Surah

Information

Surah # 4 | Verses: 176 | Ruku: 24 | Sajdah: 0 | Chronological # 92 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD)
يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡۤا اَطِيۡـعُوا اللّٰهَ وَاَطِيۡـعُوا الرَّسُوۡلَ وَاُولِى الۡاَمۡرِ مِنۡكُمۡ‌ۚ فَاِنۡ تَنَازَعۡتُمۡ فِىۡ شَىۡءٍ فَرُدُّوۡهُ اِلَى اللّٰهِ وَالرَّسُوۡلِ اِنۡ كُنۡـتُمۡ تُؤۡمِنُوۡنَ بِاللّٰهِ وَالۡيَـوۡمِ الۡاٰخِرِ‌ ؕ ذٰ لِكَ خَيۡرٌ وَّاَحۡسَنُ تَاۡوِيۡلًا‏ ﴿59﴾
اے ایمان والو! فرمانبرداری کرو اللہ تعالٰی کی اور فرمانبرداری کرو رسول ( صلی اللہ علیہ و سلم ) کی اور تم میں سے اختیار والوں کی ۔ پھر اگر کسی چیز میں اختلاف کرو تو اسے لوٹاؤ اللہ تعالٰی کی طرف اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف اگر تمہیں اللہ تعالٰی پر اور قیامت کے دن پر ایمان ہے ۔ یہ بہت بہتر ہے اور باعتبارِ انجام کے بہت اچھا ہے ۔
يايها الذين امنوا اطيعوا الله و اطيعوا الرسول و اولي الامر منكم فان تنازعتم في شيء فردوه الى الله و الرسول ان كنتم تؤمنون بالله و اليوم الاخر ذلك خير و احسن تاويلا
O you who have believed, obey Allah and obey the Messenger and those in authority among you. And if you disagree over anything, refer it to Allah and the Messenger, if you should believe in Allah and the Last Day. That is the best [way] and best in result.
Aey eman walo! Farmanbardari kero Allah Taalaa ki aur farmanbardari kero rasool ( PBUH ) ki aur tum mein say ikhtiyar walon ki. Phir agar kissi cheez mein ikhtilaf kero to ussay lotao Allah Taalaa ki taraf aur rasool ki taraf agar tumhen Allah Taalaa per aur qayamat kay din per eman hai. Yeh boht behtar hai aur ba aetbaar anjam kay boht acha hai.
اے ایمان والو ! اللہ کی اطاعت کرو اور اس کے رسول کی بھی اطاعت کرو اور تم میں سے جو لوگ صاحب اختیار ہوں ان کی بھی ۔ ( ٤١ ) پھر اگر تمہارے درمیان کسی چیز میں اختلاف ہوجائے تو اگر واقعی تم اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہو تو اسے اللہ اور رسول کے حوالے کردو ۔ یہی طریقہ بہترین ہے اور اس کا انجام بھی سب سے بہتر ہے ۔
اے ایمان والو! حکم مانو اللہ کا اور حکم مانو رسول کا ( ف۱٦۷ ) اور ان کا جو تم میں حکومت والے ہیں ( ف۱٦۸ ) پھر اگر تم میں کسی بات کا جھگڑا اٹھے تو اسے اللہ اور رسول کے حضور رجوع کرو اگر اللہ اور قیامت پر ایمان رکھتے ہو ( ف۱٦۹ ) یہ بہتر ہے اور اس کا انجام سب سے اچھا ،
اے لوگو جو ایمان لائے ہو ، اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو رسول کی اور ان لوگوں کی جو تم میں سے صاحب امر ہوں ، پھر اگر تمہارے درمیان کسی معاملہ میں نزاع ہو جائے تو اسے اللہ اور رسول کی طرف پھیر دو 89 اگر تم واقعی اللہ اور روزِ آخر پر ایمان رکھتے ہو ۔ یہی ایک صحیح طریقِ کار ہے اور انجام کے اعتبار سے بھی بہتر ہے ۔ 90 ؏۸
اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی اطاعت کرو اوراپنے میں سے ( اہلِ حق ) صاحبانِ اَمر کی ، پھر اگر کسی مسئلہ میں تم باہم اختلاف کرو تو اسے ( حتمی فیصلہ کے لئے ) اللہ اور رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی طرف لوٹا دو اگر تم اللہ پر اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتے ہو ، ( تو ) یہی ( تمہارے حق میں ) بہتر اور انجام کے لحاظ سے بہت اچھا ہے
سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :89 یہ آیت اسلام کے پورے مذہبی ، تمدنی اور سیاسی نظام کی بنیاد اور اسلامی ریاست کے دستور کی اولین دفعہ ہے ۔ اس میں حسب ذیل اصول مستقل طور پر قائم کر دیے گئے ہیں: ( ۱ ) اسلامی نظام میں اصل مطاع اللہ تعالیٰ ہے ۔ ایک مسلمان سب سے پہلے بندہ خدا ہے ، باقی جو کچھ بھی ہے اس کے بعد ہے ۔ مسلمان کی انفرادی زندگی ، اور مسلمانوں کے اجتماعی نظام ، دونوں کا مرکز و محور خدا کی فرمانبرداری اور وفاداری ہے ۔ دوسری اطاعتیں اور وفاداریاں صرف اس صورت میں قبول کی جائیں گی کہ وہ خدا کی اطاعت اور وفاداری کی مد مقابل نہ ہوں بلکہ اس کے تحت اور اس کی تابع ہوں ۔ ورنہ ہر وہ حلقہ اطاعت توڑ کر پھینک دیا جائے گا جو اس اصلی اور بنیادی اطاعت کا حریف ہو ۔ یہی بات ہے جسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے کہ لا طاعۃ لمخلوق فی معصیۃ الخالق ۔ خالق کی نافرمانی میں کسی مخلوق کے لیے کوئی اطاعت نہیں ہے ۔ ( ۲ ) اسلامی نظام کی دوسری بنیاد رسول کی اطاعت ہے ۔ یہ کوئی مستقل بالذات اطاعت نہیں ہے بلکہ اطاعت خدا کی واحد عملی صورت ہے ۔ رسول اس لیے مطاع ہے کہ وہی ایک مستند ذریعہ ہے جس سے ہم تک خدا کے احکام اور فرامین پہنچتے ہیں ۔ ہم خدا کی اطاعت صرف اسی طریقہ سے کر سکتے ہیں کہ رسول کی اطاعت کریں ۔ کوئی اطاعت خدا رسول کی سند کے بغیر معتبر نہیں ہے ، اور رسول کی پیروی سے منہ موڑنا خدا کے خلاف بغاوت ہے ۔ اسی مضمون کو یہ حدیث واضح کرتی ہے کہ من اطاعنی فقد اطاع اللہ و من عصانی فقد عصی اللہ ۔ ” جس نے میری اطاعت کی اس نے خدا کی اطاعت کی اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے خدا کی نافرمانی کی ۔ “ اور یہی بات خود قرآن میں پوری وضاحت کے ساتھ آگے آرہی ہے ۔ ( ۳ ) مذکورہ بالا دونوں اطاعتوں کے بعد اور ان کے ماتحت تیسری اطاعت جو اسلامی نظام میں مسلمانوں پر واجب ہے وہ ان” اولی الامر“ کی اطاعت ہے جو خود مسلمانوں میں سے ہوں ۔ ”اولی الامر “ کے مفہوم میں وہ سب لوگ شامل ہیں جو مسلمانوں کے اجتماعی معاملات کے سربراہ کار ہوں ، خواہ وہ ذہنی و فکری رہنمائی کرنے والے علماء ہوں ، یا سیاسی رہنمائی کرنے والے لیڈر ، یا ملکی انتظام کرنے والے حکام ، یا عدالتی فیصلے کرنے والے جج ، یا تمدنی و معاشرتی امور میں قبیلوں اور بستیوں اور محلوں کی سربراہی کرنے والے شیوخ اور سردار ۔ غرض جو جس حیثیت سے بھی مسلمانوں کا صاحب امر ہے وہ اطاعت کا مستحق ہے ، اور اس سے نزاع کر کے مسلمانوں کی اجتماعی زندگی میں خلل ڈالنا درست نہیں ہے ۔ بشرطیکہ وہ خود مسلمانوں کے گروہ میں سے ہو ، اور خدا و رسول کا مطیع ہو ۔ یہ دونوں شرطیں اس اطاعت کے لیے لازمی شرطیں ہیں اور یہ نہ صرف آیت مذکورہ صدر میں صاف طور پر درج ہیں ، بلکہ حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو پوری شرح و بسط کے ساتھ بیان فرما دیا ہے ۔ مثلاً حسب ذیل احادیث ملاحظہ ہوں: السمع و الطاعۃ المرء المسلم فی ما احب و کرہ مالم یؤمر بمعصیۃ فاذا امر بمعصیۃ فلا سمع ولا طاعۃ ۔ ( بخاری و مسلم ) مسلمان کو لازم ہے کہ اپنے اولی الامر کی بات سنے اور مانے خواہ اسے پسند ہو یا ناپسند ، تاوقتیکہ اسے معصیت کا حکم نہ دیا جائے ۔ اور جب اسے معصیت کا حکم دیا جائے تو پھر اسے نہ کچھ سننا چاہیے نہ ماننا چاہیے ۔ لا طاعۃ فی معصیۃ انما الطاعۃ فی المعروف ۔ ( بخاری و مسلم ) خدا اور رسول کی نافرمانی میں کوئی اطاعت نہیں ہے ۔ اطاعت جو کچھ بھی ہے ”معروف“ میں ہے ۔ یکون علیکم امراء تعرفون و تنکرون فمن انکر فقد بری و من کرہ فقد سم ولکن من رضی و تابع فقالوا افلا نقاتلھم؟ قال لا ما صلّوا ۔ ( مسلم ) حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم پر ایسے لوگ بھی حکومت کریں گے جن کی بعض باتوں کو تم معروف پاؤ گے اور بعض کو منکر ۔ تو جس نے ان کے منکرات پر اظہار ناراضی کیا وہ بری الذمہ ہوا ۔ اور جس نے ان کو ناپسند کیا وہ بھی بچ گیا ۔ مگر جو ان پر راضی ہوا اور پیروی کرنے لگا وہ ماخوذ ہوگا ۔ صحابہ نے پوچھا ، پھر جب ایسے حکام کا دور آئے تو کیا ہم ان سے جنگ نہ کریں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں جب تک کہ وہ نماز پڑھتے رہیں ۔ یعنی ترک نماز وہ علامت ہو گی جس سے صریح طور پر معلوم ہو جائے گا کہ وہ اطاعت خدا و رسول سے باہر ہو گئے ہیں ، اور پھر ان کے خلاف جدوجہد کرنا درست ہو گا ۔ شِرَار ائمّتکُم الّدیْن تبغضونہم و یبغضونکم و تلعنونہم و یلعنونکم قلنا یا رسول اللہ افلا نناذبھم عند ذالک؟ قال لا ما اقاموا فیکم الصلوۃ ، لا مَا اقاموا فیکم الصلوۃ ۔ ( مسلم ) حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمہارے بدترین سردار وہ ہیں جو تمہارے لیے مبغوض ہوں اور تم ان کے لیے مبغوض ہو ۔ تم ان پر لعنت کرو اور وہ تم پر لعنت کریں ۔ صحابہ کرام نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! جب یہ صورت ہو تو کیا ہم ان کے مقابلہ پر نہ اٹھیں؟ فرمایا نہیں ، جب تک وہ تمہارے درمیان نماز قائم کرتے رہیں ۔ نہیں ، جب تک وہ تمہارے درمیان نماز قائم کرتے رہیں ۔ اس حدیث میں اوپر والی شرط کو اور زیادہ واضح کر دیا گیا ہے ۔ اوپر کی حدیث سے گمان ہوسکتا تھا کہ اگر وہ اپنی انفرادی زندگی میں نماز کے پابند ہوں تو ان کے خلاف بغاوت نہیں کی جاسکتی ۔ لیکن یہ حدیث بتاتی ہے کہ نماز پڑھنے سے مراد دراصل مسلمانوں کی اجتماعی زندگی میں نماز کا نظام قائم کرنا ہے ۔ یعنی صرف یہی کافی نہیں ہے کہ وہ لوگ خود پابند نماز ہوں ، بلکہ ساتھ ہی یہ بھی ضروری ہے کہ ان کے تحت جو نظام حکومت چل رہا ہو وہ کم از کم اقامت صلوٰۃ کا انتظام کرے ۔ یہ اس بات کی علامت ہوگی کہ ان کی حکومت اپنی اصولی نوعیت کے اعتبار سے ایک اسلامی حکومت ہے ۔ ورنہ اگر یہ بھی نہ ہو تو پھر اس کے معنی یہ ہوں گے کہ وہ حکومت اسلام سے منحرف ہوچکی ہے اور اسے الٹ پھینکنے کی سعی مسلمانوں کے لیے جائز ہو جائے گی ۔ اسی بات کو ایک اور روایت میں اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ ” نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے من جملہ اور باتوں کے ایک اس امر کا عہد بھی لیا کہ ان لا ننازع الامر اھلہ الا ان تروا کفرا بَوَاحًا عندکم من اللہ فیہ برھان ، یعنی یہ کہ” ہم اپنے سرداروں اور حکام سے نزاع نہ کریں گے ، اِلّا یہ کہ ہم ان کے کاموں میں کھلم کھلا کفر دیکھیں جس کی موجودگی میں ان کے خلاف ہمارے پاس خدا کے حضور پیش کرنے کے لیے دلیل موجود ہو ۔ “ ( بخاری و مسلم ) ( ٤ ) چوتھی بات جو آیت زیر بحث میں ایک مستقل اور قطعی اصول کے طور پر طے کر دی گئی ہے یہ ہے کہ اسلامی نظام میں خدا کا حکم اور رسول کا طریقہ بنیادی قانون اور آخری سند ( Final authority ) کی حیثیت رکھتا ہے ۔ مسلمانوں کے درمیان ، یا حکومت اور رعایا کے درمیان جس مسئلہ میں بھی نزاع واقع ہوگی اس میں فیصلہ کے لیے قرآن اور سنت کی طرف رجوع کیا جائے گا اور جو فیصلہ وہاں سے حاصل ہوگا اس کے سامنے سب سر تسلیم خم کر دیں گے ۔ اس طرح تمام مسائل زندگی میں کتاب اللہ و سنت رسول اللہ کو سند اور مرجع اور حرف آخر تسلیم کرنا اسلامی نظام کی وہ لازمی خصوصیت ہے جو اسے کافرانہ نظام زندگی سے ممیز کرتی ہے ۔ جس نظام میں یہ چیز نہ پائی جائے وہ بالیقین ایک غیر اسلامی نظام ہے ۔ اس موقع پر بعض لوگ یہ شبہہ پیش کرتے ہیں کہ تمام مسائل زندگی کے فیصلہ کے لیے کتاب اللہ و سنت رسول اللہ کی طرف کیسے رجوع کیا جا سکتا ہے جبکہ میونسپلٹی اور ریلوے اور ڈاک خانہ کے قواعد و ضوابط اور ایسے ہی بے شمار معاملات کے احکام سرے سے وہاں موجود ہی نہیں ہیں ۔ لیکن درحقیقت یہ شبہہ اصول دین کو نہ سمجھنے سے پیدا ہوتا ہے ۔ مسلمان کو جو چیز کافر سے ممیز کرتی ہے وہ یہ ہے کہ کافر مطلق آزادی کا مدعی ہے ، اور مسلمان فی الاصل بندہ ہونے کے بعد صرف اس دائرے میں آزادی کا متمتع ہوتا ہے جو اس کے رب نے اسے دی ہے ۔ کافر اپنے سارے معاملات کا فیصلہ خود اپنے بنائے ہوئے اصول اور قوانین اور ضوابط کے مطابق کرتا ہے اور سرے سے کسی خدائی سند کا اپنے آپ کو حاجت مند سمجھتا ہی نہیں ۔ اس کے برعکس مسلمان اپنے ہر معاملہ میں سب سے پہلے خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف رجوع کرتا ہے ، پھر اگر وہاں سے کوئی حکم ملے تو وہ اس کی پیروی کرتا ہے ، اور اگر کوئی حکم نہ ملے تو وہ صرف اسی صورت میں آزادی عمل برتتا ہے ، اور اس کی یہ آزادی عمل اس حجت پر مبنی ہوتی ہے کہ اس معاملہ میں شارع کا کوئی حکم نہ دینا اس کی طرف سے آزادی عمل عطا کیے جانے کی دلیل ہے ۔ سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :90 ”قرآن مجید چونکہ محض کتاب آئین ہی نہیں ہے بلکہ کتاب تعلیم و تلقین اور صحیفہ وعظ و ارشاد بھی ہے ، اس لیے پہلے فقرے میں جو قانونی اصول بیان کیے گئے تھے ، اب اس دوسرے فقرے میں ان کی حکمت و مصلحت سمجھائی جا رہی ہے ۔ اس میں دو باتیں ارشاد ہوئی ہیں : ایک یہ کہ مذکورہ بالا چاروں اصولوں کی پیروی کرنا ایمان کا لازمی تقاضا ہے ۔ مسلمان ہونے کا دعویٰ اور ان اصولوں سے انحراف ، یہ دونوں چیزیں ایک جگہ جمع نہیں ہو سکتیں ۔ دوسرے یہ کہ ان اصولوں پر اپنے نظام زندگی کو تمیر کرنے ہی میں مسلمانوں کی بہتری بھی ہے ۔ صرف یہی ایک چیز ان کو دنیا میں صراط مستقیم پر قائم رکھ سکتی ہے اور اسی سے ان کی عاقبت بھی درست ہو سکتی ہے ۔ یہ نصیحت ٹھیک اس تقریر کے خاتمہ پر ارشاد ہوئی ہے جس میں یہودیوں کی اخلاقی و دینی حالت پر تبصرہ کیا جا رہا تھا ۔ اس طرح ایک نہایت لطیف طریقہ سے مسلمانوں کو متنبہ کیا گیا ہے کہ تمہاری پیش رو امت دین کے ان بنیادی اصولوں سے منحرف ہو کر جس پستی میں گر چکی ہے اس سے عبرت حاصل کرو ۔ جب کوئی گروہ خدا کی کتاب اور اس کے رسول کی ہدایت کو پس پشت ڈال دیتا ہے ، اور ایسے سرداروں اور رہنماؤں کے پیچھے لگ جاتا ہے جو خدا رسول کے مطیع فرمان نہ ہوں ، اور اپنے مذہبی پیشواؤں اور سیاسی حاکموں سے کتاب و سنت کی سند پوچھے بغیر ان کی اطاعت کرنے لگتا ہے تو وہ ان خرابیوں میں مبتلا ہونے سے کسی طرح بچ نہیں سکتا جن میں بنی اسرائیل مبتلا ہوئے ۔
