سورة الْحَآقَّة حاشیہ نمبر :3
کفار مکہ چونکہ قیامت کو جھٹلا رہے تھے اور اس کے آنے کی خبر کو مذاق سمجھتے تھے اس لیے پہلے ان کو خبردار کیا گیا کہ وہ تو ہونی شدنی ہے ، تم چاہے مانو یا نہ مانو ، وہ بہرحال آکر رہے گی ۔ اس کے بعد اب ان کو بتایا جا رہا ہے کہ یہ معاملہ صرف اتنا سادہ سا معاملہ نہیں ہے کہ کوئی شخص ایک پیش آنے والے واقعہ کی خبر کو تسلیم کرتا ہے یا نہیں ، بلکہ اس کا نہایت گہرا تعلق قوموں کے اخلاق اور پھر ان کے مستقبل سے ہے ۔ تم سے پہلے گزری ہوئی قوموں کی تاریخ شاہد ہے کہ جس قوم نے بھی آخرت کا انکار کر کے اسی دنیا کی زندگی کو اصل زندگی سمجھا اور اس بات کو جھٹلا دیا کہ انسان کو آخر کار خدا کی عدالت میں اپنا حساب دینا ہو گا ، وہ سخت اخلاقی بگاڑ میں مبتلا ہوئی ، یہاں تک کہ خدا کے عذاب نے آ کر دنیا کو اس کے وجود سے پاک کر دیا ۔
سورة الْحَآقَّة حاشیہ نمبر :4
اصل لفظ القارعہ ہے ۔ قرع عربی زبان میں ٹھوکنے ، کوٹنے کھڑکھڑا دینے ، اور ایک چیز کو دوسری چیز پر مار دینے کے لیے بولا جاتا ہے ۔ قیامت کے لیے یہ دوسرا لفظ اس کی ہولناکی کا تصور دلانے کے لیے استعمال کیا گیا ہے ۔