Surah

Information

Surah # 4 | Verses: 176 | Ruku: 24 | Sajdah: 0 | Chronological # 92 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD)
اَلَمۡ تَرَ اِلَى الَّذِيۡنَ يَزۡعُمُوۡنَ اَنَّهُمۡ اٰمَنُوۡا بِمَاۤ اُنۡزِلَ اِلَيۡكَ وَمَاۤ اُنۡزِلَ مِنۡ قَبۡلِكَ يُرِيۡدُوۡنَ اَنۡ يَّتَحَاكَمُوۡۤا اِلَى الطَّاغُوۡتِ وَقَدۡ اُمِرُوۡۤا اَنۡ يَّكۡفُرُوۡا بِهٖ ؕ وَيُرِيۡدُ الشَّيۡـطٰنُ اَنۡ يُّضِلَّهُمۡ ضَلٰلًاۢ بَعِيۡدًا‏ ﴿60﴾
کیا آپ نے انہیں نہیں دیکھا؟ جن کا دعویٰ تو یہ ہے کہ جو کچھ آپ پر اور جو کچھ آپ سے پہلے اُتارا گیا ہے اس پر ان کا ایمان ہے لیکن وہ اپنے فیصلے غیر اللہ کی طرف لے جانا چاہتے ہیں حالانکہ انہیں حکم دیا گیا ہے کہ شیطان کا انکار کریں شیطان تو یہ چاہتا ہے کہ انہیں بہکا کر دور ڈال دے ۔
الم تر الى الذين يزعمون انهم امنوا بما انزل اليك و ما انزل من قبلك يريدون ان يتحاكموا الى الطاغوت و قد امروا ان يكفروا به و يريد الشيطن ان يضلهم ضللا بعيدا
Have you not seen those who claim to have believed in what was revealed to you, [O Muhammad], and what was revealed before you? They wish to refer legislation to Taghut, while they were commanded to reject it; and Satan wishes to lead them far astray.
Kiya aap ney unhen nahi dekha? Jin ka daawa to yeh hai kay jo kuch aap per aur jo kuch aap say pehlay utara gaya hai uss per unn ka eman hai lekin woh apney faislay ghair ullah ki taraf ley jana chahtay hain halankay unhen hukum diya gaya hai kay shetan ka inkar keren shetan to yeh chahata hai unhen behka ker door daal dey.
۔ ( اے پیغمبر ) کیا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جو دعوی یہ کرتے ہیں کہ وہ اس کلام پر بھی ایمان لے آئے ہیں جو تم پر نازل کیا گیا ہے اور اس پر بھی جو تم سے پہلے نازل کیا گیا تھا ، ( لیکن ) ان کی حالت یہ ہے کہ وہ اپنا مقصد فیصلے کے لیے طاغوت کے پاس لے جانا چاہتے ہیں؟ ( ٤٢ ) حالانکہ ان کو حکم یہ دیا گیا تھا کہ وہ اس کا کھل کر انکار کریں ۔ اور شیطان چاہتا ہے کہ انہیں بھٹکا کر پرلے درجے کی گمراہی میں مبتلا کردے ۔
کیا تم نے انہیں نہ دیکھا جن کا دعویٰ ہے کہ وہ ایمان لائے اس پر جو تمہاری طرف اترا اور اس پر جو تم سے پہلے اترا پھر چاہتے ہیں کہ شیطان کو اپنا پنچ بنائیں اور ان کو تو حکم یہ تھا کہ اسے اصلاً نہ مانیں اور ابلیس یہ چاہتا ہے کہ انہیں دور بہکاوے ( ف۱۷۰ )
اے نبی ! تم نے دیکھا نہیں ان لوگوں کو جو دعوٰی تو کرتے ہیں کہ ہم ایمان لائے ہیں اس کتاب پر جو تمہاری طرف نازل کی گئی ہے اور ان کتابوں پر جو تم سے پہلے نازل کی گئی تھیں مگر چاہتے یہ ہیں کہ اپنے معاملات کا فیصلہ کرانے کے لیے طاغوت کی طرف رجوع کریں ، حالانکہ انہیں طاغوت سے کفر کرنے کا حکم دیا گیا تھا ۔ 91 شیطان انہیں بھٹکا کر راہِ راست سے بہت دور لے جانا چاہتا ہے ۔
