سورة الْمُزَّمِّل حاشیہ نمبر :6
اصل میں لفظ ناشئۃ الیل استعمال کیا گیا ہے جس کے متعلق مفسرین اور اہل لغت کے چار مختلف اقوال ہیں ۔ ایک قول یہ ہے کہ ناشئہ سے مراد نفس ناشئہ ہے ، یعنی وہ شخص جو رات کو اٹھے ۔ دوسرا قول یہ ہے کہ اس سے مراد رات کے اوقات ہیں ۔ تیسرا قول یہ ہے کہ اس کے معنی ہیں رات کو اٹھنا ۔ اور چوتھا قول یہ ہے کہ اس لفظ کا اطلاق محض رات کو اٹھنے پر نہیں ہوتا بلکہ سو کر اٹھنے پر ہوتا ہے ۔ حضرت عائشہ اور مجاہد نے اسی چوتھے قول کو اختیار کیا ہے ۔
سورة الْمُزَّمِّل حاشیہ نمبر :7
اصل میں لفظ اشد وطاً استعمال ہوا ہے جس کے معنی میں اتنی وسعت ہے کہ کسی ایک فقرے میں اسے ادا نہیں کیا جا سکتا ۔ اس کا ایک مطلب یہ ہے کہ رات کو عبادت کے لیے اٹھنا اور دیر تک کھڑے رہنا چونکہ طبیعت کے خلاف ہے اور نفس اس وقت آرام کا مطالبہ کرتا ہے ، اس لیے یہ فعل ایک ایسا مجاہدہ ہے جو نفس کو دبانے اور اس پر قابو پانے کی بڑی زبردست تاثیر رکھتا ہے ۔ اس طریقے سے جو شخص اپنے آپ پر قابو پا لے اور اپنے جسم و ذہن پر تسلط حاصل کر کے اپنی اس طاقت کو خدا کی راہ میں استعمال کرنے پر قادر ہو جائے وہ زیادہ مضبوطی کے ساتھ دین حق کی دعوت کو دنیا میں غالب کرنے کے لیے کام کر سکتا ہے ۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ یہ دل اور زبان کے درمیان موافقت پیدا کرنے کا بڑا مؤثر ذریعہ ہے ، کیونکہ رات کے ان اوقات میں بندے اور خدا کے درمیان کوئی دوسرا حائل نہیں ہوتا اور اس حالت میں آدمی جو کچھ زبان سے کہتا ہے وہ اس کے دل کی آواز ہوتی ہے ۔ تیسرا مطلب یہ ہے کہ آدمی کے ظاہر و باطن میں مطابقت پیدا کرنے کا بڑا کارگر ذریعہ ہے ، کیونکہ رات کی تنہائی میں جو شخص اپنا آرام چھوڑ کر عبادت کے لیے اٹھے گا وہ لامحالہ اخلاص ہی کی بنا پر ایسا کرے گا اس میں ریاکاری کا سرے سے کوئی موقع ہی نہیں ہے ۔ چوتھا مطلب یہ ہے کہ یہ عبادت چونکہ دن کی عبادت کی بہ نسبت آدمی پر زیادہ گراں ہوتی ہے اس لیے اس کا التزام کرنے سے آدمی میں بڑی ثابت قدمی پیدا ہوتی ہے ، وہ خدا کی راہ میں زیادہ مضبوطی کے ساتھ چل سکتا ہے اور اس راہ کی مشکلات کو زیادہ استقامت کے ساتھ برداشت کر سکتا ہے ۔
سورة الْمُزَّمِّل حاشیہ نمبر :8
اصل میں اقوم قیلا ارشاد ہوا ہے جس کے لغوی معنی ہیں قول کو زیادہ راست اور درست بناتا ہے ۔ لیکن مدعا یہ ہے کہ اس وقت انسان قرآن کو زیادہ سکون و اطمینان اور توجہ کے ساتھ سمجھ کر پڑھ سکتا ہے ۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ اس کا مفہوم یہ بیان کرتے ہیں کہ اجدر ان یفقہ فی القران ، یعنی وہ اس کے لیے زیادہ موزوں ہے کہ آدمی قرآن میں غور و خوض کرے ( ابو داؤد )