Surah

Information

Surah # 73 | Verses: 20 | Ruku: 2 | Sajdah: 0 | Chronological # 3 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Early Makkah phase (610 - 618 AD). Except 10, 11 and 20, from Madina
بِسۡمِ اللهِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِيۡمِ
شروع کرتا ہوں اللہ تعا لٰی کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے ۔
بسم الله الرحمن الرحيم
In the name of Allah , the Entirely Merciful, the Especially Merciful.
Shuroo Allah kay naam say jo bara meharban nehayat reham kerney wala hai
شروع اللہ کے نام سے جو سب پر مہربان ہے ، بہت مہربان ہے
اللہ کے نام سے شروع جو نہایت مہربان رحم والا
اللہ کے نام سے جو رحمان و رحیم ہے ۔
اللہ کے نام سے شروع جو نہایت مہربان ہمیشہ رحم فرمانے والا ہے ۔
سورة الْمُزَّمِّل نام : پہلی ہی آیت کے لفظ المزمل کو اس سورت کا نام قرار دیا گیا ہے ۔ یہ صرف نام ہے ، اس کے مضامین کا عنوان نہیں ہے ۔ زمانۂ نزول : اس سورت کے دو رکوع الگ زمانوں میں نازل ہوئے ہیں ۔ پہلا رکوع بالاتفاق مکی ہے ۔ اس کے مضامین اور احادیث کی روایات دونوں سے یہی بات معلوم ہوتی ہے ۔ رہا یہ سوال کہ یہ مکی زندگی کے کس دور میں نازل ہوا ہے ، اس کا جواب روایات سے تو نہیں ملتا ، لیکن اس رکوع کے مضامین کی داخلی شہادت اس کا زمانہ متعین کرنے میں بڑی مدد دیتی ہے: اولاً ، اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہدایت فرمائی گئی ہے کہ آپ راتوں کو اٹھ کر اللہ کی عبادت کیا کریں تاکہ آپ کے اندر نبوت کے بار عظیم کو اٹھانے اور اس کی ذمہ داریاں ادا کرنے کی قوت پیدا ہو ۔ اس سے معلوم ہوا کہ یہ حکم حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی نبوت کے ابتدائی دور ہی میں نازل ہوا ہوگا جبکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس منصب کے لیے آپ کی تربیت کی جا رہی تھی ۔ ثانیاً ، اس میں حکم دیا گیا ہے کہ نماز تہجد میں آدھی آدھی رات یا اس سے کچھ کم و بیش قرآن مجید کی تلاوت کی جائے ۔ یہ ارشاد خود بخود اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ اس وقت قرآن مجید کا کم از کم اتناحصہ نازل ہو چکا تھا کہ اس کی طویل قرات کی جا سکے ۔ ثالثاً ، اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مخالفین کی زیادتیوں پر صبر کی تلقین کی گئی ہے اور کفار مکہ کو عذاب کی دھمکی دی گئی ہے ۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ رکوع اس زمانے میں نازل ہوا ہے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسلام کی علانیہ تبلیغ شروع کر چکے تھے اور مکہ میں آپ کی مخالفت زور پکڑ چکی تھی ۔ دوسرے رکوع کے متعلق اگرچہ بہت سے مفسرین نے یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ وہ بھی مکہ ہی میں نازل ہوا ہے ، لیکن بعض دوسرے مفسرین نے اسے مدنی قرار دیاہے ، اور اس رکوع کے مضامین سے اسی خیال کی تائید ہوتی ہے ، کیونکہ اس میں قتال فی سبیل اللہ کا ذکر ہے ، اور ظاہر ہے کہ مکہ میں اس کا کوئی سوال پیدا نہ ہوتا تھا ، اور اس میں فرض زکٰوۃ ادا کرنے کا بھی حکم دیا گیا ہے ، اور یہ بات ثابت ہے کہ زکٰوۃ ایک مخصوص شرح اور نصاب کے ساتھ مدینہ میں فرض ہوئی ہے ۔ موضوع اور مضامین : پہلی سات آیات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حکم دیا گیا ہے کہ جس کار عظیم کا بار آپ پر ڈالا گیا ہے اس کی ذمہ داریاں سنبھالنے کے لیے آپ اپنے آپ کو تیار کریں ، اور اس کی عملی صورت یہ بتائی گئی ہے کہ راتوں کو اٹھ کر آپ آدھی آدھی رات ، یا اس سے کچھ کم و بیش نماز پڑھا کریں ۔ آیت 8 سے 14 تک حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تلقین کی گئی ہے کہ سب سے کٹ کر اس خدا کے ہو رہیں جو ساری کائنات کا مالک ہے ۔ اپنے سارے معاملات اسی کے سپرد کر کے مطمئن ہو جائیں ۔ مخالفین جو باتیں آپ کے خلاف بنا رہے ہیں ان پر صبر کریں ، ان کے منہ نہ لگیں اور ان کا معاملہ خدا پر چھوڑ دیں کہ وہی ان سے نمٹ لے گا ۔ اس کے بعد آیات 15 سے 19 تک مکہ کے ان لوگوں کو جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مخالفت کر رہے تھے ، متنبہ کیا گیا ہے کہ ہم نے اسی طرح تمہاری طرف ایک رسول بھیجا ہے جس طرح فرعون کی طرف بھیجا تھا ، پھر دیکھ لو کہ جب فرعون نے اللہ کے رسول کی بات نہ مانی تو وہ کس انجام سے دوچار ہوا ۔ اگر فرض کر لو کہ دنیا میں تم پر کوئی عذاب نہ آیا تو قیامت کے روز تم کفر کی سزا سے کیسے بچ نکلو گے؟ یہ پہلے رکوع کے مضامین ہیں ۔ دوسرا رکوع حضرت سعید بن جبیر کی روایت کے مطابق اس کے دس سال بعد نازل ہوا اور اس میں نماز تہجد کے متعلق اس ابتدائی حکم کے اندر تخفیف کر دی گئی جو پہلے رکوع کے آغاز میں دیا گیا تھا ۔ اب یہ حکم دیا گیا کہ جہاں تک تہجد کی نماز کا تعلق ہے وہ تو جتنی باآسانی پڑھی جا سکے پڑھ لیا کرو لیکن مسلمانوں کو اصل اہتمام جس چیز کا کرنا چاہیے وہ یہ ہے کہ پنج وقتہ فرض نماز پوری پابندی کے ساتھ قائم رکھیں ، فریضہ زکٰوۃ ٹھیک ٹھیک ادا کرتے رہیں اور اللہ کی راہ میں اپنا مال خلوص نیت کے ساتھ صرف کریں ۔ آخر میں مسلمانوں کو تلقین کی گئی ہے کہ جو بھلائی کے کام تم انجام دو گے وہ ضائع نہیں جائیں گے بلکہ ان کی حیثیت اس سامان کی سی ہے جو ایک مسافر اپنی مستقل قیام گاہ پر پہلے سے بھیج دیتا ہے ۔ اللہ کے ہاں پہنچ کر تم وہ سب کچھ موجود پاؤ گے جو دنیا میں تم نے آگے روانہ کیا ہے ، اور یہ پیشگی سامان نہ صرف یہ کہ اس سامان سے بہت بہتر ہے جو تمہیں دنیا ہی میں چھوڑ جانا ہے ، بلکہ اللہ کے ہاں تمہیں اپنے بھیجے ہوئے اصل مال سے بڑھ کر بہت بڑا اجر بھی ملے گا ۔
مزمل کا مفہوم بزار میں حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ قریش دارالندوہ میں جمع ہو کر آپس میں کہنے لگے کہ آؤ مل کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک ایسا نام تجویز کریں کہ سب کی زبان سے وہی نکلے تاکہ باہر کے لوگ ایک ہی آواز سن کر جانیں ، تو بعض نے کہا ان کا نام کاہن رکھو اس پر اوروں نے کہا درحقیقت وہ کاہن تو نہیں ، کہا اچھا پھر ان کا نام مجنون رکھو اس پر بھی اوروں نے کہا کہ وہ مجنون بھی نہیں ، پھر بعض نے کہا ساحر نام رکھو اس پر اور لوگوں نے کہا وہ ساحر یعنی جادوگر بھی نہیں ، غرض وہ کوئی ایسا نام تجویز نہ کر سکے جس پر سب کا اتفاق ہو اور یہ مجمع یوں ہی اٹھ کھڑا ہوا ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یہ خبر سن کر منہ لپیٹ کر کپڑا اوڑھ کر لیٹ رہے جبرائیل علیہ السلام تشریف لائے اور اسی طرح یعنی اے کپڑا لپیٹ کر اوڑھنے والے کہہ کر آپ کو مخاطب کیا ، اس روایت کے ایک راوی معلی بن عبدالرحمٰن سے گو اہل علم کی جماعت روایت لیتی ہے اور اس سے حدیثیں نقل کرتے ہیں لیکن ان کی روایتوں میں بہت سی ایسی حدیثیں بھی ہیں جن پر ان کی متابعت نہیں کی جاتی ۔