اور آپ مجھے اور جھٹلانے والے سرمایہ داروں کو ( اِنتقام لینے کے لئے ) چھوڑ دیں اور انہیں تھوڑی سی مہلت دے دیں ( تاکہ اُن کے اَعمالِ بد اپنی اِنتہاء کو پہنچ جائیں )
سورة الْمُزَّمِّل حاشیہ نمبر :12
ان الفاظ میں صاف اشارہ اس بات کی طرف ہے کہ مکہ میں دراصل جو لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جھٹلا رہے تھے اور طرح طرح کے فریب دے کر اور تعصبات ابھار کر عوام کو آپ کی مخالفت پر آمادہ کر رہے تھے وہ قوم کے کھاتے پیتے ، پیٹ بھرے ، خوشحال لوگ تھے ، کیونکہ انہی کے مفاد پر اسلام کی اس دعوت اصلاح کی زد پڑ رہی تھی ۔ قرآن ہمیں بتاتا ہے کہ یہ معاملہ صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے ساتھ خاص نہ تھا بلکہ ہمیشہ یہی گروہ اصلاح کی راہ روکنے کے لیے سنگ گراں بن کر کھڑا ہوتا رہا ہے ۔ مثال کے طور پر ملاحظہ ہو الاعراف ، آیات 60 ۔ 66 ۔ 75 ۔ 88 ۔ المومنون ، 33 ۔ سبا ، 34 ۔ 35 ۔ الزخرف ، 23 ۔