کیا آپ نے اِن ( منافقوں ) کو نہیں دیکھا جو ( زبان سے ) دعوٰی کرتے ہیں کہ وہ اس ( کتاب یعنی قرآن ) پر ایمان لائے جوآپ کی طرف اتارا گیا اور ان ( آسمانی کتابوں ) پر بھی جو آپ سے پہلے اتاری گئیں ( مگر ) چاہتے یہ ہیں کہ اپنے مقدمات ( فیصلے کے لئے ) شیطان ( یعنی احکامِ الٰہی سے سرکشی پر مبنی قانون ) کی طرف لے جائیں حالانکہ انہیں حکم دیا جا چکا ہے کہ اس کا ( کھلا ) انکار کر دیں ، اور شیطان تویہی چاہتا ہے کہ انہیں دور دراز گمراہی میں بھٹکاتا رہے
سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :91 یہاں صریح طور پر ”طاغوت“ سے مراد وہ حاکم ہے جو قانون الہٰی کے سوا کسی دوسرے قانون کے مطابق فیصلہ کرتا ہو ، اور وہ نظام عدالت ہے جو نہ تو اللہ کے اقتدار اعلیٰ کا مطیع ہو اور نہ اللہ کی کتاب کو آخرت سند مانتا ہو ۔ لہٰذا یہ آیت اس معنیٰ میں بالکل صاف ہے کہ جو عدالت”طاغوت“ کی حیثیت رکھتی ہو اس کے پاس اپنے معاملات فیصلہ کے لیے لے جانا ایمان کے منافی ہے اور خدا اور اس کی کتاب پر ایمان لانے کا لازمی اقتضا یہ ہے کہ آدمی ایسی عدالت کو جائز عدالت تسلیم کرنے سے انکار کر دے ۔ قرآن کی رو سے اللہ پر ایمان اور طاغوت سے کفر ، دونوں لازم و ملزوم ہیں ، اور خدا اور طاغوت دونوں کے آگے بیک وقت جھکنا عین منافقت ہے ۔
حسن سلوک اور دوغلے لوگ اوپر کی آیت میں اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کے دعوے کو جھٹلایا ہے جو زبانی تو اقرار کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی تمام اگلی کتابوں پر اور اس قرآن و حدیث کی طرف رجوع نہیں کرتے بلکہ کسی اور طرف لے جاتے ہیں ، چنانچہ یہ آیت ان دو شخصوں کے بارے میں نازل ہوئی جن میں کچھ اختلاف تھا ایک تو یہودی تھا دوسرا انصاری ، یہودی تو کہتا تھا کہ چل محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے فیصلہ کرالیں اور انصاری کہتا تھا کعب بن اشرف کے پاس چلو یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ آیت ان منافقوں کے بارے میں اتری ہے بظاہر مسلمان کہلاتے ہیں ان منافقوں کے بارے میں اتری ہے جو بھی مسلمان ہونے کا دعویٰ کرتے تھے لیکن درپردہ احکام جاہلیت کی طرف جھکنا چاہتے تھے ، اس کے سوا اور اقوال بھی ہیں ، آیت اپنے حکم اور الفاظ کے اعتبار سے عام ہے ان تمام واقعات پر مشتمل ہے ہر اس شخص کی مذمت اور برائی کا اظہار کرتی ہے جو کتاب و سنت سے ہٹ کر کسی اور باطل کی طرف اپنا فیصلہ لے جائے اور یہی مراد یہاں طاغوت سے ہے ( یعنی قرآن و حدیث کے سوا کی چیز یا شخص ) صدور سے مراد تکبر سے منہ موڑ لینا ، جیسے اور آیت میں ہے ( وَاِذَا قِيْلَ لَهُمُ اتَّبِعُوْا مَآ اَنْزَلَ اللّٰهُ قَالُوْا بَلْ نَتَّبِــعُ مَآ اَلْفَيْنَا عَلَيْهِ اٰبَاۗءَنَا ) 2 ۔ البقرۃ:170 ) یعنی جب ان سے کہا جائے کہ اللہ کی اتاری ہوئی وحی کی فرمانبرداری کرو تو جواب دیتے ہیں کہ ہم تو اپنے باپ دادا کی پیروی پر ہی اڑے رہیں گے ، ایمان والوں کو جواب یہ نہیں ہوتا بلکہ ان کا جواب دوسری آیت میں اس طرح مذکور ہے ( اِنَّمَا كَانَ قَوْلَ الْمُؤْمِنِيْنَ اِذَا دُعُوْٓا اِلَى اللّٰهِ وَرَسُوْلِهٖ لِيَحْكُمَ بَيْنَهُمْ اَنْ يَّقُوْلُوْا سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا ۭ وَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ ) 24 ۔ النور:51 ) یعنی ایمان والوں کو جب اللہ رسول کے فیصلے اور حکم کی طرف بلایا جائے تو ان کا جواب یہی ہوتا ہے کہ ہم نے سنا اور ہم نے تہ دل سے قبول کیا ، پھر منافقوں کی مذمت میں بیان ہو رہا ہے کہ ان کے گناہوں کے باعث جب تکلیفیں پہنچتی ہیں اور تیری ضرورت محسوس ہوتی ہے تو دوڑے بھاگے آتے ہیں اور تمہیں خوش کرنے کے لئے عذر معذرت کرنے بیٹھ جاتے ہیں اور قسمیں کھا کر اپنی نیکی اور صلاحیت کا یقین دلانا چاہتے ہیں اور کہتے ہیں کہ آپ کے سوا دوسروں کی طرف ان مقدمات کے لے جانے سے ہمارا مقصود صرف یہی تھا کہ ذرا دوسروں کا دل رکھا جائے آپس میں میل جول نبھ جائے ورنہ دل سے کچھ ہم ان کی اچھائی کے معتقد نہیں ، جیسے اور آیت میں ( فَتَرَى الَّذِيْنَ فِيْ قُلُوْبِهِمْ مَّرَضٌ يُّسَارِعُوْنَ فِيْهِمْ يَقُوْلُوْنَ نَخْشٰٓى اَنْ تُصِيْبَنَا دَاۗىِٕرَةٌ ۭفَعَسَى اللّٰهُ اَنْ يَّاْتِيَ بِالْفَتْحِ اَوْ اَمْرٍ مِّنْ عِنْدِهٖ فَيُصْبِحُوْا عَلٰي مَآ اَ سَرُّوْا فِيْٓ اَنْفُسِهِمْ نٰدِمِيْنَ ) 5 ۔ المائدہ:52 ) تک بیان ہوا ہے ، یعنی تو دیکھے گا کہ بیمار دل یعنی منافق یہود و نصاریٰ کی باہم دوستی کی تمام تر کوششیں کرتے پھرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمیں ان سے اختلاف کی وجہ سے آفت میں پھنس جانے کا خطرہ ہے بہت ممکن ہے ان سے دوستی کے بعد اللہ تعالیٰ فتح دیں یا اپنا کوئی حکم نازل فرمائیں اور یہ لوگ ان ارادوں پر پشیمان ہونے لگیں جو ان کے دلوں میں پوشیدہ ہیں ، حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں ابو برزہ اسلمی ایک کاہن شخص تھا ، یہود اپنے بعض فیصلے اس سے کراتے تھے ایک واقعہ میں مشرکین بھی اس کی طرف دوڑے اس میں یہ آیتیں ( آیت الم تر سے ترفیقا ) تک نازل ہوئیں ، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اس قسم کے لوگ یعنی منافقین کے دلوں میں جو کچھ ہے؟ اس کا علم اللہ تعالیٰ کو کامل ہے اس پر کوئی چھوٹی سے چھوٹی چیز بھی مخفی نہیں وہ ان کے ظاہر وباطن کا اسے علم ہے تو ان سے چشم پوشی کر ان کے باطنی ارادوں پر ڈانٹ ڈپٹ نہ کر ہاں انہیں نفاق اور دوسروں سے شر و فساد وابستہ رہنے سے باز رہنے کی نصیحت کر اور دل میں اترنے والی باتیں ان سے کہ بلکہ ان کے لئے دعا بھی کر ۔