Surah

Information

Surah # 68 | Verses: 52 | Ruku: 2 | Sajdah: 0 | Chronological # 2 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Early Makkah phase (610 - 618 AD). Except 17-33 and 48-50, from Madina
مَاۤ اَنۡتَ بِـنِعۡمَةِ رَبِّكَ بِمَجۡنُوۡنٍ‌ۚ‏ ﴿2﴾
تو اپنے رب کے فضل سے دیوانہ نہیں ہے ۔
ما انت بنعمة ربك بمجنون
You are not, [O Muhammad], by the favor of your Lord, a madman.
Tu apany rab kay fazal say deewana nhai hai.
اپنے پروردگار کے فضل سے تم دیوانے نہیں ہو ۔
تم اپنے رب کے فضل سے مجنون نہیں ( ف٤ )
تم اپنے رب کے فضل سے مجنون نہیں ہو2 ۔
۔ ( اے حبیبِ مکرّم! ) آپ اپنے رب کے فضل سے ( ہرگز ) دیوانے نہیں ہیں
سورة الْقَلَم حاشیہ نمبر :2 یہ ہے وہ بات جس پر قلم اور کتاب کی قسم کھائی گئی ہے ۔ مطلب یہ ہے کہ یہ قرآن جو کاتبین وحی کے ہاتھوں سے ثبت ہو رہا ہے ، بجائے خود کفار کے اس بہتان کی تردید کے لیے کافی ہے کہ معاذ اللہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجنون ہیں ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دعوائے نبوت سے پہلے تو اہل مکہ آپ کو اپنی قوم کا بہترین آدمی مانتے تھے اور آپ کی دیانت و امانت اور عقل و فراست پر اعتماد رکھتے تھے ۔ مگر جب آپ نے ان کے سامنے قرآن پیش کرنا شروع کیا تو وہ آپ کو دیوانہ قرار دینے لگے ۔ اس کے معنی یہ تھے کہ قرآن ہی ان کے نزدیک وہ سبب تھا جس کی بنا پر انہوں نے آپ پر دیوانگی کی تہمت لگائی ۔ اس لیے فرمایا گیا کہ قرآن ہی اس تہمت کی تردید کے لیے کافی ثبوت ہے ۔ یہ اعلی درجہ کا فصیح و بلیغ کلام ، جو ایسے بلند پایہ مضامین پر مشتمل ہے ، اس کا پیش کرنا تو اس بات کی دلیل ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اللہ کا خاص فضل ہوا ہے ، کجا کہ اس امر کی دلیل بنایا جائے کہ آپ معاذ اللہ دیوانے ہو گئے ہیں ۔ اسی مقام پر یہ بات نگاہ میں رہنی چاہیے کہ یہاں خطاب تو بظاہر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے ، لیکن اصل مقصود کفار کو ان کی تہمت کا جواب دینا ہے ۔ لہذا کسی شخص کو یہ شبہ نہ ہو کہ یہ آیت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ اطمینان دلانے کے لیے نازل ہوئی ہے کہ آپ مجنون نہیں ہیں ۔ ظاہر ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے متعلق تو ایسا کوئی شبہ نہ تھا کہ اسے دور کرنے کے لیے آپ کو یہ اطمینان دلانے کی ضرورت ہوتی ۔ مدعا کفار سے یہ کہنا ہے کہ تم جس قرآن کی وجہ سے اس کے پیش کرنے والے کو مجنون کہہ رہے ہو وہی تمہارے اس الزام کے جھوٹے ہونے کی دلیل ہے ( مزید تشریح کے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد پنجم تفسیر سور ۃ طور ، حاشیہ 22 ) ۔