Surah

Information

Surah # 72 | Verses: 28 | Ruku: 2 | Sajdah: 0 | Chronological # 40 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD)
قُلۡ اُوۡحِىَ اِلَىَّ اَنَّهُ اسۡتَمَعَ نَفَرٌ مِّنَ الۡجِنِّ فَقَالُوۡۤا اِنَّا سَمِعۡنَا قُرۡاٰنًاعَجَبًا ۙ‏ ﴿1﴾
۔ ( اے محمد ﷺ ) آپ کہہ دیں کہ مجھے وحی کی گئی ہے کہ جنوں کی ایک جماعت نے ( قرآن ) سنا اور کہا کہ ہم نے عجیب قرآن سنا ہے ۔
قل اوحي الي انه استمع نفر من الجن فقالوا انا سمعنا قرانا عجبا
Say, [O Muhammad], "It has been revealed to me that a group of the jinn listened and said, 'Indeed, we have heard an amazing Qur'an.
( Aey Muhammad ( P.B.U.H ) ) aap keh dein kay mujhy wahi ki gai hay kay jinno ki ik jamat ney ( quran ) suna or kaha kay hum ney ajeeb quarn suna hay
۔ ( اے پیغمبر ) کہہ دو : میرے پاس وحی آئی ہے کہ جنات کی ایک جماعت نے ( قرآن ) غور سے سنا ، اور ( اپنی قوم سے جاکر ) کہا کہ : ہم نے ایک عجیب قرآن سنا ہے ۔
تم فرماؤ ( ف۲ ) مجھے وحی ہوئی کہ کچھ جنوں نے ( ف۳ ) میرا پڑھنا کان لگا کر سنا ( ف٤ ) تو بولے ( ف۵ ) ہم نے ایک عجیب قرآن سنا ( ف٦ )
اے نبی ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ، کہو ، میری طرف وحی بھیجی گئی ہے کہ جنوں کے ایک گروہ نے غور سے سنا1 پھر ﴿جا کر اپنی قوم کے لوگوں سے ﴾ کہا: ” ہم نے ایک بڑا ہی عجیب قرآن سنا ہے2
آپ فرما دیں: میری طرف وحی کی گئی ہے کہ جنات کی ایک جماعت نے ( میری تلاوت کو ) غور سے سنا ، تو ( جا کر اپنی قوم سے ) کہنے لگے: بیشک ہم نے ایک عجیب قرآن سنا ہے
سورة الْجِنّ حاشیہ نمبر :1 اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جن اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نظر نہیں آ رہے تھے اور آپ کو یہ معلوم نہ تھا کہ وہ قرآن سن رہے ہیں ، بلکہ بعد میں وحی کے ذریعہ سے اللہ تعالی نے آپ کو اس واقعہ کی خبر دی ۔ حضرت عبداللہ بن عباس بھی اس قصے کو بیان کرتے ہوئے صراحت فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنوں کے سامنے قرآن نہیں پڑھا تھا ، نہ آپ نے ان کو دیکھا تھا ۔ ( مسلم ۔ ترمذی ۔ مسند احمد ۔ ابن جریر ) ۔ سورة الْجِنّ حاشیہ نمبر :2 اصل الفاظ ہیں قرانا عجبا ۔ قرآن کے معنی ہیں پڑھی جانے والی چیز اور یہ لفظ غالباً جنوں نے اسی معنی میں استعمال کیا ہو گا کیونکہ وہ پہلی مرتبہ اس کلام سے متعارف ہوئے تھے اور شاید اس وقت ان کو یہ معلوم نہ ہو گا کہ جو چیز وہ سن رہے ہیں ان کا نام قرآن ہی ہے ۔ عجب مبالغہ کا صیغہ ہے اور یہ لفظ عربی زبان میں بہت زیادہ حیرت انگیز چیز کے لیے بولا جاتا ہے ۔ پس جنوں کے قول کا مطلب یہ ہے کہ ہم ایک ایسا کلام سن کر آئے ہیں جو اپنی زبان اور اپنے مضامین کے اعتبار سے بے نظیر ہے ۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جن نہ صرف یہ کہ انسانوں کی باتیں سنتے ہیں بلکہ ان کی زبان بھی بخوبی سمجھتے ہیں ۔ اگرچہ یہ ضروری نہیں ہے کہ تمام جن انسانی زبانیں جانتے ہوں ۔ ممکن ہے کہ ان میں سے جو گروہ زمین کے جس علاقے میں رہتے ہوں اسی علاقے کے لوگوں کی زبان سے وہ واقف ہوں ۔ لیکن قرآن کے اس بیان سے بہرحال یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ جنہوں نے اس وقت قرآن سنا تھا وہ عربی زبان اچھی جانتے تھے کہ انہوں نے اس کلام کی بے مثل بلاغت کو بھی محسوس کیا اور اس کے بلند پایہ مضامین کو بھی خوب سمجھ لیا ۔
جنات پر قرآن حکیم کا اثر اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے رسول حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم سے فرماتا ہے کہ اپنی قوم کو اس واقعہ کی اطلاع دو کہ جنوں نے قرآن کریم سنا اسے سچا مانا اس پر ایمان لائے اور اس کے مطیع بن گئے ، فرماتا ہے کہ اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تم کہو میری طرف وحی کی گئی کہ جنوں کی ایک جماعت نے قرآن کریم سنا اور اپنی قوم میں جا کر خبر دی کہ آج ہم نے عجیب و غریب کتاب سنی جو سچا اور نجات کا راستہ بتاتی ہے ہم تو اسے مان چکے ناممکن ہے کہ اب ہم اللہ کے ساتھ کسی اور کی عبادت کریں ۔ یہی مضمون آیتوں میں گذر چکا ہے آیت ( واذ صرفنا الیک الخ ، یعنی جبکہ ہم نے جنوں کی ایک جماعت کو تیری طرف لوٹایا کہ وہ قرآں سنیں اور اس کی تفسیر احادیث سے وہیں ہم بیان کر چکے ہیں یہاں لوٹانے کی ضرورت نہیں ، پھر یہ جنات اپنی قوم سے فرماتے ہیں کہ ہم رب کے کام قدرت والے اس کے احکام بہت بلند و بالا ، بڑا ذیشان اور ذی عزت ہے ، اس کی نعمتیں ، قدرتیں اور مخلوق پر مہربانیاں بہت باوقعت ہیں اس کی جلالت و عظمت بلند پایہ ہے اس کا جلال و اکرام بڑھا چڑھا ہے اس کا ذکر بلند رتبہ ہے اس کی شان اعلیٰ ہے ، ایک روایت میں حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ ( جد ) کہتے ہیں باپ کو ۔ اگر جنات کو یہ علم ہوتا کہ انسانوں میں جد ہوتا ہے تو وہ اللہ کی نسبت یہ لفظ نہ کہتے ، یہ قول گو سنداً قوی ہے لیکن کلام بنتا نہیں اور کوئی مطلب سمجھ میں نہیں آتا ممکن ہے اس میں کچھ کلام چھوٹ گیا ہو واللہ اعلم ، پھر اپنی قوم سے کہتے ہیں کہ اللہ اس سے پاک اور برتر ہے کہ اس کی بیوی ہو یا اس کی اولاد ہو ، پھر کہتے ہیں کہ ہمارا بیوقوف یعنی شیطان اللہ پر جھوٹ تہمت رکھتا ہے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ مراد اس سے عام ہو یعنی جو شخص اللہ کی اولاد اور بیوی ثابت کرتا ہے بےعقل ہے ، جھوٹ بکتا ہے ، باطل عقیدہ رکھتا ہے اور ظالمانہ بات منہ سے نکالتا ہے ، پھر فرماتے ہیں کہ ہم تو اسی خیال میں تھے کہ جن وانس اللہ پر جھوٹ نہیں باندھ سکتے لیکن قرآن سن کر معلوم ہوا کہ یہ دونوں جماعتیں رب العالمین پر تہمت رکھتی تھیں دراصل اللہ کی ذات اس عیب سے پاک ہے ، پھر کہتے ہیں کہ جنات کے زیادہ بہکنے