مشروط اطاعت امیر صحیح بخاری شریف میں بروایت حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک چھوٹے سے لشکر میں حضرت عبداللہ بن حذافہ بن قیس کو بھیجا تھا ان کے بارے میں یہ آیت اتری ہے ، بخاری و مسلم میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک لشکر بھیجا جس کی سرداری ایک انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دی ایک مرتبہ وہ لوگوں پر سخت غصہ ہوگئے اور فرمانے لگے کیا تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے میری فرمانبرداری کا حکم نہیں دیا ؟ سب نے کہا ہاں بیشک دیا ہے ، فرمانے لگے اچھا لکڑیاں جمع کرو پھر آگ منگوا کر لکڑیاں جلائیں پھر حکم دیا کہ تم اس آگ میں کود پڑو ایک نوجوان نے کہا لوگو سنو آگ سے بچنے کے لئے ہی تو ہم نے دامن رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں پناہ لی ہے تم جلدی نہ کرو جب تک کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ملاقات نہ ہو جائے پھر اگر آپ بھی یہی فرمائیں تو بےجھجھک اس آگ میں کود پڑھنا چنانچہ یہ لوگ واپس حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور سارا واقعہ کہہ سنایا آپ نے فرمایا اگر تم اس آگ میں کود پڑھتے تو ہمیشہ آگ ہی میں جلتے رہتے ۔ سنو فرمانبرداری صرف معروف میں ہے ۔ ابو داؤد میں ہے کہ مسلمان پر سننا اور ماننا فرض ہے جی چاہے یا طبیعت رو کے لیکن اس وقت تک کہ ( اللہ تعالیٰ اور رسول کی ) نافرمانی کا حکم نہ دیا جائے ، جب نافرمانی کا حکم ملے تو نہ سنے نہ مانے ۔ بخاری و مسلم میں ہے حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں ہم سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بیعت لی کہ کام کے اہل سے اس کام کو نہ چھینیں ۔ لیکن جب تم ان کا کھلا کفر دیکھو جس کے بارے میں تمہارے پاس کوئی واضح الٰہی دلیل بھی ہو ، بخاری شریف میں ہے سنو اور اطاعت کرو اگرچہ تم پر حبشی غلام امیر بنایا گیا ہو چاہے کہ اس کا سرکشمکش ہے ، مسلم شریف میں ہے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں مجھے میرے خلیل ( یعنی رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے سننے کی وصیت کی اگرچہ ناقص ہاتھ پاؤں والا حبشی غلام ہی ہو ، مسلم کی ہی اور حدیث میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حجتہ الوداع کے خطبہ میں فرمایا چاہے تم پر غلام عامل بنایا جائے جو تمہیں کتاب اللہ کے مطابق تمہارا ساتھ چاہے تو تم اس کی سنو اور مانو ایک روایت میں غلام حبشی اعضاء کٹا کے الفاظ ہیں ، ابن جریر میں ہے نیکوں اور بدوں سے بد تم ہر ایک اس امر میں جو مطابق ہو ان کی سنو اور مانو کہ میرے بعد نیک سے نیک اور بد سے بد تم کو ملیں گے تم پر ایک میں نے جو حق پر ہو اس کا سننا اور ماننا تم سے اور ان کے پیچھے نمازیں پڑھتے رہو اگر وہ نیکی کریں گے ۔ تو ان کے لئے تفع ہے اور تمہارے لئے بھی اور اگر وہ بدی کریں گے تو تمہارے لئے اچھائی ہے اور ان پر گناہوں کا بوجھ ہے ، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا بنو اسرائیل میں مسلسل لگاتار رسول آیا کرتے تھے ایک کے بعد ایک اور میرے بعد کوئی نبی نہیں مگر خلفاء بکثرت ہوں گے لوگوں نے پوچھا پھر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمیں کیا حکم دیتے ہیں؟ فرمایا پہلے کی بیعت پوری کرو پھر اس کے بعد آنے والے کی ان کا حق انہیں دے دو اللہ تعالیٰ ان سے ان کی رعیت کے بارے میں سوال کرنے والا ہے ۔ آپ فرماتے ہیں جو شخص اپنے امیر کا کوئی ناپسندیدہ کام دیکھے اسے صبر کرنا چاہیے جو شخص جماعت کے بالشت بھر جدا ہو گیا پھر وہ جاہلیت کی موت مرے گا ( بخاری و مسلم ) ارشاد ہے جو شخص اطاعت سے ہاتھ کھینچ لے وہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ سے حجت و دلیل بغیر ملاقات کرے گا اور جو اس حالت میں مرے کہ اس کی گردن میں بیعت نہ ہو وہ جاہلیت کی موت مرے گا ( مسلم ) حضرت عبدالرحمن رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں میں بیت اللہ شریف میں گیا دیکھا تو حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ کعبہ کے سایہ میں تشریف فرما ہیں اور لوگوں کا ایک مجمع جمع ہے میں بھی اس مجلس میں ایک طرف بیٹھ گیا اس وقت حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ حدیث بیان کی فرمایا ایک سفر میں ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ تھے ایک منزل میں اترے کوئی اپنا خیمہ ٹھیک کرنے لگا کوئی اپنے نیز سنبھالنے لگا کوئی کسی اور کام میں مشغول ہو گیا ، اچانک ہم نے سنا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرما رہے ہیں ہر نبی پر اللہ کی طرف سے فرض ہوتا ہے کہ اپنی امت کو تمام نیکیاں جو وہ جانتا ہے ان کی تربیت انہیں دے اور تمام برائیوں سے جو اس کی نگاہ میں ہیں انہیں آگاہ کر دے ۔ سنو میری امت کی عافیت کا زمانہ اول کا زمانہ ہے آخر زمانے میں بڑی بڑی بلائیں آئیں گی اور ایسے ایسے امور نازل ہوں گے جنہیں مسلمان ناپسند کریں گے اور ایک ہر ایک فتنہ برپا ہو گا ایک ایسا وقت آئے گا کہ مومن سمجھ لے گا اسی میں میری ہلاکت ہے پھر وہ ہٹے گا ۔ تو دوسرا اس سے بھی بڑا آئے گا جس میں اسے اپنی ہلاکت کا کامل یقین ہوگا بس یونہی لگا تار فتنے اور زبردست آزمائشیں اور کال تکلیفیں آتی رہیں گے پس جو شخص اس بات کو پسند کرے کہ جہنم سے بچ جانے اور جنت کا مستحق ہو اسے چاہیے کہ مرتے دم تک اللہ تعالیٰ پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھے اور لوگوں سے وہ برتاؤ کرے جو خود اپنے لئے پسند کرتا ہے سنو جس نے امام سے بیعت کر لی اس نے اپنا ہاتھ اس کے قبضہ میں اور دل کی تمنائیں اسے دے دیں ۔ اور اپنے دل کا پھل دے دیا اب اسے چاہیے کہ اس کی اطاعت کرے اگر کوئی دوسرا اس سے خلاف چھیننا چاہے تو اس کی گردن اڑا دو ، عبدالرحمن فرماتے ہیں میں یہ سن کر قریب گیا اور کہا آپ کو میں اللہ تعالیٰ کی قسم دیتا ہوں کیا خود آپ نے اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبانی سنا ہے؟ تو آپ نے اپنے دونوں ہاتھ اپنے کان اور دل کی طرف بڑھا کر فرمایا میں نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اپنے ان دو کانوں سے سنا اور میں نے اسے اپنے اس دل میں محفوظ رکھا ہے مگر آپ کے چچا زاد بھائی حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہمیں ہمارے اپنے مال بطریق باطل سے کھانے اور آپس میں ایک دوسرے سے جنگ کرنے کا حکم دیتے ہیں حالانکہ اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کاموں سے ممانعت فرمائی ہے ، ارشاد ہے ( آیت یا ایھا الذین امنوا لا تاکلوا اموالکم الخ ، ) اسے سن کر حضرت عبداللہ ذرا سی دیر خاموش رہے پھر فرمایا اللہ کی اطاعت میں ان کی اطاعت کرو اور اگر اللہ کی نافرمانی کا حکم دیں تو اسے نہ مانو اس بارے میں حدیثیں اور بھی بہت سی ہیں ، اسی آیت کو تفسیر میں حضرت سدی رحمتہ اللہ علیہ سے مروی ہے کہ رسول مقبول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک لشکر بھیجا جس کا امیر حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بنایا اس لشکر میں حضرت عمار بن یاسر رحمۃ اللہ علیہ بھی تھے یہ لشکر جس قوم کی طرف جانا چاہتا تھاچلا رات کے وقت اس کی بستی کے پاس پہنچ کر پڑاؤ کیا ان لوگوں کو اپنے جاسوسوں سے پتہ چل گیا اور چھپ چھپ کر سب راتوں رات بھاگ کھڑے ہوئے ۔ صرف ایک شخص رہ گیا اس نے ان کے ساتھ جانے سے انکار کر دیا انہوں نے اس کا سب انسباب جلا دیا یہ شخص رات کے اندھیرے میں خالد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے لشکر میں آیا اور حضرت عمار رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ملا اور ان سے کہا کہ اے ابو الیقظان میں اسلام قبول کر چکا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور یہ کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے بندے اور اس کے رسول ہیں میری ساری قوم تمہارا آنا سن کر بھاگ گئی ہے صرف میں باقی رہ گیا ہوں تو کیا کل میرا یہ اسلام مجھے نفع دے گا ؟ اگر نفع نہ دے تو میں بھی بھاگ جاؤں حضرت عمار رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا یقیناً یہ اسلام تمہیں نفع دے گا تم نہ بھاگو بلکہ ٹھہرے رہو صبح کے وقت جب حضرت خالد رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے لشکر کشی کی تو سوائے اس شخص کے وہاں کسی کو نہ پایا اسے اس کے مال سمیت گرفتار کر لیا گیا جب حضرت عمار رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو معلوم ہوا تو آپ حضرت خالد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس آئے اور کہا اسے چھوڑ دیجئے یہ اسلام لا چکا ہے اور میری پناہ میں ہے حضرت خالد رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا تم کون ہو جو کسی کو پناہ دے سکو؟ اس پر دونوں بزرگوں میں کچھ تیز کلامی ہو گئی اور قصہ بڑھا یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں سارا واقعہ بیان کیا گیا ۔ آپ نے حضرت عمار رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی پناہ کو جائز قرار دیا اور فرمایا آئندہ امیر کی طرف سے پناہ نہ دینا پھر دونوں میں کچھ تیز کلامی ہونے لگی اس پر حضرت خالد رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضور سے کہا اس ناک کٹے غلام کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کچھ نہیں کہتے؟ دیکھئے تو یہ مجھے برا بھلا کہہ رہا ہے؟ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا خالد رضی اللہ تعالیٰ عنہ عمار رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو برا نہ کہو ۔ عمار رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو گالیاں دینے والے کو اللہ گالیاں دے گا ، عمار رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے دشمنی کرنے والے سے اللہ دشمنی رکھے گا ، عمار رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر جو لعنت بھیجے گا اس پر اللہ کی لعنت نازل ہو گی اب تو حضرت خالد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو لینے کے دینے پڑھ گئے حضرت عمار رضی اللہ تعالیٰ عنہ غصہ میں چلا رہے تھے آپ دوڑ کر ان کے پاس گئے دامن تھام لیا معذرت کی اور اپنی تقصیر معاف کرائی تب تک پیچھانہ چھوڑا جب تک کہ حضرت عمار رضی اللہ تعالیٰ عنہ راضی نہ ہوگئے ، پس اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی ( امر امارت و خلافت کے متعلق شرائط وغیرہ کا بیان آیت واذقال ربک للملائکتہ انی جاعل فی الارض خلیفۃ کی تفسیر میں گزر چکا ہے ہاں ملاحظہ ہو ۔ مترجم ) حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بھی یہ رویات مروی ہے ( ابن جریر اور ابن مردویہ ) حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ وغیرہ فرماتے ہیں اولی الامر سے مراد سمجھ بوجھ دین والے ہیں یعنی علماء کی ظاہر بات تو یہ معلوم ہوتی ہے آگے حقیقی علم اللہ کو ہے کہ یہ لفظ عام ہیں امراء علماء دونوں اس سے مراد ہیں جیسے کہ پہلے گزرا قرآن فرماتا ہے ( آیت لولا ینھاھم الربانیون الخ ، ) یعنی ان کے علماء نے انہیں جھوٹ بولنے اور حرام کھانے سے کیوں نہ روکا ؟ اور جگہ ہے ( آیت فاسئلوااھل الذکر الخ ، ) حدیث کے جاننے والوں سے پوچھ لیا کرو کہ اگر تمہیں علم نہ ہو ، صحیح حدیث میں ہے میری اطاعت کرنے والا اللہ کی اطاعت کرنے والا ہے اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے اللہ کی نافرمانی کی ہے پس یہ ہیں احکام علماء امراء کی اطاعت کرو یعنی اس کی سنتوں پر عمل کرو اور حکم والوں کی اطاعت کرو یعنی اس چیز میں جو اللہ کی اطاعت ہو ، اللہ کے فرمان کے خلاف اگر ان کا کوئی حکم ہو تو اطاعت نہ کرنی چاہیے ایسے وقت علماء یا امراء کی ماننا حرام ہے جیسے کہ پہلی حدیث گزر چکی کہ اطاعت صرف معروف میں ہے یعنی فرمان الہ و فرمان رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دائرے میں مسند احمد میں ہے اس سے بھی زیادہ صاف حدیث ہے جس میں ہے کسی کی اطاعت اللہ تعالیٰ کے فرمان کے خلاف جائز نہیں ۔ آگے چل کر فرمایا کہ اگر تم میں کسی بارے میں جھگڑ پڑے تو اسے اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف لوٹاؤ یعنی کتاب اللہ اور سنت رسول کی طرف جیسے کہ حضرت مجاہد رحمتہ اللہ علیہ کی تفسیر ہے پس یہاں صریح اور صاف لفظوں میں اللہ عزوجل کا حکم ہو رہا ہے کہ لوگ جس مسئلہ میں اختلاف کریں خواہ وہ مسئلہ اصول دین سے متعلق ہو خواہ فروغ دین سے متعلق اس کے تصفیہ کی صرف یہی صورت ہے کہ کتاب و سنت کو حکم مان لیا جائے جو اس میں ہو وہ قبول کیا جائے ، جیسے اور آیت قرآنی میں ہے ( آیت وما اختلفتم فیہ من شیء فحکمہ الی اللہ ) یعنی اگر کسی چیز میں تمہارا اختلاف ہو جائے اس کا فیصلہ اللہ کی طرف ہے پس کتاب و سنت جو حکم دے اور جس مسئلہ کی صحت کی شہادت دے وہی حق ہے باقی سب باطل ہے ، قرآن فرماتا ہے کہ حق کے بعد جو ہے ضلالت و گمراہی ہے ، اسی لئے یہاں بھی اس حکم کے ساتھ ہی ارشاد ہوتا ہے اگر تم اللہ تعالیٰ پر اور قیامت پر ایمان رکھتے ہو ، یعنی اگر تم ایمان کے دعوے میں سچے ہو تو جس مسئلہ کا تمہیں علم نہ ہو یعنی جس مسئلہ میں اختلاف ہو ، جس امر میں جدا جدا آراء ہوں ان سب کا فیصلہ کتاب اللہ اور حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کیا کرو جو ان دونوں میں ہو مان لیا کرو ، پس ثابت ہوا کہ جو شخص اختلافی مسائل کا تصفیہ کتاب و سنت کی طرف سے نہ لے جائے وہ اللہ پر اور قیامت پر ایمان نہیں رکھتا ۔ پھر ارشاد ہوتا ہے کہ جھگڑوں میں اور اختلافات میں کتاب اللہ و سنت رسول کی طرف فیصلہ لانا اور ان کی طرف رجوع کرنا ہی بہتر ہے ، اور یہی نیک انجام خوش آئند ہے اور یہی اچھے بدلے دلانے والا کام ہے ، بہت اچھی جزا اسی کا ثمر ہے ۔