Surah

Information

Surah # 4 | Verses: 176 | Ruku: 24 | Sajdah: 0 | Chronological # 92 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD)
يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَقۡرَبُوا الصَّلٰوةَ وَاَنۡـتُمۡ سُكَارٰى حَتّٰى تَعۡلَمُوۡا مَا تَقُوۡلُوۡنَ وَلَا جُنُبًا اِلَّا عَابِرِىۡ سَبِيۡلٍ حَتّٰى تَغۡتَسِلُوۡا‌ ؕ وَاِنۡ كُنۡتُمۡ مَّرۡضٰۤى اَوۡ عَلٰى سَفَرٍ اَوۡ جَآءَ اَحَدٌ مِّنۡكُمۡ مِّنَ الۡغَآٮِٕطِ اَوۡ لٰمَسۡتُمُ النِّسَآءَ فَلَمۡ تَجِدُوۡا مَآءً فَتَيَمَّمُوۡا صَعِيۡدًا طَيِّبًا فَامۡسَحُوۡا بِوُجُوۡهِكُمۡ وَاَيۡدِيۡكُمۡ‌ ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَفُوًّا غَفُوۡرًا‏ ﴿43﴾
اے ایمان والو! جب تم نشے میں مست ہو نماز کے قریب بھی نہ جاؤ ، جب تک کہ اپنی بات کو سمجھنے نہ لگو اور جنابت کی حالت میں جب تک کہ غسل نہ کر لو ہاں اگر راہ چلتے گزر جانے والے ہوتو اور بات ہے اور اگر تم بیمار ہو یا سفر میں ہو یا تم میں سے کوئی قضائے حاجت سے آیا ہو یا تم نے عورتوں سے مباشرت کی ہو اور تمہیں پانی نہ ملے تو پاک مٹی کا قصد کرو اور اپنے منہ اور اپنے ہاتھ مل لو ۔ بیشک اللہ تعالٰی معاف کرنے والا بخشنے والا ہے ۔
يايها الذين امنوا لا تقربوا الصلوة و انتم سكرى حتى تعلموا ما تقولون و لا جنبا الا عابري سبيل حتى تغتسلوا و ان كنتم مرضى او على سفر او جاء احد منكم من الغاىط او لمستم النساء فلم تجدوا ماء فتيمموا صعيدا طيبا فامسحوا بوجوهكم و ايديكم ان الله كان عفوا غفورا
O you who have believed, do not approach prayer while you are intoxicated until you know what you are saying or in a state of janabah, except those passing through [a place of prayer], until you have washed [your whole body]. And if you are ill or on a journey or one of you comes from the place of relieving himself or you have contacted women and find no water, then seek clean earth and wipe over your faces and your hands [with it]. Indeed, Allah is ever Pardoning and Forgiving.
Aey eman walo! Jab tum nashay mein mast ho namaz kay qarib bhi na jao jab tak kay apni baat ko samajhney na lago aur janabat ki halat mein jab tak kay ghusul na kerlo haan agar raah chaltay guzar janey walay ho to aur baat hai aur agar tum beemar ho ya safar mein ho ya tum mein say koi qazay-e-haajat say aaya ho ya tum ney aurton say mubashirat ki ho aur tumhen pani na milay to pak mitti ka qasad kero aur apney mun aur apney haath mall lo. Be-shak Allah Taalaa moaf kerney wala bakshney wala hai.
اے ایمان والو ! جب تم نشے کی حالت میں ہو تو اس وقت تک نماز کے قریب بھی نہ جانا جب تک تم جو کچھ کہہ رہے ہو اسے سمجھنے نہ لگو ۔ ( ٣٢ ) اور جنابت کی حالت میں بھی جب تک غسل نہ کرلو ، ( نماز جائز نہیں ) الا یہ کہ تم مسافر ہو ( اور پانی نہ ملے تو تیمم کر کے نماز پڑھ سکتے ہو ) اور اگر تم بیمار ہو یا سفر پر ہو یا تم میں سے کوئی قضائے حاجت کی جگہ سے آیا ہو یا تم نے عورتوں کو چھوا ہو ، پھر تم کو پانی نہ ملے تو پاک مٹی سے تیمم کرلو ، اور اپنے چہروں اور ہاتھوں کا ( اس مٹی سے ) مسح کرلو ۔ بیشک اللہ بڑا معاف کرنے والا بڑا بخشنے والا ہے ۔
اے ایمان والو! نشہ کی حالت میں نماز کے پاس نہ جاؤ ( ف۱۲٦ ) جب تک اتنا ہوش نہ ہو کہ جو کہو اسے سمجھو اور نہ ناپاکی کی حالت میں بےنہائے مگر مسافری میں ( ف۱۲۷ ) اور اگر تم بیمار ہو ( ف۱۲۸ ) یا سفر میں یا تم میں سے کوئی قضائے حاجت سے آیا ہو ( ف۱۲۹ ) یا تم نے عورتوں کو چھوا ( ف۱۳۰ ) اور پانی نہ پایا ( ف۱۳۱ ) تو پاک مٹی سے تیمم کرو ( ف۱۳۲ ) تو اپنے منہ اور ہاتھوں کا مسح کرو ( ف۱۳۳ ) بیشک اللہ معاف کرنے والا بخشنے والا ہے ،
اے لوگو جو ایمان لائے ہو ، جب تم نشے کی حالت میں ہو تو نماز کے قریب نہ جاؤ ۔ 65 نماز اس وقت پڑھنی چاہیے جب تم جانو کہ کیا کہہ رہے ہو ۔ 66 اور اسی طرح جَنابت کی حالت 67 میں بھی نماز کے قریب نہ جاؤ جب تک کہ غسل نہ کر لو ، اِلّا یہ کہ راستہ سے گزرتے ہو ۔ 68 اور اگر کبھی ایسا ہو کہ تم بیمار ہو ، یا سفر میں ہو ، یا تم میں سے کوئی شخص رفع حاجت کر کے آئے ، یا تم نے عورتوں سے لَمس کیا ہو ، 69 اور پھر پانی نہ ملے تو پاک مٹی سے کام لو اور اس سے اپنے چہروں اور ہاتھوں پر مسح کر لو ، 70 بے شک اللہ نرمی سے کام لینے والا اور بخشش فرمانے والا ہے ۔
اے ایمان والو! تم نشہ کی حالت میں نماز کے قریب مت جاؤ یہاں تک کہ تم وہ بات سمجھنے لگو جو کہتے ہو اور نہ حالتِ جنابت میں ( نماز کے قریب جاؤ ) تا آنکہ تم غسل کر لو سوائے اس کے کہ تم سفر میں راستہ طے کر رہے ہو ، اور اگر تم بیمار ہو یا سفر میں ہو یا تم میں سے کوئی قضائے حاجت سے لوٹے یا تم نے ( اپنی ) عورتوں سے مباشرت کی ہو پھر تم پانی نہ پاسکو تو تم پاک مٹی سے تیمم کر لو پس اپنے چہروں اور اپنے ہاتھوں پر مسح کر لیا کرو ، بیشک اللہ معاف فرمانے والا بہت بخشنے والا ہے
سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :65 یہ شراب کے متعلق دوسرا حکم ہے ۔ پہلا حکم وہ تھا جو سورہ بقرہ ( آیت ۲١۹ ) میں گزرا ۔ اس میں صرف یہ ظاہر کر کے چھوڑ دیا گیا تھا کہ شراب بری چیز ہے ، اللہ کو پسند نہیں ۔ چنانچہ مسلمانوں میں سے ایک گروہ اس کے بعد ہی شراب سے پرہیز کرنے لگا تھا ۔ مگر بہت سے لوگ اسے بدستور استعمال کرتے رہے تھے حتّٰی کہ بسااوقات نشے کی حالت ہی میں نماز پڑھنے کھڑے ہو جاتے تھے اور کچھ کا کچھ پڑھ جاتے تھے ۔ غالباً ٤ہجری کی ابتدا میں یہ دوسرا حکم آیا اور نشے میں نماز پڑھنے کی ممانعت کردی گئی ۔ اس کا اثر یہ ہوا کہ لوگوں نے اپنے شراب پینے کے اوقات بدل دیے اور ایسے اوقات میں شراب پینی چھوڑ دی جن میں یہ اندیشہ ہوتا کہ کہیں نشہ ہی کی حالت میں نماز کا وقت نہ آجائے ۔ اس کے کچھ مدت بعد شراب کی قطعی حرمت کا وہ حکم آیا جو سورہ مائدہ آیت ۹۰ ۔ ۹١ میں ہے ۔ یہاں یہ بات بھی ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ آیت میں سکر یعنی نشہ کا لفظ ہے ۔ اس لیے یہ حکم صرف شراب کے لیے خاص نہ تھا بلکہ ہر نشہ آور چیز کے لیے عام تھا ۔ اور اب بھی اس کا حکم باقی ہے ۔ اگرچہ نشہ آور اشیاء کا استعمال بجائے خود حرام ہے ، لیکن نشہ کی حالت میں نماز پڑھنا دوہرا عظیم تر گناہ ہے ۔ سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :66 اسی بنا پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہدایت فرمائی ہے کہ جب کسی شخص پر نیند کا غلبہ ہو رہا ہو اور وہ نماز پڑھنے میں بار بار اونگھ جاتا ہو تو اسے نماز چھوڑ کر سو جانا چاہیے ۔ بعض لوگ اس آیت سے یہ استدلال کرتے ہیں کہ جو شخص نماز کی عربی عبارات کا مطلب نہیں سمجھتا اس کی نماز نہیں ہوتی ۔ لیکن علاوہ اس کے کہ یہ ایک بے جا تشدد ہے ، خود قرآن کے الفاط بھی اس کا ساتھ نہیں دیتے ۔ قرآن میں حتٰی تفقھوا یا حتٰی تفھمُوا ما تقولون بلکہ حتٰی تعلموا ماتقولون فرمایا ہے ۔ یعنی نماز میں آدمی کو اتنا ہوش رہنا چاہیے کہ وہ یہ جانے کہ وہ کیا چیز اپنی زبان سے ادا کر رہا ہے ۔ ایسا نہ ہو کہ وہ کھڑا تو ہو نماز پڑھنے اور شروع کر دے کوئی غزل ۔ سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :67 جنابت کے اصل معنی دوری اور بیگانگی کے ہیں ۔ اسی سے لفظ اجنبی نکلا ہے ۔ اصطلاح شرع میں جنابت سے مراد وہ نجاست ہے جو قضاء شہوت سے یا خواب میں مادہ خارج ہونے سے لاحق ہوتی ہے ، کیونکہ اس کی وجہ سے آدمی طہارت سے بیگانہ ہو جاتا ہے ۔ سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :68 فقہاء اور مفسرین میں سے ایک گروہ نے اس آیت کا مفہوم یہ سمجھا ہے کہ جنابت کی حالت میں مسجد میں نہ جانا چاہیے اِلّا یہ کہ کسی کام کے لیے مسجد میں سے گزرنا ہو ۔ اسی رائے کو عبداللہ بن مسعود ، انس بن مالک ، حسن بصری اور ابراہیم نَخعَی وغیرہ حضرات نے اختیار کیا ہے ۔ دوسرا گروہ اس سے سفر مراد لیتا ہے ۔ یعنی اگر آدمی حالت سفر میں ہو اور جنابت لاحق ہوجائے تو تیمم کیا جا سکتا ہے ۔ رہا مسجد کا معاملہ ، تو اس گروہ کی رائے میں جنبی کے لیے وضو کر کے مسجد میں بیٹھنا جائز ہے ۔ یہ رائے حضرت علی رضی اللہ عنہ ، ابن عباس رضی اللہ عنہ ، سعید بن جُبَیر اور بعض دوسرے حضرات نے اختیار فرمائی ہے ۔ اگرچہ اس امر میں قریب قریب سب کا اتفاق ہے کہ اگر آدمی حالت سفر میں ہو اور جنابت لاحق ہو جائے اور نہانا ممکن نہ ہو تو تیمم کر کے نماز پڑھ سکتا ہے ۔ لیکن پہلا گروہ اس مسئلہ کو حدیث سے اخذ کرتا ہے اور دوسرا گروہ اس روایت کی بنیاد قرآن کی مندرجہ بالا آیت پر رکھتا ہے ۔ سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :69 اس امر میں اختلاف ہے کہ لَمس یعنی چھُونے سے کیا مراد ہے ۔ حضرات علی ، ابن عباس ، ابو موسیٰ اشعری ، اُبَی ابنِ کعب ، سعید بن جُبَیر ، حَسَن بصری اور متعدد ائمہ کی رائے ہے کہ اس سے مراد مباشرت ہے اور اسی رائے کو امام ابو حنیفہ اور ان کے اصحاب اور امام سُفیان ثوری نے اختیار کیا ہے ۔ بخلاف اس کے حضرت عبداللہ بن مسعود اور عبداللہ ابن عمر کی رائے ہے اور بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عمر ابن خطاب کی بھی یہی رائے ہے کہ اس سے مراد چھونا یا ہاتھ لگانا ہے اور اسی رائے کو امام شافعی رحمہ اللہ نے اختیار کیا ہے ۔ بعض ائمہ نے بیچ کا مسلک بھی اختیار کیا ہے ۔ مثلاً امام مالک رحمہ اللہ کی رائے ہے کہ اگر عورت یا مرد ایک دوسرے کو جذبات شہوانی کے ساتھ ہاتھ لگائیں تو ان کا وضو ساقط ہو جائے گا اور نماز کے لیے انہیں نیا وضو کرنا ہوگا ، لیکن اگر جذبات شہوانی کے بغیر ایک کا جسم دوسرے سے مس ہو جائے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ۔ سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :70 حکم کی تفصیلی صورت یہ ہے کہ اگر آدمی بے وضو ہے یا اسے غسل کی حاجت ہے اور پانی نہیں ملتا تو تیمم کر کے نماز پڑھ سکتا ہے ۔ اگر مریض ہے اور غسل یا وضو کرنے سے اس کو نقصان کا اندیشہ ہے تو پانی موجود ہونے کے باوجود تیمم کی اجازت سے فائدہ اٹھا سکتا ہے ۔ تیمم کے معنی قصد کرنے کے ہیں ۔ مطلب یہ ہے کہ جب پانی نہ ملے یا پانی ہو اور اس کا استعمال ممکن نہ ہو تو پاک مٹی کا قصد کرو ۔ تیمم کے طریقے میں فقہاء کے درمیان اختلاف ہے ۔ ایک گروہ کے نزدیک اس کا طریقہ یہ ہے کہ ایک دفعہ مٹی پر ہاتھ مار کر منہ پر پھیر لیا جائے ، پھر دوسری دفعہ ہاتھ مار کر کہنیوں تک ہاتھوں پر پھیر لیا جائے ۔ امام ابو حنیفہ ، امام شافعی ، امام مالک اور اکثر فقہاء کا یہی مذہب ہے ، اور صحابہ و تابعین میں سے حضرت علی ، عبداللہ بن عمر ، حَسَن بصری ، شَعبِی اور سالم بن عبداللہ وغیرہم اس کے قائل تھے ۔ دوسرے گروہ کے نزدیک صرف ایک دفعہ ہی ہاتھ مارنا کافی ہے ۔ وہی ہاتھ منہ پر بھی پھیر لیا جائے اور اسی کو کلائی تک ہاتھوں پر بھی پھیر لیا جائے ۔ کہنیوں تک مسح کرنے کی ضرورت نہیں ۔ یہ عطاء اور مکحول اور اوزاعی اور احمد ابن حنبل رحمہم اللہ کا مذہب ہے اور عموماً حضرات اہل حدیث اسی کے قائل ہیں ۔ تیمم کے لیے ضروری نہیں کہ زمین ہی پر ہاتھ مارا جائے ۔ اس غرض کے لیے ہر گرد آلود چیز اور ہر وہ چیز جو خشک اجزاء ارضی پر مشتمل ہو کافی ہے ۔ بعض لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ اس طرح مٹی پر ہاتھ مار کر منہ اور ہاتھوں پر پھیر لینے سے آخر طہارت کس طرح حاصل ہو سکتی ہے ۔ لیکن درحقیقت یہ آدمی میں طہارت کی حس اور نماز کا احترام قائم رکھنے کے لیے ایک اہم نفسیاتی تدبیر ہے ۔ اس سے فائدہ یہ ہے کہ آدمی خواہ کتنی ہی مدت تک پانی استعمال کرنے پر قادر نہ ہو ، بہرحال اس کے اندر طہارت کا احساس برقرار رہے گا ، پاکیزگی کے جو قوانین شریعت میں مقرر کر دیے گئے ہیں ان کی پابندی وہ برابر کرتا رہے گا ، اور اس کے ذہن سے قابل نماز ہونے کی حالت اور قابل نماز نہ ہونے کی حالت کا فرق و امتیاز کبھی محو نہ ہو سکے گا ۔
