Surah

Information

Surah # 71 | Verses: 28 | Ruku: 2 | Sajdah: 0 | Chronological # 71 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD)
اِنَّاۤ اَرۡسَلۡنَا نُوۡحًا اِلٰى قَوۡمِهٖۤ اَنۡ اَنۡذِرۡ قَوۡمَكَ مِنۡ قَبۡلِ اَنۡ يَّاۡتِيَهُمۡ عَذَابٌ اَلِيۡمٌ‏ ﴿1﴾
یقیناً ہم نے نوح ( علیہ السلام ) کو ان کی قوم کی طرف بھیجا کہ اپنی قوم کو ڈرا دو ( اور خبردار کردو ) اس سے پہلے کہ ان کے پاس دردناک عذاب آجائے ۔
انا ارسلنا نوحا الى قومه ان انذر قومك من قبل ان ياتيهم عذاب اليم
Indeed, We sent Noah to his people, [saying], "Warn your people before there comes to them a painful punishment."
Yaqeenan hum ney Nooh ( alh e salam ) ko inki qom ki taraf bheja kay apni qom ko darado ( aur khabaerdar kerdo ) isss say pehlay kay inkay pass dardnak azab ajaye
ہم نے نوح کو ان کی قوم کے پاس بھیجا کہ اپنی قوم کو خبردار کرو ، قبل اس کے کہ ان پر کوئی دردناک عذاب آکھڑا ہو ۔ ( ١ )
بیشک ہم نے نوح کو اس کی قوم کی طرف بھیجا کہ ان کو ڈرا اس سے پہلے کہ ان پر دردناک عذاب آئے ( ف۲ )
ہم نے نوح ( علیہ السلام ) کو اس کی قوم کی طرف بھیجا ﴿اس ہدایت کے ساتھ﴾ کہ اپنی قوم کے لوگوں کو خبردارکر دے قبل اس کے کہ ان پر ایک دردناک عذاب آئے1 ۔
بے شک ہم نے نوح ( علیہ السلام ) کو ان کی قوم کی طرف بھیجا کہ آپ اپنی قوم کو ڈرائیں قبل اس کے کہ اُنہیں دردناک عذاب آپہنچے
سورة نُوْح حاشیہ نمبر :1 یعنی ان کو اس بات سے آگاہ کر دے کہ جن گمراہیوں اور اخلاقی خرابیوں میں وہ مبتلا ہیں وہ ان کو خدا کے عذاب کا مستحق بنا دیں گی اگر وہ ان سے باز نہ آئے ، اور ان کو بتا دے کہ اس عذاب سے بچنے کے لیے انہیں کون سا راستہ اختیار کرنا چاہیے ۔
عذاب سے پہلے نوح علیہ السلام کا قوم سے خطاب اللہ تعالیٰ بیان فرماتا ہے کہ اس نے حضرت نوح علیہ السلام کو ان کی قوم کی طرف اپنا رسول صلی اللہ علیہ وسلم بنا کر بھیجا اور حکم دیا کہ عذاب کے آنے سے پہلے اپنی قوم کو ہوشیار کر دو اگر وہ توبہ کرلیں گے اور اللہ کی طرف جھکنے لگیں گے تو اللہ کا عذاب ان سے اٹھ جائے گا ، حضرت نوح علیہ السلام نے اللہ کا پیغام اپنی امت کو پہنچا دیا اور صاف کہہ دیا کہ دیکھو میں کھلے لفظوں میں تمہیں آگاہ کئے دیتا ہوں ، میں صاف صاف کہہ رہا ہوں کہ اللہ کی عبادت اس کا ڈر اور میری اطاعت لازمی چیزیں ہیں جو کام رب نے تم پر حرام کئے ہیں ان سے بچو گناہ کے کاموں سے الگ تھلگ رہو جو میں کہوں بجا لاؤ جس سے روکوں رک جاؤ میری رسالت کی تصدیق کرو تو اللہ تمہاری خطاؤں سے درگزر فرمائے گا ، آیت ( يَغْفِرْ لَكُمْ مِّنْ ذُنُوْبِكُمْ وَيُؤَخِّرْكُمْ اِلٰٓى اَجَلٍ مُّسَمًّى ۭ اِنَّ اَجَلَ اللّٰهِ اِذَا جَاۗءَ لَا يُؤَخَّرُ ۘ لَوْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ Ć۝ ) 71-نوح:4 ) میں لفظ ( من ) یہاں زائد ہے ، اثبات کے موقعہ پر بھی کبھی لفظ ( من ) زائد آ جاتا ہے جیسے عرب کے مقولے ( قد کان من مطر ) میں اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ معنی میں عن کے ہو بلکہ ابن جریر تو اسی کو پسند فرماتے ہیں اور یہ قول بھی ہے کہ من تبعیض کے لئے ہے یعنی تمہارے کچھ گناہ معاف فرما دے گا یعنی وہ گناہ جن پر سزا کا وعدہ ہے اور وہ بڑے بڑے گناہ ہیں ، اگر تم نے یہ تینوں کام کئے تو وہ معاف ہو جائیں گے اور جس عذاب کے ذریعے وہ تمہیں اب تمہاری ان خطاؤں اور غلط کاریوں کی وجہ سے برباد کرنے والا ہے اس عذاب کو ہٹا دے گا اور تمہاری عمریں بڑھا دے گا ، اس آیت سے یہ استدلال بھی کیا گیا ہے کہ اطاعت اللہ اور نیک سلوک اور صلہ رحمی سے حقیقتاً عمر بڑھ جاتی ہے ، حدیث میں یہ بھی ہے کہ صلہ رحمی عمر بڑھاتی ہے ۔ پھر ارشاد ہوتا ہے کہ نیک اعمال اس سے پہلے کر لو کہ اللہ کا عذاب آ جائے اس لئے جب وہ آ جاتا ہے پھر نہ اسے کوئی ہٹا سکتا ہے نہ روک سکتا ہے ، اس بڑے کی بڑائی نے ہر چیز کو پست کر رکھا ہے اس کی عزت و عظمت کے سامنے تمام مخلوق پست ہے ۔