Surah

Information

Surah # 71 | Verses: 28 | Ruku: 2 | Sajdah: 0 | Chronological # 71 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD)
وَّيُمۡدِدۡكُمۡ بِاَمۡوَالٍ وَّبَنِيۡنَ وَيَجۡعَلۡ لَّـكُمۡ جَنّٰتٍ وَّيَجۡعَلۡ لَّـكُمۡ اَنۡهٰرًا ؕ‏ ﴿12﴾
اور تمہیں خوب پے درپے مال اور اولاد میں ترقی دے گا اور تمہیں باغات دے گا اور تمہارے لئے نہریں نکال دے گا ۔
و يمددكم باموال و بنين و يجعل لكم جنت و يجعل لكم انهرا
And give you increase in wealth and children and provide for you gardens and provide for you rivers.
Aur tumhein khob pay dar pay maal aur olaad mein taraqi dega Aur tumhein baaghat dega aur tumharay liye nikaal dega
اور تمہارے مال اور اولاد میں ترقی دے گا ، اور تمہارے لیے باغات پیدا کرے گا ، اور تمہاری خاطر نہریں مہیا کردے گا ۔
اور مال اور بیٹوں سے تمہاری مدد کرے گا ( ف۲۲ ) اور تمہارے لیے باغ بنادے گا اور تمہارے لیے نہریں بنائے گا ( ف۲۳ )
تمہیں مال اور اولاد سے نوازے گا ، تمہارے لیے باغ پیدا کرے گا اور تمہارے لیے نہریں جاری کردے گا12 ۔
اور تمہاری مدد اَموال اور اولاد کے ذریعے فرمائے گا اور تمہارے لئے باغات اُگائے گا اور تمہارے لئے نہریں جاری کر دے گا
سورة نُوْح حاشیہ نمبر :12 یہ بات قرآن مجید میں متعدد مقامات پر بیان کی گئی ہے کہ خدا سے بغاوت کی روش صرف آخرت ہی میں نہیں ، دنیا میں بھی انسان کی زندگی کو تنگ کر دیتی ہے ، اور اس کے برعکس اگر کوئی قوم نافرمانی کے بجائے ایمان و تقوی اور احکام الہی کی اطاعت کا طریقہ اختیار کر لے تو یہ آخرت ہی میں نافع نہیں ہے بلکہ دنیا میں بھی اس پر نعمتوں کی بارش ہونے لگتی ہے ۔ سورہ طٰہٰ میں ارشاد ہوا ہے اور جو میرے ذکر سے منہ موڑے گا اس کے لیے دنیا میں تنگ زندگی ہو گی اور قیامت کے روز ہم اسے اندھا اٹھائیں گے ۔ ( آیت 124 ) ۔ سورۃ مائدہ میں فرمایا گیا ہے اور اگر ان اہل کتاب نے توراۃ اور انجیل اور ان دوسری کتابوں کو قائم کیا ہوتا جو ان کے رب کی طرف سے ان کے پاس بھیجی گئی تھیں تو ان کے لیے اوپر سے رزق برستا اور نیچے سے ابلتا ( آیت 66 ) سورہ اعراف میں فرمایا اور اگر بستیوں کے لوگ ایمان لاتے اور تقوی کی روش اختیار کرتے ہم ان پر آسمان اور زمین سے برکتوں کے دروازے کھول دیتے ۔ ( آیت 96 ) ۔ سورہ ہود میں ہے کہ حضرت ہود علیہ السلام نے اپنی قوم کو خطاب کر کے فرمایا اور اے میری قوم کے لوگو ، اپنے رب سے معافی چاہو ، پھر اس کی طرف پلٹو ، وہ تم پر آسمان سے خوب بارشیں برسائے گا اور تمہاری موجدہ قوت پر مزید قوت کا اضافہ کرے گا ( آیت 52 ) ۔ خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ سے بھی اسی سورہ میں اہل مکہ کو مخاطب کر کے یہ بات فرمائی گئی اور یہ کہ اپنے رب سے معافی چاہو ، پھر اس کی طرف پلٹ آؤ تو وہ ایک مقرر وقت تک تم کو اچھا سامان زندگی دے گا ۔ ( آیت 3 ) ۔ حدیث میں آتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش کے لوگوں سے فرمایا کہ ایک کلمہ ہے جس کے تم قائل ہو جاؤ تو عرب و عجم کے فرمانروا ہو جاؤ گے ۔ تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد اول ، المائدہ ، حاشیہ 96 ۔ جلد دوم ، حواشی 3 ، 57 ۔ جلد سوم ، طٰہٰ ، حاشیہ 105 ۔ جلد چہارم ۔ دیباچہ سورہ ص ) ۔ قرآن مجید کی اسی ہدایت پر عمل کرتے ہوئے ایک مرتبہ قحط کے موقع پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ بارش کی دعا کرنے کے لیے نکلے اور صرف استغفار پر اکتفا فرمایا ۔ لوگوں نے عرض کیا ، امیر المومنین آپ نے بارش کے لیے تو دعا کی ہی نہیں ۔ فرمایا ، میں نے آسمان کے ان دروازوں کو کھٹکھٹا دیا ہے جہاں سے بارش نازل ہوتی ہے ، اور پھر سورۃ نوح کی یہ آیات لوگوں کو پڑھ کر سنا دیں ( ابن جریر و ابن کثیر ) ۔ اسی طرح ایک مرتبہ حضرت حسن بصری کی مجلس میں ایک شخص نے خشک سالی کی شکایت کی ۔ انہوں نے کہا کہ اللہ سے استغفار کرو ۔ دوسرے شخص نے تنگ دستی کی شکایت کی ، تیسرے نے کہا میرے ہاں اولاد نہیں ہوتی ، چوتھے نے کہا میری زمین کی پیداوار کم ہو رہی ہے ۔ ہر ایک کو وہ یہی جواب دیتے چلے گئے کہ استغفار کرو ۔ لوگوں نے کہا یہ کیا معاملہ ہے کہ آپ سب کو مختلف شکایتوں کا ایک ہی علاج بتا رہے ہیں؟ انہوں نے جواب میں سورہ نوح کی یہ آیات سنا دیں ( کشاف ) ۔