And indeed, every time I invited them that You may forgive them, they put their fingers in their ears, covered themselves with their garments, persisted, and were arrogant with [great] arrogance.
اور میں نے جتنی بار انہیں بلایا ( ف۱۲ ) کہ تو ان کو بخشے انہوں نے اپنے کانوں میں انگلیاں دے لیں ( ف۱۳ ) اور اپنے کپڑے اوڑھ لیے ( ف۱٤ ) اور ہٹ کی ( ف۱۵ ) اور بڑا غرور کیا ( ف۱٦ )
اور جب بھی میں نے ان کو بلایا تاکہ تو انہیں معاف کر دے9 ، انہوں نے کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیں اور اپنے کپڑوں سے منہ ڈھانک لیے10 اور اپنی روش پر اڑ گئے اور بڑا تکبر کیا11 ۔
اور میں نے جب ( بھی ) اُنہیں ( ایمان کی طرف ) بلایا تاکہ تو انہیں بخش دے تو انہوں نے اپنی انگلیاں اپنے کانوں میں دے لیں اور اپنے اوپر اپنے کپڑے لپیٹ لئے اور ( کفر پر ) ہٹ دھرمی کی اور شدید تکبر کیا
سورة نُوْح حاشیہ نمبر :9
اس میں خود بخود یہ مضمون شامل ہے کہ وہ نافرمانی کی روش چھوڑ کر معافی کے طلب گار ہوں ، کیونکہ اسی صورت میں ان کو اللہ تعالی سے معافی مل سکتی تھی ۔
سورة نُوْح حاشیہ نمبر :10
منہ ڈھانکنے کی غرض یا تو یہ تھی کہ وہ حضرت نوح علیہ السلام کی بات سننا تو درکنار ، آپ کی شکل بھی دیکھنا پسند نہ کرتے تھے ، یا پھر یہ حرکت وہ اس لیے کرتے تھے کہ آپ کے سامنے سے گزرتے ہوئے منہ چھپا کر نکل جائیں اور اس کی نوبت ہی نہ آنے دیں کہ آپ انہیں پہچان کر ان سے بات کرنے لگیں ۔ یہ ٹھیک وہی طرز عمل تھا جو کفار مکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اختیار کر رہے تھے ۔ سورہ ہود آیت 5 میں ان کے اس رویے کا ذکر اس طرح کیا گیا ہے ۔ دیکھو یہ لوگ اپنے سینوں کو موڑتے ہیں تاکہ رسول سے چھپ جائیں ۔ خبردار جب یہ اپنے آپ کو کپڑوں سے ڈھانکتے ہیں تو اللہ ان کے کھلے کو بھی جانتا ہے اور چھپے کو بھی ، وہ تو دلوں کی پوشیدہ باتوں سے بھی واقف ہے ۔ ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد دوم ، ہود ، حواشی 5 ۔ 6 ) ۔
سورة نُوْح حاشیہ نمبر :11
تکبر سے مراد یہ ہے کہ انہوں نے حق کے آگے سر جھکا دینے اور خدا کے رسول کی نصیحت قبول کر لینے کو اپنی شان سے گری ہوئی بات سمجھا ۔ مثال کے طور پر اگر کوئی بھلا آدمی کسی بگڑے ہوئے شخص کو نصیحت کرے اور وہ جواب میں سر جھٹک کر اٹھ کھڑا ہو اور پاؤں پٹختا ہوا نکل جائے تو یہ تکبر کے ساتھ کلام نصیحت کو رد کرنا ہو گا ۔