Surah

Information

Surah # 73 | Verses: 20 | Ruku: 2 | Sajdah: 0 | Chronological # 3 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Early Makkah phase (610 - 618 AD). Except 10, 11 and 20, from Madina
اِنَّ رَبَّكَ يَعۡلَمُ اَنَّكَ تَقُوۡمُ اَدۡنىٰ مِنۡ ثُلُثَىِ الَّيۡلِ وَ نِصۡفَهٗ وَثُلُثَهٗ وَطَآٮِٕفَةٌ مِّنَ الَّذِيۡنَ مَعَكَ‌ؕ وَاللّٰهُ يُقَدِّرُ الَّيۡلَ وَالنَّهَارَ‌ؕ عَلِمَ اَنۡ لَّنۡ تُحۡصُوۡهُ فَتَابَ عَلَيۡكُمۡ‌ فَاقۡرَءُوۡا مَا تَيَسَّرَ مِنَ الۡقُرۡاٰنِ‌ؕ عَلِمَ اَنۡ سَيَكُوۡنُ مِنۡكُمۡ مَّرۡضٰى‌ۙ وَاٰخَرُوۡنَ يَضۡرِبُوۡنَ فِى الۡاَرۡضِ يَبۡتَغُوۡنَ مِنۡ فَضۡلِ اللّٰهِ‌ۙ وَاٰخَرُوۡنَ يُقَاتِلُوۡنَ فِىۡ سَبِيۡلِ اللّٰهِ ۖ فَاقۡرَءُوۡا مَا تَيَسَّرَ مِنۡهُ‌ ۙ وَاَقِيۡمُوا الصَّلٰوةَ وَاٰتُوا الزَّكٰوةَ وَاَقۡرِضُوا اللّٰهَ قَرۡضًا حَسَنًا‌ ؕ وَمَا تُقَدِّمُوۡا لِاَنۡفُسِكُمۡ مِّنۡ خَيۡرٍ تَجِدُوۡهُ عِنۡدَ اللّٰهِ هُوَ خَيۡرًا وَّاَعۡظَمَ اَجۡرًا‌ ؕ وَاسۡتَغۡفِرُوا اللّٰهَ ‌ؕ اِنَّ اللّٰهَ غَفُوۡرٌ رَّحِيۡمٌ‏ ﴿20﴾
آپ کا رب بخوبی جانتا ہے کہ آپ اور آپ کے ساتھ کے لوگوں کی ایک جماعت قریب دو تہائی رات کے اور آدھی رات کے اور ایک تہائی رات کے تہجد پڑھتی ہے اور رات دن کا پورا اندازہ اللہ تعالٰی کو ہی ہے ، وہ ( خوب ) جانتا ہے کہ تم اسے ہرگز نہ نبھا سکو گے پس اس نے تم پر مہربانی کی لہذا جتنا قرآن پڑھنا تمہارے لیے آسان ہو اتنا ہی پڑھو وہ جانتا ہے کہ تم میں بعض بیمار بھی ہوں گے بعض دوسرے زمین میں چل پھر کر اللہ تعالٰی کا فضل ( یعنی روزی بھی ) تلاش کریں گے اور کچھ لوگ اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد بھی کریں گے سو تم بہ آسانی جتنا قرآن پڑھ سکو پڑھو اور نماز کی پابندی رکھو اور زکوۃ دیتے رہا کرو اور اللہ تعالٰی کو اچھا قرض دو اور جو نیکی تم اپنے لیے آگے بھیجو گے اسے اللہ تعالٰی کے ہاں بہتر سے بہتر اور ثواب میں بہت زیادہ پاؤ گے اللہ تعالٰی سے معافی مانگتے رہو یقیناً اللہ تعالٰی بخشنے والا مہربان ہے ۔
ان ربك يعلم انك تقوم ادنى من ثلثي اليل و نصفه و ثلثه و طاىفة من الذين معك و الله يقدر اليل و النهار علم ان لن تحصوه فتاب عليكم فاقرءوا ما تيسر من القران علم ان سيكون منكم مرضى و اخرون يضربون في الارض يبتغون من فضل الله و اخرون يقاتلون في سبيل الله فاقرءوا ما تيسر منه و اقيموا الصلوة و اتوا الزكوة و اقرضوا الله قرضا حسنا و ما تقدموا لانفسكم من خير تجدوه عند الله هو خيرا و اعظم اجرا و استغفروا الله ان الله غفور رحيم
Indeed, your Lord knows, [O Muhammad], that you stand [in prayer] almost two thirds of the night or half of it or a third of it, and [so do] a group of those with you. And Allah determines [the extent of] the night and the day. He has known that you [Muslims] will not be able to do it and has turned to you in forgiveness, so recite what is easy [for you] of the Qur'an. He has known that there will be among you those who are ill and others traveling throughout the land seeking [something] of the bounty of Allah and others fighting for the cause of Allah . So recite what is easy from it and establish prayer and give zakah and loan Allah a goodly loan. And whatever good you put forward for yourselves - you will find it with Allah . It is better and greater in reward. And seek forgiveness of Allah . Indeed, Allah is Forgiving and Merciful.
