Surah

Information

Surah # 73 | Verses: 20 | Ruku: 2 | Sajdah: 0 | Chronological # 3 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Early Makkah phase (610 - 618 AD). Except 10, 11 and 20, from Madina
اَوۡ زِدۡ عَلَيۡهِ وَرَتِّلِ الۡقُرۡاٰنَ تَرۡتِيۡلًا ؕ‏ ﴿4﴾
یا اس پر بڑھا دے اور قرآن ٹھہر ٹھہر کر ( صاف ) پڑھا کرو ۔
او زد عليه و رتل القران ترتيلا
Or add to it, and recite the Qur'an with measured recitation.
Ya is per barha dy aur quran ko thehar thehar kar ( saf ) parha ker
یا اس سے کچھ زیادہ کرلو ، اور قرآن کی تلاوت اطمینان سے صاف صاف کیا کرو ۔
یا اس پر کچھ بڑھاؤ ( ف۵ ) اور قرآن خوب ٹھہر ٹھہر کر پڑھو ( ف٦ )
یا اس سے کچھ زیادہ بڑھا دو3 ، اور قرآن کو خوب ٹھہر ٹھہر کر پڑھو4 ۔
یا اس پر کچھ زیادہ کر دیں اور قرآن خوب ٹھہر ٹھہر کر پڑھا کریں
سورة الْمُزَّمِّل حاشیہ نمبر :3 یہ اس مقدار وقت کی تشریح ہے جسے عبادت میں گزارنے کا حکم دیا گیا تھا ۔ اس میں آپ کو اختیار دیا گیا کہ خواہ آدھی رات نماز میں صرف کریں ، یا اس سے کچھ کم کر دیں ، اس سے کچھ زیادہ ۔ لیکن انداز بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ قابل ترجیح آدھی رات ہے ، کیونکہ اسی کو معیار قرار دے کر کمی بیشی کا اختیار دیا گیا ہے ۔ سورة الْمُزَّمِّل حاشیہ نمبر :4 یعنی تیز تیز رواں دواں نہ پڑھو ، بلکہ آہستہ آہستہ ایک ایک لفظ زبان سے ادا کرو اور ایک ایک آیت پر ٹھہرو ، تاکہ ذہن پوری طرح کلام الہی کے مفہوم و مدعا کو سمجھے اور اس کے مضامین سے متاثر ہو ۔ کہیں اللہ کی ذات و صفات کا ذکر ہے تو اس کی عظمت و ہیبت دل پر طاری ہو ۔ کہیں اس رحمت کا بیان ہے تو دل جذبات تشکر سے لبریز ہو جائے ۔ کہیں اس کے غضب اور اس کے عذاب کا ذکر ہے تو دل پر اس کا خوف طاری ہو ۔ کہیں کسی چیز کا حکم ہے یا کسی چیز سے منع کیا گیا ہے تو سمجھا جائے کہ کس چیز کا حکم دیا گیا ہے اور کس چیز سے منع کیا گیا ہے ۔ غرض یہ قرات محض قرآن کے الفاظ کو زبان سے ادا کر دینے کے لیے نہیں بلکہ غور و فکر اور تدبر کے ساتھ ہونی چاہیے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قرات کا طریقہ حضرت انس سے پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ آپ الفاظ کو کھینچ کھینچ کر پڑھتے تھے ۔ مثال کے طور پر انہوں نے بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھ کر بتایا کہ آپ اللہ ، رحمان اور رحیم کو مد کے ساتھ پڑھا کرے تھے ۔ ( بخاری ) حضرت ام سلمہ سے یہی سوال کیا گیا تو انہوں نے بتایا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ایک ایک آیت کو الگ الگ پڑھتے اور ہر آیت پر ٹھہرتے جاتے تھے ، مثلاً الحمد للہ رب العلمین پڑھ کر رکھ جاتے ، پھر الرحمن الرحیم پر ٹھہرتے اور اس کے بعد رک کر ملک یوم الدین کہتے ( مسند احمد ۔ ابو داؤد ۔ ترمذی ۔ نسائی ) حضرت حذیفہ بن یمان کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں رات کی نماز میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کھڑا ہو گیا تو آپ کی قرات کا یہ انداز دیکھا کہ جہاں تسبیح کا موقع آتا وہاں تسبیح فرماتے ، جہاں دعا کا موقع آتا وہاں دعا مانگتے ، جہاں اللہ تعالی کی پناہ مانگنے کا موقع آتا وہاں پناہ مانگتے ( مسلم ، نسائی ) ۔ حضرت ابوذر کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ رات کی نماز میں جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس مقام پر پہنچے ان تعذبھم فانھم عبادک و ان تغفرلھم فانک انت العزیز الحکیم ۔ ( اگر تو انہیں عذاب دے تو وہ تیرے بندے ہیں ، اور اگر تو ان کو معاف فرما دے تو تو غالب اور دانا ہے ) تو اسی کو دہراتے رہے یہاں تک کہ صبح ہو گئی ( مسند احمد ، بخاری ) ۔