بتدریج حرمت شراب اور پس منظر اللہ تبارک وتعالیٰ اپنے ایمان دار بندوں کو نشے کی حالت میں نماز پڑھنے سے روک رہا ہے کیونکہ اس وقت نمازی کو معلوم ہی نہیں ہوتا کہ وہ کیا کہہ رہا ہے اور ساتھ ہی محل نماز یعنی مسجد میں آنے سے روکا جا رہا ہے اور ساتھ جنبی شخص جسے نہانے کی حاجت کو محل نماز یعنی مسجد میں آنے سے روکا جا رہا ہے ۔ ہاں ایسا شخص کسی کام کی وجہ سے مسجد کے ایک دروازے سے داخل ہو کر دوسرے دروازے سے نکل جائے تو جائز ہے نشے کی حالت میں نماز کی قریب نہ جانے کا حکم شراب کی حرمت سے پہلے تھا جیسے اس حدیث سے ظاہر ہے جو ہم نے سورہ بقرہ کی ( يَسْــَٔـلُوْنَكَ عَنِ الْخَــمْرِ وَالْمَيْسِرِ ۭ قُلْ فِيْهِمَآ اِثْمٌ كَبِيْرٌ وَّمَنَافِعُ لِلنَّاسِ ۡ وَاِثْـمُهُمَآ اَكْبَرُ مِنْ نَّفْعِهِمَا ۭ وَيَسْــَٔـلُوْنَكَ مَاذَا يُنْفِقُوْنَ ڛ قُلِ الْعَفْوَ ۭ كَذٰلِكَ يُـبَيِّنُ اللّٰهُ لَكُمُ الْاٰيٰتِ لَعَلَّكُمْ تَتَفَكَّرُوْنَ ) 2 ۔ البقرۃ:219 ) کی تفسیر میں بیان کی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جب وہ آیت حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سامنے تلاوت کی تو آپ نے دعا مانگی کہ اے اللہ شراب کے بارے میں اور صاف صاف بیان نازل فرما پھر نشے کی حالت میں نماز کے قریب نہ جانے کی یہ آیت اتری اس پر نمازوں کے وقت اس کا پینا لوگوں نے چھوڑ دیا اسے سن کر بھی جناب فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہی دعا مانگی تو ( يٰٓاَيُّھَاالَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْاَنْصَابُ وَالْاَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّيْطٰنِ فَاجْتَنِبُوْهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ 90؀ اِنَّمَا يُرِيْدُ الشَّيْطٰنُ اَنْ يُّوْقِعَ بَيْنَكُمُ الْعَدَاوَةَ وَالْبَغْضَاۗءَ فِي الْخَمْرِ وَالْمَيْسِرِ وَيَصُدَّكُمْ عَنْ ذِكْرِ اللّٰهِ وَعَنِ الصَّلٰوةِ ۚ فَهَلْ اَنْتُمْ مُّنْتَهُوْنَ 91 ) 5 ۔ المائدہ:90-91 ) تک نازل ہوئی جس میں شراب سے بچنے کا حکم صاف موجود ہے اسے سن کر فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا ہم باز آئے ۔ اسی روایت کی ایک سند میں ہے کہ جب سورۃ نساء کی یہ آیت نازل ہوئی اور نشے کے وقت نماز پڑھنے کی ممانعت ہوئی اس قوت یہ دستور تھا کہ جب نماز کھڑی ہوتی تو ایک شخص آواز لگاتا کہ کوئی نشہ والا نماز کے قریب نہ آئے ، ابن ماجہ شریف میں ہے حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں میرے بارے میں چار آیتیں نازل ہوئی ہیں ، ایک انصاری نے بہت سے لوگوں کی دعوت کی ہم سب نے خوب کھایا پیا پھر شرابیں پیں اور مخمور ہوگئے پھر آپس میں فخر جتانے لگے ایک شخص نے اونٹ کے جبڑے کی ہڈی اٹھا کر حضرت سعد کو ماری جس سے ناک پر زخم آیا اور اس کا نشان باقی رہ گیا اس وقت تک شراب کو اسلام نے حرام نہیں کیا تھا پس یہ آیت نازل ہوئی یہ حدیث صحیح مسلم شریف میں بھی پوری مروی ہے ابن ابی حاتم کی روایت میں ہے کہ عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے دعوت کی سب نے کھانا کھایا پھر شراب پی اور مست ہوگئے اتنے میں نماز کا وقت آ گیا ایک شخص کو امام بنایا اس نے نماز میں سورۃ ( آیت قل یاایھا الکافرون ) میں اس طرح پڑھا ( آیت ما اعبد ما تعبدون ونحن نعبد ما تعبدون ) اس پر یہ آیت اتری اور نشے کی حالت میں نماز کا پڑھنا منع کیا گیا ۔ یہ حدیث ترمذی میں بھی ہے اور حسن ہے ۔ ابن جریر کی روایت میں ہے کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہا حضرت عبدالرحمن اور تیسرے ایک اور صاحب نے شراب پی اور حضرت عبدالرحمن نماز میں امام بنائے گئے اور قرآن کی قرأت خلط ملط کر دی اس پر یہ آیت اتری ۔ ابو داؤد اور نسائی میں بھی یہ روایت ہے ابن جریر کی ایک اور روایت میں ہے کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے امامت کی اور جس طرح پڑھنا چاہیے تھانہ پڑھ سکے اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور ایک روایت میں مروی ہے کہ حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے امامت کرائی اور اس طرح پڑھا ( آیت قل ایھا الکافرون اعبدما تعبدما تعبدون وانتم عابدون ما اعبدو انا عابد ما عبدتم ما عبدتم لکم دینکم ولی دین ، ) پس یہ آیت نازل ہوئی اور اس حالت میں نماز پڑھنا حرام کر دیا گیا حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتے ہیں کہ شراب کی حرمت سے پہلے لوگ نشہ کی حالت میں نماز کے لئے کھڑے ہوتے تھے پس اس آیت سے انہیں ایسا کرنے سے روک دیا گیا ( ابن جریر ) حضرت قتادہ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں اس کے نازل ہونے کے بعد لوگ اس سے رک گئے پھر شراب کی مطلق حرمت نازل ہونے کے بعد لوگ اس سے بالکل تائب ہوگئے پھر شراب کی مطلق حرمت نازل ہوئی حضرت ضحاک رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں اس سے شراب کا نشہ مراد نہیں بلکہ نیند کا خمار مراد ہے ، امام ابن جریر رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں ٹھیک یہی ہے کہ مراد اس سے شراب کا نشہ ہے اور یہاں خطاب ان سے کیا گیا ہے جو نشہ میں ہیں لیکن اتنے نشہ میں بھی نہیں کہ احکام شرع ان پر جاری ہی نہ ہو سکیں کیونکہ نشے کی ایسی حالت والا شخص مجنون کے حکم میں ہے ، بہت سے اصولی حضرات کا قول ہے کہ خطاب ان لوگوں سے ہے جو کلام کو سمجھ سکیں ایسے نشہ والوں کی طرف نہیں جو سمجھتے ہی نہیں کہ ان سے کیا کہا جا رہا ہے اس لئے کہ خطاب کا تکلیف کی سمجھنا شرط ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ گو الفاظ یہ ہیں کہ نشہ کی حالت میں نماز نہ پڑھو لیکن مراد یہ ہے کہ نشے کی چیز کھاؤ پیو بھی نہیں اس لئے کہ دن رات میں پانچ وقت نماز فرض ہے تو کیسے ممکن ہے کہ ایک شرابی ان پانچویں وقت نمازیں ٹھیک وقت پر ادا کر سکے حالانکہ شراب برابر پی رہا ہے واللہ اعلم پس یہ حکم بھی اسی طرح ہو گا جس طرح یہ حکم ہے کہ ایمان والو اللہ سے ڈرتے رہو جتنا اس سے ڈرنے کا حق ہے اور نہ مرنا تم مگر اس حالت میں کہ تم مسلمان ہو ۔ تو اس سے مراد یہ ہے کہ ایسی تیاری ہر وقت رکھو اور ایسے پاکیزہ اعمال ہر وقت کرتے رہو کہ جب تمہیں موت آئے تو اسلام پر دم نکلے یہ جو اس آیت میں ارشاد ہوا ہے کہ یہاں تک کہ تم معلوم کر سکو جو تم کہہ رہے ہو یہ نشہ کی حد سے یعنی نشہ کی حالت میں اس شخص کو سمجھا جائے گا نہ ہی اسے عاجزی اور خشوع خضوع حاصل ہو سکتا ہے ، مسند احمد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں جب تم میں سے اگر کوئی نماز میں اونگھنے لگے تو اسے چاہیے کہ وہ نماز چھوڑ کر سو جائے جب تک کہ وہ جاننے لگے کہ وہ کیا کہہ رہا ہے ، بخاری اور نسائی میں بھی یہ حدیث ہے اور اس کے بعض طرق میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ ممکن ہے کہ وہ اپنے لئے استغفار کرے لیکن اس کی زبان سے اس کے خلاف نکلے ۔ آداب مسجد اور مسائل تیمم پھر فرمان ہے کہ جنبی نماز کے قریب نہ جائے جب تک غسل نہ کرلے ہاں بطور گزر جانے کے مسجد میں گزرنا جائز ہے ، حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں ایسی ناپاکی کی حالت میں مسجد میں جانا ناجائز ہے ہاں مسجد کے ایک طرف سے نکل جانے میں کوئی حرج نہیں مسجد میں بیٹھے نہیں اور بھی بہت سے صحابہ اور تابعین کا یہی قول ہے حضرت یزید بن ابو حبیب فرماتے ہیں بعض انصار جو مسجد کے گرد رہتے تھے اور جنبی ہوتے تھے گھر میں پانی نہیں ہوتا تھا اور گھر کے دروازے مسجد سے متصل تھے انہیں اجازت مل گئی کہ مسجد سے اسی حالت میں گزر سکتے ہیں ۔ بخاری شریف کی ایک حدیث سے بھی یہ بات صاف طور پر ثابت ہوتی ہے کہ لوگوں کے گھروں کے دروازے مسجد میں تھے چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے آخری مرض الموت میں فرمایا تھا کہ مسجد میں جن جن لوگوں کے دروازے پڑتے ہیں سب کو بند کر دو حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا دروازہ رہنے دو ۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ آپ کے بعد آپ کے جانشین حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہوں گے تو انہیں ہر وقت اور بکثرت مسجد میں آنے جانے کی ضرورت رہے گی تاکہ مسلمانوں کے اہم امور کا فیصلہ کر سکیں اس لئے آپ نے سب کے دروازے بند کرنے اور صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا دروازہ کھلا رکھنے کی ہدایت فرمائی ، بعض سنن کی اس حدیث میں بجائے حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا نام ہے وہ بالکل غلط ہے صحیح یہی ہے جو صحیح میں ہے اس آیت سے اکثر ائمہ نے دلیل پکڑی ہے کہ جنبی شخص کو مسجد میں ٹھہرانا حرم ہے ہاں گزر جانا جائز ہے ، اسی طرح حیض و نفاس والی عورتوں کو بھی بعض کہتے ہیں ان دونوں کے گزرنا بھی جائز نہیں ممکن ہے مسجد میں آلودگی ہو اور بعض کہتے اگر اس بات کا خوف نہ ہو انکا گزرنا بھی جائز ہے ۔ صحیح مسلم شریف کی حدیث میں ہے کہ آنحضرت نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے فرمایا کہ مسجد سے مجھے بوریا اٹھا دو تو ام المومنین نے عرض کیا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں حیض سے ہوں آپ نے فرمایا تیرا حیض تیرے ہاتھ میں نہیں اس سے ثابت ہوتا ہے کہ حائضہ مسجد میں آ جا سکتی ہے اور نفاس والی کے لئے بھی یہی حکم ہے ۔ یہ دونوں بطور راستہ چلنے کے جا آ سکتی ہیں ۔ ابو داؤد میں فرمان رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے کہ میں حائض اور جنبی کے لئے مسجد کو حلال نہیں کرتا ۔ امام ابو مسلم خطابی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں اس حدیث کو ایک جماعت نے ضعیف کہا ہے کیونکہ افلت اس کا راوی مجہول ہے ۔ لیکن ابن ماجہ میں یہ روایت ہے اس میں افلت کی وجہ معدوم ذہلی ہیں ۔ پہلی حدیث بروایت حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور دوسری بروایت حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا ہے لیکن ٹھیک نام حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا ہی ہے ۔ ایک اور حدیث ترمذی میں ہے جس میں ہے کہ اے علی اس مسجد میں جنبی ہونا میرے اور تیرے سوا کسی کو حلال نہیں یہ حدیث بالکل ضعیف ہیں واللہ اعلم ۔ اس آیت کی تفسیر میں حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں مطلب یہ ہے کہ جنبی شخص بغیر غسل کئے نماز نہیں پڑھ سکتا لیکن اگر وہ مسافر ہو اور پانی نہ ملے تو پانی کے ملنے تک پڑھ سکتا ہے ۔ ابن عباس سعید بن جبیر اور ضحاک سے بھی یہی مروی ہے ، حضرت مجاہد حسن حکم زید اور عبدالرحمن سے بھی اس کے مثل مروی ہے ، عبداللہ بن کثیر رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں ہم سنا کرتے تھے کہ یہ آیت سفر کے حکم میں ہے ، اس حدیث سے بھی مسئلہ کی شہادت ہو سکتی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بہتر ہے ( سنن اور احمد ) امام ابن جریر رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں ان دونوں قولوں میں اولیٰ قول ان ہی لوگوں کا ہے جو کہتے ہیں اس سے مراد صرف گزر جانا ہے کیونکہ جس مسافر کو جنب کی حالت میں پانی نہ ملے اس کا حکم تو آگے صاف بیان ہوا ہے پس اگر یہی مطلب یہاں بھی لیا جائے تو پھر دوسرے جملہ میں اسے لوٹانے کی ضرورت باقی نہیں رہتی پس معنی آیت کے اب یہ ہوئے کہ ایمان والو نماز کے لئے مسجد میں نہ جاؤ جب کہ تم نشے میں ہو جب تک تم اپنی بات کو آپ نہ سمجھنے لگو اسی طرح جنب کی حالت میں بھی مسجد میں نہ جاؤ جب تک نہا نہ لو ہاں صرف گزر جانا جائز ہے عابر کے معنی آنے جانے یعنی گزر جانے والے ہیں اس کا مصدر عبراً اور عبورًا آتا ہے جب کوئی نہر سے گزرے تو عرب کہتے ہیں عبرفلان النھر فلاں شخص نے نہر سے عبور کر لیا اسی طرح قوی اونٹنی کو جو سفر کاٹتی ہو عبرالاسفار کہتے ہیں ۔ امام ابن جیریر جس قول کی تائید کرتے ہیں یہی قول جمہور کا ہے اور آیت سے ظاہر بھی یہی ہے یعنی اللہ تعالیٰ اس ناقص حالت نماز سے منع فرما رہا ہے جو مقصود نماز کے خلاف ہے اسی طرح نماز کی جگہ میں بھی ایسی حالت میں آنے کو روکتا ہے جو اس جگہ کی عظمت اور پاکیزگی کے خلاف ہے واللہ اعلم ۔ پھر جو فرمایا کہ یہاں تک کہ تم غسل کر لو امام ابو حنیفہ ، امام مالک اور شافعی اسی دلیل کی روشنی میں کہتے ہیں کہ جنبی کو مسجد میں ٹھہرنا حرام ہے جب تک غسل نہ کر لے یا اگر پانی نہ ملے یا پانی ہو لیکن اس کے استعمال کی قدرت نہ ہو تو تیمم کر لے ۔ حضرت امام احمدرحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں جب جنبی نے وضو کر لیا تو اسے مسجد میں ٹھہرنا جائز ہے چنانچہ مسند احمد اور سنن سعید بن منصور میں مروی ہے ۔ حضرت عطا بن یسار رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ کو دیکھا کہ وہ جنبی ہوتے اور وضو کر کے مسجد میں بیٹھے رہتے واللہ اعلم ۔ پھر تیمم کی اجازت کا فتویٰ دیا ہے کیونکہ آیت میں عموم ہے حضرت مجاہد رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں ایک انصاری بیمار تھے نہ تو کھڑے ہو کر وضو کر سکتے تھے نہ ان کا کوئی خادم تھا جو انہیں پانی دے انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اس کا ذکر کیا اس پر یہ حکم اترا یہ روایت مرسل ہے ، دوسری حالت میں تیمم کے جواز کی وجہ سفر ہے خواہ لمبا سفر اور خواہ چھوٹا ۔ غائط نرم زمین کو یہاں سے کنایہ کیا گیا ہے پاخانہ پیشاب سے لا مستم کی دوسری قرأت لمستم ہے اس کی تفسیر میں دو قول ہیں ایک یہ کہ مراد جماع ہے جیسے اور آیت میں ہے ( ثُمَّ طَلَّقْتُمُوْهُنَّ مِنْ قَبْلِ اَنْ تَمَسُّوْهُنَّ فَمَا لَكُمْ عَلَيْهِنَّ مِنْ عِدَّةٍ تَعْتَدُّوْنَهَا ۚ فَمَتِّعُوْهُنَّ وَسَرِّحُوْهُنَّ سَرَاحًا جَمِيْلًا ) 33 ۔ الاحزاب:49 ) یعنی اگر تم اپنی بیویوں کو ایمان والی عورتوں سے نکاح کرو پھر مجامعت سے پہلے انہیں طلاق دے دو تو ان کے ذمہ عدت نہیں ، یہاں بھی لفظ ( آیت من قبل ان تمسوھن ) ہے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ اولا مستم النساء سے مراد مجامعت ہے ۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہا حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت مجاہد رضی اللہ تعالیٰ عنہا حضرت طاؤس رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت عبید بن عمیر حضرت سعید بن جبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت شعبی رحمتہ اللہ علیہ حضرت قتادہ رحمتہ اللہ علیہ حضرت مقاتل رحمتہ اللہ علیہ بن حیان سے بھی یہی مروی ہے ۔ سعید بن جبیر رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں ایک مرتبہ اس لفظ پر مذاکرہ ہوا تو چند موالی نے کہا یہ جماع نہیں اور چند عرب نے کہا جماع ہے ، میں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اس کا ذکر کیا آپ نے پوچھا تم کن کے ساتھ تھے میں نے کہا موالی کے فرمایا موالی مغلوب ہوگئے لمس اور مس اور مباشرت کا معنی جماع ہے ، اللہ تعالیٰ نے یہاں کنایہ کیا ہے ، بعض اور حضرات نے اس سے مراد مطلق چھونا لیا ہے ۔ خواہ جسم کے کسی حصہ کو عورت کے کسی حصہ سے ملایا جائے تو وضو کرنا پڑے گا ۔ لمس سے مراد چھونا ہے ۔ اور اس سے بھی وضو کرنا پڑے گا ۔ فرماتے ہیں مباشرت سے ہاتھ لگانے سے بوسہ لینے سے وضو کرنا پڑے گا ۔ لمس سے مراد چھونا ہے ، ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی عورت کا بوسہ لینے سے وضو کرنے کے قائل تھے اور اسے لمس میں داخل جانتے تھے عبیدہ ، ابو عثمان ثابت ابراہیم زید بھی کہتے ہیں کہ لمس سے مراد جماع کے علاوہ ہے حضرت عبداللہ بن عمر فرماتے ہیں کہ انسان کا اپنی بیوی کا بوسہ لینا اور اسے ہاتھ لگانا ملامست ہے اس سے وضو کرنا پڑے گا ( موطامالک ) دار قطنی میں خود عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بھی اسی طرح مروی ہے لیکن دوسری روایت آپ سے اس کے خلاف بھی پائی جاتی ہے آپ باوضو تھے آپ نے اپنی بیوی کا بوسہ لیا پھر وضو نہ کیا اور نماز ادا کی ۔ پس دونوں روایتوں کو صحیح ماننے کے بعد یہ فیصلہ کرنا پڑے گا کہ آپ وضو کو مستحب جانتے تھے واللہ اعلم ۔ مطلق چھونے سے وضو کے قائل امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ اور ان کے ساتھی امام مالک رحمتہ اللہ علیہ ہیں اور مشہور امام احمد بن حنبل سے بھی یہی روایت ہے ۔ اس قول کے قائل کہتے ہیں کہ یہاں دو قرأت یں ہیں لا مستم اور لمستم اور لمس کا اطلاق ہاتھ لگانے پر بھی قرآن کریم میں آیا ہے چنانچہ ارشاد ہے ( وَلَوْ نَزَّلْنَا عَلَيْكَ كِتٰبًا فِيْ قِرْطَاسٍ فَلَمَسُوْهُ بِاَيْدِيْهِمْ لَقَالَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا اِنْ هٰذَآ اِلَّا سِحْـرٌ مُّبِيْنٌ ) 6 ۔ الانعام:7 ) ظاہر ہے کہ یہاں ہاتھ لگانا ہی مراد ہے اسی طرح حضرت ماعز بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو رسول اللہ کا یہ فرمانا کہ شاید تم نے بوسہ لیا ہو گا ہاتھ لگایا ہو گا وہاں بھی لفظ لمست ہے ۔ اور صرف ہاتھ لگانے کے معنی میں ہی اور حدیث میں ہے ( حدیث والیدز ناھا اللمس ہاتھ کا زنا چھونا اور ہاتھ لگانا ہے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتی ہیں بہت کم دن ایسے گزرتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے پاس آ کر بوسہ نہ لیتے ہوں یا ہاتھ نہ لگاتے ہوں ۔ بخاری ومسلم کی حدیث میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بیع ملامست سے منع فرمایا یہ بھی ہاتھ لگانے کے بیع ہے پس یہ لفظ جس طرح جماع پر بولا جاتا ہے ہاتھ سے چھونے پر بھی بولا جاتا ہے شاعر کہتا ہے ولمست کفی کفہ اطلب الغنی میرا ہاتھ اس کے ہاتھ سے ملا میں تونگری چاہتا تھا ۔ ایک اور روایت میں ہے کہ ایک شخص سرکار محمد میں حاضر ہو کر عرض کرتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس شخص کے بارے میں کیا فیصلہ ہے جو ایک جنبیہ عورت کے ساتھ تمام وہ کام کرتا ہے جو میاں بیوی میں ہوتے ہیں سوائے جماع کے تو ( وَاَقِمِ الصَّلٰوةَ طَرَفَيِ النَّهَارِ وَزُلَفًا مِّنَ الَّيْلِ ) 11 ۔ ہود:114 ) نازل ہوتی ہے اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں وضو کر کے نماز ادا کر لے اس پر حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ پوچھتے ہیں کیا یہ اسی کے لئے خاص ہے یا سب مسلمانوں کے لئے کام ہے آپ جواب دیتے ہیں تمام ایمان والوں کے لئے ہے ، امام ترمذی رحمتہ اللہ علیہ اسے زائدہ کی حدیث سے یہ کہتے ہیں کہ اسے وضو کا حکم اسی لئے دیا کہ اس نے عورت کو چھوا تھا جماع نہیں کیا تھا ۔ اس کا جواب یہ دیا جاتا ہے کہ اولاً تو یہ منقطع ہے ابن ابی لیلی اور معاذ کے درمیان ملاقات کا ثبوت نہیں دوسرے یہ کہ ہو سکتا ہے اسے وضو کا حکم فرض نماز کی ادائیگی کے لئے دیا ہو جیسے کہ حضرت صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہا والی حدیث ہے کہ جو بندہ کوئی گناہ کرے پھر وضو کر کے دو رکعت نماز ادا کرے تو اللہ تعالیٰ اس کے گناہ معاف فرما دیتا ہے یہ پوری حدیث سورۃ آل عمران میں ( ذَكَرُوا اللّٰهَ فَاسْتَغْفَرُوْا لِذُنُوْبِھِمْ ۠ وَ مَنْ يَّغْفِرُ الذُّنُوْبَ اِلَّا اللّٰهُ ) 3 ۔ آل عمران:135 ) کی تفسیر میں گزر چکی ہے ، امام ابن جریر رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں ان دونوں قولوں میں سے اولیٰ قول ان کا ہے جو کہتے ہیں کہ مراد اس سے جماع نہ کہ اور ۔ کیونکہ صحیح مرفوع حدیث میں آ چکا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی کسی بیوی صاحبہ کا بوسہ لیا اور بغیر وضو کئے نماز پڑھی ، حضرت مائی عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں آنحضرت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وضو کرتے بوسہ لیتے پھر بغیر وضو کیے نماز پڑھتے ۔ حضرت حبیب رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں مائی عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی کسی بیوی کا بوسہ لیتے نماز کو جاتے میں نے کہا وہ آپ ہی ہوں گی تو آپ مسکرا دیں ، اس کی سند میں کلام ہے لیکن دوسری سندوں سے بغیر وضو کیے ثابت ہے کہ اوپر کے راوی یعنی حضرت صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے سننے والے حضرت عروہ بن زبیر رحمتہ اللہ علیہ ہیں اور روایت میں ہے کہ وضو کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرا بوسہ لیا اور پھر وضو کیے بغیر نماز ادا کی ، حضرت ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بوسہ لیتے حالانکہ آپ روزے سے ہوتے پھر نہ تو روزہ جاتا نہ نیا وضو کرتے ( ابن جریر ) حضرت زینت بنت خزیمہ فرماتی ہیں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بوسہ لینے کے بعد وضو نہ کرتے اور نماز پڑھتے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں اگر پانی نہ پاؤ تو پاک مٹی سے تیمم کر لو ، اس سے اکثر فقہا نے استدلال کیا ہے کہ پانی نہ پانے والے کے لئے تیمم کی اجازت پانی کی تلاش کے بعد ہے ۔ کتب فروع میں تلاش کی کیفیت بھی لکھی ہے بخاری و مسلم میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک شخص کو دیکھا کہ الگ تھلگ ہے اور لوگوں کے ساتھ اس نے نماز جماعت کے ساتھ نہیں پڑھی تو آپ نے اس سے پوچھا تو نے لوگوں کے ساتھ نماز کیوں نہ پڑھی؟ کیا تو مسلمان نہیں؟ اس نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہوں تو مسلمان لیکن جنبی ہو گیا اور پانی نہ ملا آپ نے فرمایا پھر اس صورت میں تجھے مٹی کافی تھی ۔ تیمم کے لفظی معنی قصد کرنے کے ہیں ۔ عرب کہتے ہیں تیممک اللہ بحفظہ یعنی اللہ اپنی حفاظت کے ساتھ تیرا قصد کرے ، امراء القیس کے شعر میں بھی یہ لفظ اسی معنی میں آیا ہے ، صعید کے معنی میں کہا گیا ہے کہ ہر وہ چیز جو زمین میں سے اوپر کو چڑھے پس اس میں مٹی ریت درخت پتھر گھاس بھی داخل ہو جائیں گے ۔ امام مالک رحمتہ اللہ علیہ کا قول یہی ہے اور کہا گیا ہے کہ جو چیز مٹی کی جنس سے ہو جیسے ریت ہڑتال اور چونا یہ مذہب ابو حنیفہ رحمتہ اللہ علیہ کا ہے اور یہ بھی کہا گیا کہ صرف مٹی ہے مگر یہ قول ہے حضرت امام شافعی اور امام احمد بن حنبل اور ان کے تمام ساتھیوں کا ہے اس کی دلیل ایک تو قرآن کریم کے یہ الفاظ ہیں ( فَتُصْبِحَ صَعِيْدًا زَلَقًا ) 18 ۔ الکہف:40 ) یعنی ہو جائے وہ مٹی پھسلتی دوسری دلیل صحیح مسلم شریف کی یہ حدیث ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہمیں تمام لوگوں پر تین فضیلتیں دی گئی ہیں ہماری صفیں مثل فرشتوں کی صفوں کے ترتیب دی گئیں ہمارے لئے تمام زمین مسجد بنائی گئی اور زمین کی مٹی ہمارے لئے پاک اور پاک کرنے والی بنائی گئی جبکہ ہم پانی نہ پائیں اور ایک سند سے بجائے تربت کے ترابت کا لفظ مروی ہے ۔ پس اس حدیث میں احسان کے جتاتے وقت مٹی کی تخصیص کی گئی ، اگر کوئی اور چیز بھی وضو کے قائم مقام کام آنے والی ہوتی تو اس کا ذکر بھی ساتھ ہی کر دیتے ۔ یہاں یہ لفظ طیب اسی کے معنی میں آیا ہے ۔ مراد حلال ہے اور کہا گیا ہے کہ مراد پاک ہے جیسے حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں پاک مٹی مسلمانوں کا وضو ہے گو دس سال تک پانی نہ پائے پھر جب پانی ملے تو اسے اپنے جسم سے بہائے یہ اس کے لئے بہتر ہے ، امام ترمذی رحمتہ اللہ علیہ اسے حسن صحیح کہتے ہیں حافظ ابو الحسن قطان رحمتہ اللہ علیہ بھی اسے صحیح کہتے ہیں ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتے ہیں سب سے زیادہ پاک مٹی کھیت کی زمین کی مٹی ہے بلکہ تفسیر ابن مردویہ میں تو اسے مرفوعاً وارد کیا ہے پھر فرمان ہے کہ اسے اپنے چہرے پر اور ہاتھ پر ملنا کافی ہے اور اس پر اجماع ہے ، لیکن کیفیت تیمم میں ائمہ کا اختلاف ہے ۔ جدید مذہب شافعی یہ ہے کہ دو دفعہ کر کے منہ اور دونوں ہاتھوں کا کہنیوں تک مسح کرنا واجب ہے اس لئے کہ یدین کا اطلاق بغلوں تک اور کہنیوں تک ہوتا ہے جیسے آیت وضو میں اور اسی لفظ کا اطلاق ہوتا ہے اور مراد صرف ہتھیلیاں ہی ہوتی ہیں جیسے کہ چور کی حد کے بارے میں فرمایا ( وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَةُ فَاقْطَعُوْٓا اَيْدِيَهُمَا جَزَاۗءًۢ بِمَا كَسَـبَا نَكَالًا مِّنَ اللّٰهِ ۭ وَاللّٰهُ عَزِيْزٌ حَكِيْمٌ ) 5 ۔ المائدہ:38 ) کہتے ہیں یہاں تیمم کے حکم میں ہاتھ کا ذکر مطلق ہے اور وضو کے حکم سے مشروط ہے اس لئے اس مطلق کو اس مشروط پر محمول کیا جائے گا کیونکہ طہوریت جامع موجود ہے اور بعض لوگ اس کی دلیل میں دار قطنی والی روایت پیش کرتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تیمم کی دو ضربیں ہیں ایک مرتبہ ہاتھ مار کر منہ پر ملنا اور ایک مرتبہ ہاتھ مار کر دونوں کہنیوں تک ملنا ، لیکن یہ حدیث صحیح نہیں اس لئے کہ اس کی اسناد میں ضعف ہے حدیث ثابت نہیں ۔ ابو داؤد کی ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے ہاتھ ایک دیوار پر مارے اور منہ پر ملے پھر دوبارہ ہاتھ مار کر اپنی دونوں بازوؤں پر ملے ۔ لیکن اس کی اسناد میں محمد بن ثابت عبدی ضعیف ہیں انہیں بعض حافظان حدیث نے ضعیف کہا ہے ، اور یہی حدیث بعض ثقہ راویوں نے بھی روایت کی ہے لیکن وہ مرفوع نہیں کرتے بلکہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا فعل بتاتے ہیں امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ کی دلیل یہ حدیث بھی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پیشاب کر رہے ہیں میں نے آپ کو سلام کیا لیکن آپ نے جواب نہ دیا فارغ ہو کر آپ ایک دیوار کے پاس گئے اور اپنے دونوں ہاتھ اس پر مار کر منہ پر ملے پھر میرے سلام کا جواب دیا ( ابن جریر ) یہ تو تھا امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ کا جدید مذہب ۔ آپ کا خیال یہ ہے کہ ضربیں تو تیمم میں دو ہیں لیکن دوسری ضرب میں ہاتھوں کو پہنچوں تک ملنا چاہیے ، تیسرا قول یہ ہے کہ صرف ایک ہی ضرب یعنی ایک ہی مرتبہ دونوں ہاتھوں کا مٹی پر مار لینا کافی ان گرد آلود ہاتھوں کو منہ پر پھیر لے اور دونوں پر پہنچے تک مسند احمد میں ہے کہ ایک شخص امیر المومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس آیا کہ میں جنبی ہو گیا اور مجھے پانی نہ ملا تو مجھے کیا کرنا چاہیے آپ نے فرمایا نماز نہ پڑھنی چاہیے دربار میں حضرت عمار رضی اللہ تعالیٰ عنہا بھی موجود تھے فرمانے لگے امیر المومنین کیا آپ کو یاد نہیں کہ میں اور آپ ایک لشکر میں تھے اور ہم جنبی ہوگئے تھے اور ہمیں پانی نہ ملا تو آپ نے تو نماز نہ پڑھی اور میں نے مٹی میں لوٹ پوٹ کر نماز ادا کر لی جب میں واپس پلٹے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں پہنچے تو میں نے اس واقعہ کا بیان حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کیا تو آپ نے فرمایا مجھے اتنا کافی تھا پھر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے ہاتھ زمین پر مارے اور ان میں پھونک ماردی اور اپنے منہ کو ملا اور ہتھیلیوں کو ملا ۔ مسند احمد میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تیمم میں ایک ہی مرتبہ ہاتھ مارنا جو چہرے کے لئے دونوں ہاتھوں کی ہتھیلیوں کے لئے ہے ، مسند احمد میں ہے حضرت شقیق رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور حضرت ابو موسی رض اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس بیٹھا ہوا تھا حضرت ابو لیلیٰ رحمتہ اللہ علیہ نے حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا کہ اگر کوئی شخص پانی نہ پائے تو نماز نہ پڑھے اس پر حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کیا تمہیں یاد نہیں جبکہ مجھے اور آپ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اونٹوں کے بارے میں بھیجا تھا وہاں میں جنبی ہو گیا اور مٹی میں لوٹ پوٹ لیا واپس آ کر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے یہ واقعہ بیان کیا تو آپ ہنس دئیے اور فرمایا اپنے چہرے پر ایک بار ہاتھ پھیر لئے اور ضرب ایک ہی رہی ، تو حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا لیکن حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس پر قناعت نہیں کی یہ سن کر حضرت ابو موسی نے فرمایا پھر تم اس آیت کا کیا کرو گے جو سورہ نساء میں ہے کہ پانی نہ پاؤ تو پاک مٹی کا قصد کرو اس کا جواب حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نہ دے سکے اور فرمانے لگے سنو ہم نے لوگوں کو تیمم کی رخصت دیدی تو بہت ممکن ہے کہ پانی جب انہیں ٹھنڈا معلوم ہوگا تو وہ تیمم کرنے لگیں گے سورۃ مائدہ میں فرمان ہے ( فَامْسَحُوْا بِوُجُوْهِكُمْ وَاَيْدِيْكُمْ مِّنْهُ ) 5 ۔ المائدہ:6 ) اسے اپنے چہرے اور ہاتھ پر ملو ۔ اس سے حضرت امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ نے دلیل پکڑی ہے کہ تیمم کا پاک مٹی سے ہونا اور اس کا بھی غبار آلود ہونا جس سے ہاتھوں پر غبار لگے اور وہ منہ اور ہاتھ پر ملا جائے ضروری ہے جیسے کہ حضرت ابو جہم رض اللہ تعالیٰ عنہا والی حدیث میں گزرا ہے ۔ کہ انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو استنجا کرتے ہوئے دیکھا اور سلام کیا اس میں یہ بھی ہے کہ فارغ ہو کر ایک دیوار کے پاس گئے اور اپنی لکڑی سے کھرچ کر پھر ہاتھ مار کر تیمم کیا ۔ پھر فرمان ہے کہ اللہ تعالیٰ تم پر تمہارے دین میں تنگی اور سختی کرنا نہیں چاہتا بلکہ وہ تمہیں پاک صاف کرنا چاہتا ہے اسی لئے پانی نہ پانے کے وقت مٹی کے ساتھ تیمم کر لینے کو مباح قرار دے کر تم پر اپنی نعمت کا اتمام فرمایا تاکہ تم شکر کرو ۔ پس یہ امت اس نعمت کے ساتھ مخصوص ہے جیسے کہ بخاری و مسلم میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں مجھے پانچ چیزیں ایسی دی گئی ہیں جو مجھ سے پہلے کسی کو نہیں دی گئیں ، مہینے بھر کی راہ تک میری مدد رعب سے کی گئی ہے ، میرے لئے ساری زمین مسجد اور پاک کرنے والی بنائی گئی ہے میرے جس امتی کو جہاں نماز کا وقت آ جائے وہ وہیں پڑھ لے اس کی مسجد اور اس کا وضو وہیں اس کے پاس موجود ہے ، میرے لئے غنیمت کے مال حلال کیے گئے جو مجھ سے پہلے کسی کے لئے حلال نہ تھے ، مجھے شفاعت دی گئی تمام انبیاء صرف اپنی قوم کی طرف بھیجے جاتے رہے لیکن میں تمام دنیا کی طرف بھیجا گیا اور صحیح مسلم کے حوالے سے وہ حدیث بھی پہلے گزر چکی ہے کہ تمام لوگوں پر ہمیں تین فضیلتیں عنایت کی گئی ہماری صفیں فرشتوں کی صفوں کی طرح بنائی گئیں ہمارے لئے زمین مسجد بنائی گئی اور اپنے ہاتھ پر مسح کر ۔ پانی نہ ملنے کے وقت اللہ معاف کرنے والا اور بخشنے والا ہے اس کی عفو و در گزر شان ہے کہ اس نے تمہارے لئے پانی نہ ملنے کے وقت تیمم کو مشروع کر کے نماز ادا کرنے کی اجازت مرحمت فرمائی اگر یہ رخصت نہ ہوتی تو تم ایک گونہ مشکل میں پڑ جاتے کیونکہ اس آیت کریمہ میں نماز کوناقص حالت میں ادا کرنا منع کیا گیا ہے مثلاً نشے کی حالات میں ہو یا جنابت کی حالت میں ہو یا بےوضو ہو تو جب تک اپنی باتیں خود سمجھنے جتنا ہوش اور باقاعدہ غسل اور شرعی طریق پر وضو نہ ہو نماز نہیں پڑھ سکتے لیکن بیماری کی حالت میں اور پانی نہ ملنے کی صورت میں غسل اور وضو کے قائم مقام تیمم کر دیا ، پس اللہ تعالیٰ اس احسان پر ہم اس کے شکر گزار ہیں الحمدا للہ ۔ تیمم کی رخصت نازل ہونے کا واقعہ بھی سن لیجئے ہم اس واقعہ کو سورۃ نساء کی اس آیت کی تفسیر میں اسی لئے بیان کرتے ہیں کہ سورۃ مائدہ میں جو تیمم کی آیت ہے وہ نازل ہوئی یہ اس کے بعد کی ہے اس کی دلیل یہ ہے کہ یہ واضح ہے کہ یہ آیت شراب کی حرمت سے پہلے نازل ہوئی تھی اور شراب جنگ احد کے کچھ عرصہ کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بنو نصیر کے یہودیوں کا محاصرہ کئے ہوئے تھے حرام ہوئی اور سورۃ مائدہ قرآن میں نازل ہونے والی آخری سورتوں میں سے ہے بالخصوص اس سورت کا ابتدائی حصہ لہذا مناسب یہی ہے کہ تیمم کا شان نزول یہیں بیان کیا جائے ۔ اللہ نیک توفیق دے اسی کا بھروسہ ہے ۔ مسند احمد میں ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے حضرت اسماء رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے ایک ہار مل گیا لیکن نماز کا وقت اس کی تلاش میں فوت ہو گیا اور ان کے ساتھ پانی نہ تھا ۔ انہوں نے بےوضو نماز ادا کی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس پہنچ کر اس کی شکایت کی اس پر تیمم کا حکم نازل ہوا ، حضرت اسید بن حضیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہنے لگے اے ام المومنین عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا آپ کو جزائے خیر دے اللہ کی قسم جو تکلیف آپ کو پہنچتی ہے اس کا انجام ہم مسلمانوں کے لئے خیر ہی خیر ہوتا ہے ۔ بخاری میں ہے حضرت صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں ہم اپنے کسی سفر میں تھے بیداء میں یا ذات الجیش میں میرا ہار ٹوٹ کر کہیں گر پڑا جس کے ڈھونڈنے کے لئے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مع قافلہ ٹھہر گئے اب نہ تو ہمارے پاس پانی تھا نہ وہاں میدان میں کہیں پانی تھا لوگ میرے والد حضرت ابو بکر صدیق صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس میری شکایتیں کرنے لگے کہ دیکھو ہم ان کی وجہ سے کیسی مصیبت میں پڑ گئے چنانچہ میرے والد صاحب میرے پاس آئے اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میری ران پر اپنا سر مبارک رکھ کر سو گئے تھے آتے ہی مجھے کہنے لگے تو نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اور لوگوں کو روک دیا اب نہ تو ان کے پاس پانی ہے نہ یہاں اور کہیں پانی نظر آتا ہے الغرض مجھے خوب ڈانٹا ڈپٹا اور اللہ جانے کیا کیا کہا اور میرے پہلو میں اپنے ہاتھ سے کچو کے بھی مارتے رہے لیکن میں نے ذرا سی بھی جنبش نہ کی کہ ایسا نہ ہو کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آرام میں خلل واقع ہو ساری رات گزر گئی صبح کو لوگ جاگے لیکن پانی نہ تھا اللہ نے تیمم کی آیت نازل فرمائی اور سب نے تیمم کیا حضرت اسید بن حضیر رضی اللہ تعالیٰ عنہا کہنے لگے اے ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے گھرانے والو یہ کچھ تمہاری پہلی ہی برکت نہیں ، اب جب ہم نے اس اونٹ کو اٹھایا جس پر یہ سوار تھی تو اس کے نیچے سے ہی ہار مل گیا ۔ مسند احمد میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی اہلیہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ہمراہ ذات الجیش سے گزرے ۔ ام المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا یمنی خر مہروں کا ہار ٹوٹ کر کہیں گر پڑا تھا اور گم ہو گیا تھا اس کی تلاش میں یہاں ٹھہر گئے ساری رات آپ کے ہم سفر مسلمانوں نے اور آپ نے یہیں گزاری صبح اٹھے تو پانی بالکل نہی تھا پس اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی پر پاک مٹی سے تیمم کرکے پاکی حاصل کرنے کی رخصت کی آیت اتاریاور مسلمانوں نے حضور کے ساتھ کھڑے ہوکر زمین پر اپنے ہاتھ مارے اور جو مٹی ان سے لت پت ہوئی اسے جھاڑے بغیر اپنے چہرے پر اور اپنے ہاتھوں پر مونڈھوں تک اور ہاتھوں کے نیچے سے بغل تک مل لی ۔ ابن جریر کی روایت میں ہے کہ اس سے پہلے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا پر سخت غصہ ہو کر گئے تھے لیکن تیمم کی رخصت کے حکم کو سن کر خوشی خوشی اپنی صاحبزادی صاحبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس آئے اور کہنے لگے تم بڑی مبارک ہو مسلمانوں کو اتنی بڑی رخصت ملی پھر مسلمانوں نے زمین پر ایک ضرب سے چہرے ملے اور دوسری ضرب سے کہنیوں اور بغلوں تک ہاتھ لے گئے ابن مردویہ میں روایت ہے حضرت اسلع بن شریک رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتے ہیں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اونٹنی کو چلا رہا تھا ۔ جس پر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سوار تھے جاڑوں کا موسم تھا رات کا وقت تھا سخت سردی پڑ رہی تھی اور میں جنبی ہو گیا ادھر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کوچ کا ارادہ کیا تو میں نے اپنی اس حالت میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اونٹنی کو چلانا پسند نہ کیا ساتھ ہی یہ بھی خیال آیا کہ اگر سرد پانی سے نہاؤں گا تو مرجاؤں گا یا بیمار پڑ جاؤں گا تو میں نے چپکے سے ایک انصاری کو کہا کہ آپ اونٹنی کی نکیل تھام لیجئے چنانچہ وہ چلاتے رہے اور میں نے آگ سلگا کر پانی گرم کر کے غسل کیا پھر دوڑ بھاگ کر قافلہ میں پہنچ گیا آپ نے مجھے فرمایا اسلع کیا بات ہے؟ اونٹنی کی چال کیسے بگڑی ہوئی ہے؟ میں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں اسے نہیں چلا رہا تھا بلکہ فلاں انصاری صاحب چلا رہے تھے آپ نے فرمایا یہ کیوں؟ تو میں نے سارا واقعہ کہہ سنایا اس پر اللہ عزوجل نے ( يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقْرَبُوا الصَّلٰوةَ وَاَنْتُمْ سُكٰرٰى حَتّٰى تَعْلَمُوْا مَا تَقُوْلُوْنَ وَلَا جُنُبًا اِلَّا عَابِرِيْ سَبِيْلٍ حَتّٰى تَغْتَسِلُوْا ۭ وَاِنْ كُنْتُمْ مَّرْضٰٓى اَوْ عَلٰي سَفَرٍ اَوْ جَاۗءَ اَحَدٌ مِّنْكُمْ مِّنَ الْغَاۗىِٕطِ اَوْ لٰمَسْتُمُ النِّسَاۗءَ فَلَمْ تَجِدُوْا مَاۗءً فَتَيَمَّمُوْا صَعِيْدًا طَيِّبًا فَامْسَحُوْا بِوُجُوْهِكُمْ وَاَيْدِيْكُمْ ۭ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَفُوًّا غَفُوْرًا ) 4 ۔ النسآء:43 ) تک نازل فرمائی یہ روایت دوسری سند سے بھی مروی ہے ۔