کرنے کی جسارت کرتے ۔ ہم نے تو حضرت عمر کے الفاظ کا صحیح مفہوم ادا کیا ہے ، اور یہ الفاظ انہوں نے اپنی بیٹی کو اس کے قصور پر سرزنش کرتے ہوئے استعمال کیے ہیں ۔ اسے سوء ادب کہنے کے معنی یہ ہیں کہ یا تو باپ اپنی بیٹی کو ڈانٹتے ہوئے بھی ادب سے بات کرےٗ یا پھر ڈانٹ کا ترجمہ کرنے والا اپنی طرف سے اس کو با ادب کلام بنا دے ۔ اس مقام پر سوچنے کے قابل بات دراصل یہ ہے کہ اگر معاملہ صرف ایسا ہی ہلکا اور معمولی سا تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کبھی اپنی بیویوں کو کچھ کہتے تھے اور وہ پلٹ کر جواب دے دیا کرتی تھیں ، تو آخر اس کو اتنی اہمیت کیوں دی گئی کہ قرآن مجید میں اللہ تعالی نے براہ راست خود ان ازواج مطہرات کو شدت کے ساتھ تنبیہ فرمائی؟ اور حضرت عمر نے اس معاملہ کو کیوں اتنا سخت سمجھا کہ پہلے بیٹی کو ڈانٹا اور پھر ازواج مطہرات میں سے ایک ایک کے گھر جا کر ان کو اللہ کے غضب سے ڈرایا ؟ اور سب سے زیادہ یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا آپ کے خیال میں ایسے ہی زودرنج تھے کہ ذرا ذرا سی باتوں پر بیویوں سے ناراض ہو جاتے تھے اور کیا معاذ اللہ آپ کے نزدیک حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تنگ مزاجی اس حد تک بڑھی ہوئی تھی کہ ایسی باتوں پر ناراض ہو کر آپ ایک دفعہ سب بیویوں سے مقاطعہ کر کے اپنے حجرے میں عزلت گزیں ہو گئے تھے؟ ان سوالات پر اگر کوئی شخص غور کرے تو اسے لامحالہ ان آیات کی تفسیر میں دو ہی راستوں میں سے ایک کو اختیار کرنا پڑے گا ۔ یا تو اسے ازواج مطہرات کے احترام کی اتنی فکر لاحق ہو کہ وہ اللہ اور اس کے رسول پر حرف آ جانے کی پروا نہ کرے ۔ یا پھر سیدھی طرح یہ مان لے کہ اس زمانہ میں ان ازواج مطہرات کا رویہ فی الواقع ایسا ہی قابل اعتراض ہو گیا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس پر ناراض ہو جانے میں حق بجانب تھے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر خود اللہ تعالی اس بات میں حق بجانب تھا کہ ان ازواج کو اس رویہ پر شدت سے تنبیہ فرمائے ۔ سورة التَّحْرِيْم حاشیہ نمبر :9 مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلہ میں جتھہ بندی کر کے تم اپنا ہی نقصان کرو گی ، کیونکہ جس کا مولی اللہ ہے اور جبریل اور ملائکہ اور تمام صالح اہل ایمان جس کے ساتھ ہیں اس کے مقابلہ میں جتھہ بندی کر کے کوئی کامیاب نہیں ہو سکتا ۔