سورة الْمُزَّمِّل حاشیہ نمبر :5
مطلب یہ ہے کہ تم کو رات کی نماز کا یہ حکم اس لیے دیا جا رہا ہے کہ ایک بھاری کلام ہم تم پر نازل کر رہے ہیں جس کا بارا ٹھانے کے لیے تم میں اس کے تحمل کی طاقت پیدا ہونی ضروری ہے ، اور یہ طاقت تمہیں اسی طرح حاصل ہو سکتی ہے کہ راتوں کو اپنا آرام چھوڑ کر نماز کے لیے اٹھو اور آدھی آدھی رات یا کچھ کم و بیش عبادت میں گزارا کرو ۔ قرآن کو بھاری کلام اس بنا پر بھی کہا گیا ہے کہ اس کے احکام پر عمل کرنا ، اس کی تعلیم کا نمونہ بن کر دکھانا ، اس کی دعوت کو لے کر ساری دنیا کے مقابلے میں اٹھنا ، اور اس کے مطابق عقائد و افکار ، اخلاق و آداب اور تہذیب و تمدن کے پو رے نظام میں انقلاب برپا کر دینا ایک ایسا کام ہے جس سے بڑھ کر کسی بھاری کام کا تصور نہیں کیا جا سکتا ۔ اور اس بنا پر بھی اس کو بھاری کلام کہا گیا ہے کہ اس کے نزول کا تحمل بڑا دشوار کام تھا ۔ حضرت زید بن ثابت کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی اس حالت میں نازل ہوئی کہ آپ اپنا زانو میرے زانو پر رکھے ہوئے بیٹھے تھے ۔ میرے زانو پر اس وقت ایسا بوجھ پڑا کہ معلوم ہوتا تھا اب ٹوٹ جائے گا ۔ حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ میں نے سخت سردی کے زمانے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی نازل ہوتے دیکھی ہے ، آپ کی پیشانی سے اس وقت پسینہ ٹپکنے لگتا تھا ( بخاری ، مسلم ، مالک ، ترمذی ، نسائی ) ۔ ایک اور روایت میں حضرت عائشہ کا بیان ہے کہ جب کبھی آپ پر اس حالت میں وحی نازل ہوتی کہ آپ اونٹنی پر بیٹھے ہوں تو اونٹنی اپنا سینہ زمین پر ٹکا دیتی تھی اور اس وقت تک حرکت نہ کر سکتی تھی جب تک نزول وحی کا سلسلہ ختم نہ ہو جاتا ( مسند احمد ، حاکم ، ابن جریر ) ۔