کا سبب یہ ہوا کہ وہ دیکھتے تھے کہ انسان جب کبھی کسی جنگل یا ویرانے میں جاتے ہیں تو جنات کی پناہ طلب کیا کرتے ہیں ، جیسے کہ جاہلیت کے زمانہ کے عرب کی عادت تھی کہ جب کبھی کسی پڑاؤ پر اترتے تو کہتے کہ اس جنگل کے بڑے جن کی پناہ میں ہم آتے ہیں اور سمجھتے تھے کہ ایسا کہہ لینے کے بعد تمام جنات کے شر سے ہم محفوظ ہو جاتے ہیں جس طرح کسی شہر میں جاتے تو وہاں کے بڑے رئیس کی پناہ لے لیتے تاکہ شہر کے اور دشمن لوگ انہیں ایذاء نہ پہنچائیں ، جنوں نے جب یہ دیکھا کہ انسان بھی ہماری پناہ لیتے ہیں تو ان کی سرکشی اور بڑھ گئی اور انہوں نے اور بری طرح انسانوں کو ستانا شروع کیا اور یہ بھی مطلب ہو سکتا ہے کہ جنات نے یہ حالت دیکھ کر انسانوں کو اور خوف زدہ کرنا شروع کیا اور انہیں طرح طرح سے ستانے لگے ۔ دراصل جنات انسانوں سے ڈرا کرتے تھے جیسے کہ انسان جنوں سے بلکہ اس سے بھی زیادہ یہاں تک کہ جس جنگل بیابان میں انسان جا پہنچتا تھا وہاں سے جنات بھاگ کھڑے ہوتے تھے لیکن جب سے اہل شرک نے خود ان سے پناہ مانگنی شروع کی اور کہنے لگے کہ اس وادی کے سردار جن کی پناہ میں ہم آتے ہیں اس سے کہ ہمیں ہماری اولاد و مال کو کوئی ضرر نہ پہنچے اب جنوں نے سمجھا کہ یہ تو خود ہم سے ڈرتے ہیں تو ان کی جرات بڑھ گئی اور اب طرح طرح سے ڈرانا ستانا اور چھیڑنا انہوں نے شروع کیا ، وہ گناہ ، خوف ، طغیانی اور سرکشی میں اور بڑھ گئے ۔ کردم بن ابو سائب انصاری کہتے ہیں میں اپنے والد کے ہمراہ مدینہ سے کسی کام کے لئے باہر نکلا اس وقت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ہو چکی تھی اور مکہ شریف میں آپ بحیثیت پیغمبر ظاہر ہو چکے تھے رات کے وقت ہم ایک چرواہے کے پاس جنگل میں ٹھہر گئے آدھی رات کے وقت ایک بھیڑیا آیا اور بکری اٹھا کر لے بھاگا ، چرواہا اس کے پیچھے دوڑا اور پکار کر کہنے لگا اے اس جنگل کے آباد رکھنے والے تیری پناہ میں آیا ہوا ایک شخص لٹ گیا ساتھ ہی ایک آواز آئی حالانکہ کوئی شخص نظر نہ آتا تھا کہ اے بھیڑیئے اس بکری کو چھوڑ دے تھوڑی دیر میں ہم نے دیکھا کہ وہی بکری بھاگی بھاگی آئی اور ریوڑ میں مل گئی اسے زخم بھی نہیں لگا تھا یہی بیان اس آیت میں ہے جو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر مکہ میں اتری کہ بعض لوگ جنات کی پناہ مانگا کرتے تھے ، ممکن ہے کہ یہ بھیڑیا بن کر آنے والا بھی جن ہی ہو اور بکری کے بچے کو پکڑ کر لے گیا ہو اور چرواہے کی اس وہائی پر چھوڑ دیا ہو تاکہ چرواہے کو اور پھر اس کی بات سن کر اوروں کو اس بات کا یقین کامل ہو جائے کہ جنات کی پناہ میں آ جانے سے نقصانات سے محفوظ رہتے ہیں اور پھر اس عقیدے کے باعث وہ اور گمراہ ہوں اور اللہ کے دین سے خارج ہو جائیں واللہ اعلم ۔ یہ مسلمان جن اپنی قوم سے کہتے ہیں کہ اے جنو جس طرح تمہارا گمان تھا اسی طرح انسان بھی اسی خیال میں تھے کہ اب اللہ تعالیٰ کسی رسول کو نہ بھیجے گا ۔