Apka rab bakhobi janta hay ka yap aur aap kay sath kay logon ki ik jamat qareeb do tahai rat kay aur adhi rat kay aur ik tahai rat kay tahajud parhti hay aur rat din ka pora andaza Allah Talaa ko hi hay.wo ( khob ) janta hay kay tum is say hergiz na nibha sako gay pus isnay tum per meharbani ki lyhaza jitna qyran parhna tumhary liye asan ho itna hi parho wo janta hay kay tum mein baaz bimar bhi hongay baaz dosray zameen mein chal phir ker Allah Talah ka fazal ( yani rozi bhi ) talash kerein gay aur kuch log Allah talah ki rah mein jahad bhi kerein gay so tum basani jitna quran parh sako parho aur namaz ki pabandi rakho. Aur zakat dytay raha kero aur Allah Talah ko acha qarz do aur jo neki tum apney liye agay bhyjo gay ussy Allah talah kay han bhyter say bhyter aur sawab mein bohat ziyada pao gay ALLAH TALAH say moafi mangtay raho yaqeenan AllahTalah bakhshney wala meharban hy
################
بیشک تمہارا رب جانتا ہے کہ تم قیام کرتے ہو کبھی دو تہائی رات کے قریب ، کبھی آدمی رات ، کبھی تہائی اور ایک جماعت تمہارے ساتھ والی ( ف۲۸ ) اور اللہ رات اور دن کا اندازہ فرماتا ہے ، اسے معلوم ہے کہ اے مسلمانو! تم سے رات کا شمار نہ ہوسکے گا ( ف۲۹ ) تو اس نے اپنی مہر سے تم پر رجوع فرمائی اب قرآن میں سے جتنا تم پر آسان ہو اتنا پڑھو ( ف۳۰ ) اسے معلوم ہے کہ عنقریب کچھ تم میں سے بیمار ہوں گے اور کچھ زمین میں سفر کریں گے اللہ کا فضل تلاش کرنے ( ف۳۱ ) اور کچھ اللہ کی راہ میں لڑتے ہوں گے ( ف۳۲ ) تو جتنا قرآن میسر ہو پڑھو ( ف۳۳ ) اور نماز قائم رکھو ( ف۳٤ ) اور زکوٰة دو اور اللہ کو اچھا قرض دو ( ف۳۵ ) اور اپنے لیے جو بھلائی آگے بھیجو گے اسے اللہ کے پاس بہتر اور بڑے ثواب کی پاؤ گے ، اور اللہ سے بخشش مانگو ، بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے ،
اے نبی ( صلی اللہ علیہ وسلم ) 18 ، تمہارا رب جانتا ہے کہ تم کبھی دو تہائی رات کے قریب اور کبھی آدھی رات اور کبھی ایک تہائی رات عبادت میں کھڑے رہتے ہو19 ، اور تمہارے ساتھیوں میں سے بھی ایک گروہ یہ عمل کرتا ہے20 ۔ اللہ ہی رات اور دن کے اوقات کا حساب رکھتا ہے ، اسے معلوم ہے کہ تم لوگ اوقات کا ٹھیک شمار نہیں کر سکتے ، لہذا اس نے تم پر مہربانی فرمائی ، اب جتنا قرآن آسانی سے پڑھ سکتے ہو پڑھ لیا کرو21 ۔ اسے معلوم ہے کہ تم میں کچھ مریض ہوں گے ، کچھ دوسرے لوگ اللہ کے فضل کی تلاش میں سفر کرتے ہیں22 ، اور کچھ اور لوگ اللہ کی راہ میں جنگ کرتے ہیں23 ۔ پس جتنا قرآن بآسانی پڑھا جاسکے پڑھ لیا کرو ، نماز قائم کرو ، زکوة دو24 اور اللہ کو اچھا قرض دیتے رہو25 ۔ جو کچھ بھلائی تم اپنے لیے آگے بھیجو گے اسے اللہ کے ہاں موجود پاؤ گے ، وہی زیادہ بہتر ہے اور اس کا اجر بہت بڑا ہے26 ۔ اللہ سے مغفرت مانگتے رہو ، بے شک اللہ بڑا غفور و رحیم ہے ۔ ؏۲
بے شک آپ کا رب جانتا ہے کہ آپ ( کبھی ) دو تہائی شب کے قریب اور ( کبھی ) نصف شب اور ( کبھی ) ایک تہائی شب ( نماز میں ) قیام کرتے ہیں ، اور اُن لوگوں کی ایک جماعت ( بھی ) جو آپ کے ساتھ ہیں ( قیام میں شریک ہوتی ہے ) ، اور اﷲ ہی رات اور دن ( کے گھٹنے اور بڑھنے ) کا صحیح اندازہ رکھتا ہے ، وہ جانتا ہے کہ تم ہرگز اُس کے اِحاطہ کی طاقت نہیں رکھتے ، سو اُس نے تم پر ( مشقت میں تخفیف کر کے ) معافی دے دی ، پس جتنا آسانی سے ہو سکے قرآن پڑھ لیا کرو ، وہ جانتا ہے کہ تم میں سے ( بعض لوگ ) بیمار ہوں گے اور ( بعض ) دوسرے لوگ زمین میں سفر کریں گے تاکہ اﷲ کا فضل تلاش کریں اور ( بعض ) دیگر اﷲ کی راہ میں جنگ کریں گے ، سو جتنا آسانی سے ہو سکے اُتنا ( ہی ) پڑھ لیا کرو ، اور نماز قائم رکھو اور زکوٰۃ دیتے رہو اور اﷲ کو قرضِ حسن دیا کرو ، اور جو بھلائی تم اپنے لئے آگے بھیجو گے اُسے اﷲ کے حضور بہتر اور اَجر میں بزرگ تر پا لوگے ، اور اﷲ سے بخشش طلب کرتے رہو ، اﷲ بہت بخشنے والا بے حد رحم فرمانے والا ہے
سورة الْمُزَّمِّل حاشیہ نمبر :18 یہ آیت جس کے اندر نماز تہجد کے حکم میں تخفیف کی گئی ہے ، اس کے بارے میں روایات مختلف ہیں ، حضرت عائشہ سے مسند احمد ، مسلم اور ابو داؤد میں یہ روایت منقول ہے کہ پہلے حکم کے بعد یہ دوسرا حکم ایک سال کے بعد نازل ہوا اور رات کا قیام فرض سے نفل کر دیا گیا ۔ دوسری روایت حضرت عائشہ ہی سے ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے یہ نقل کی ہے کہ یہ حکم پہلے حکم کے8 مہینہ بعد آیا تھا ، اور ایک تیسری روایت جو ابن ابی حاتم نے انہی سے نقل کی ہے اس میں سولہ مہینے کی مدت نقل کی ہے ۔ لیکن حضرت سعید بن جبیر کا بیان ہے کہ اس کا نزول دس سال بعد ہوا ہے ( ابن جریر و ابن ابی حاتم ) ہمارے نزدیک یہی قول زیادہ صحیح ہے ، اس لیے کہ پہلے رکوع کا مضمون صاف بتا رہا ہے کہ وہ مکہ معظمہ میں نازل ہوا ہے اور وہاں بھی اس کا نزول ابتدائی دور میں ہوا ہے جبکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا آغاز ہونے پر زیادہ سے زیادہ چار سال گزرے ہوں گے ۔ بخلاف اس کے یہ دوسرا رکوع اپنے مضامین کی صریح شہادت کے مطابق مدینہ کا نازل شدہ معلوم ہوتا ہے جب کفار سے جنگ کا سلسلہ شروع ہو چکا تھا اور زکوۃ کی فرضیت کا حکم بھی آ چکا تھا ۔ اس بنا پر لا محالہ ان دونوں رکوعوں کے زمانہ نزول میں کم از کم دس سال کا فاصلہ ہی ہونا چاہیے ۔ سورة الْمُزَّمِّل حاشیہ نمبر :19 اگرچہ ابتدائی حکم آدھی رات یا اس سے کچھ کم و بیش کھڑے رہنے کا تھا ، لیکن چونکہ نماز کی محویت میں وقت کا اندازہ نہ رہتا تھا ، اور گھڑیاں بھی موجود نہ تھیں کہ اوقات ٹھیک ٹھیک معلوم ہو سکیں ۔ اس لیے کبھی دو تہائی رات تک عبادت میں گزر جاتی اور کبھی یہ مدت گھٹ کر ایک تہائی رہ جاتی تھی ۔ سورة الْمُزَّمِّل حاشیہ نمبر :20 ابتدائی حکم میں صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کو خطاب کیا گیا تھا ۔ اور آپ ہی کو قیام لیل کی ہدایت فرمائی گئی تھی ، لیکن مسلمانوں میں اس وقت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اتباع اور نیکیاں کمانے کا جو غیر معمولی جذبہ پایا جاتا تھا اس کی بنا پر اکثر صحابہ کرام بھی اس نماز کا اہتمام کرتے تھے ۔ سورة الْمُزَّمِّل حاشیہ نمبر :21 چونکہ نماز میں طول زیادہ تر قرآن کی طویل قرات ہی سے ہوتا ہے ، اس لیے فرمایا تہجد کی نماز میں جتنا قرآن بسہولت پڑھ سکو پڑھ لیا کرو ، اس سے نماز کی طوالت میں آپ سے آپ تخفیف ہو جائے گی ۔ اس ارشاد کے الفاظ اگرچہ بظاہر حکم کے ہیں ، لیکن یہ امر متفق علیہ ہے کہ تہجد فرض نہیں ، بلکہ نفل ہے ، حدیث میں بھی صراحت ہے کہ ایک شخص کے پوچھنے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم پر دن رات میں پانچ وقت کی نمازیں فرض ہیں ۔ اس نے پوچھا ، کیا اس کے سوا بھی کوئی چیز مجھ پر لازم ہے؟ جواب میں ارشاد ہوا نہیں ، الا کہ تم ا پنی خوشی سے کچھ پڑھو ۔ ( بخاری و مسلم ) اس آیت سے ایک بات یہ بھی معلوم ہوئی کہ نماز میں جس طرح رکوع و سجود فرض ہے اسی طرح قرآن مجید کی قرات بھی فرض ہے ، کیونکہ اللہ تعالی نے جس طرح دوسرے مقامات پر رکوع یا سجود کے الفاظ استعمال کر کے نماز مراد لی ہے ، اسی طرح یہاں قرآن کی قرات کا ذکر کیا ہے اور مراد اس سے نماز میں قرآن پڑھنا ہے ۔ اس استنباط پر اگر کوئی شخص یہ اعتراض کرے کہ جب نماز تہجد خود نفل ہے تو اس میں قرآن پڑھنا کیسے فرض ہو سکتا ہے ، تو اس کا جواب یہ ہے کہ نفل نماز بھی جب آدمی پڑھے تو اس میں نماز کی تمام شرائط پوری کرنا اور اس کے تمام ارکان و فرائض ادا کرنا لازم ہوتا ہے ۔ کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکتا کہ نفل نماز کے لیے کپڑوں کی طہارت ، جسم کا پاک ہونا ، وضو کرنا ، اور ستر چھپانا واجب نہیں ہے اور اس میں قیام و قعود اور رکوع و سجود بھی نفل ہی ہیں ۔ سورة الْمُزَّمِّل حاشیہ نمبر :22 جائز اور حلال طریقوں سے رزق کمانے کے لیے سفر کرنے کو قرآن مجید میں جگہ جگہ اللہ کا فضل تلاش کرنے سے تعبیر کیا گیا ہے ۔ سورة الْمُزَّمِّل حاشیہ نمبر :23 یہاں اللہ تعالی نے پاک رزق کی تلاش اور جہاد فی سبیل اللہ کا ذکر جس طرح ایک ساتھ کیا ہے اور بیماری کی مجبوری کے علاوہ ان دونوں کاموں کو نماز تہجد سے معافی یا اس میں تخفیف کا سبب قرار دیا ہے ، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اسلام میں جائز طریقوں سے روزی کمانے کی کتنی بڑی فضیلت ہے ۔ حدیث میں حضرت عبداللہ بن مسعود کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ما من جالب یجلب طعاماً الی بلد من بلد ان المسلمین فیبیعہ لسعر یومہ الا کانت منزلتہ عند اللہ ثم قرا رسول اللہ صلی علیہ وسلم واخرون یضربون فی الارض ۔ ۔ ۔ جو شخص مسلمانوں کے کسی شہر میں غلہ لے کر آیا اور اس روز کے بھاؤ پر اسے بیچ دیا اس کو اللہ کا قرب نصیب ہو گا ، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی آیت پڑھی ( ابن مردویہ ) حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ فرمایا ما من حال یاتینی علیہ الموت بعد الجھاد فی سبیل اللہ احب الی من ان یاتینی و انا بین شعبتی جبل التمس من فضل اللہ و قرا ھذہ الایۃ جہاد فی سبیل اللہ کے بعد اگر کسی حالت میں جان دینا مجھے سب سے زیادہ محبوب ہے تو وہ یہ حالت ہے کہ میں اللہ کا فضل تلاش کرتے ہوئے کسی پہاڑی درے سے گزر رہا ہوں اور وہاں مجھ کو موت آ جائے ، پھر انہوں نے یہی آیت پڑھی ( بیہقی فی شعب الایمان ) ۔ سورة الْمُزَّمِّل حاشیہ نمبر :24 مفسرین کا اس پر اتفاق ہے کہ اس سے مراد پنج وقتہ فرض نماز اور فرض زکوۃ ادا کرنا ہے ۔ سورة الْمُزَّمِّل حاشیہ نمبر :25 ابن زید کہتے ہیں کہ اس سے مراد زکوۃ کے علاوہ اپنا مال خدا کی راہ میں صرف کرنا ہے ، خواہ وہ جہاد فی سبیل اللہ ہو ، یا بندگان خدا کی مدد ہو ، یا رفاہ عام ہو ، یا دوسرے بھلائی کے کام ۔ اللہ کو قرض دینے اور اچھا قرض دینے کے مطلب کی تشریح ہم اس سے پہلے معتدد مقامات پر کر چکے ہیں ۔ ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد ا ول ، البقرہ ، حاشیہ 267 ۔ المائدہ ، حاشیہ 33 ۔ جلد پنجم ، الحدید ، حاشیہ 16 ۔ سورة الْمُزَّمِّل حاشیہ نمبر :26 مطلب یہ ہے کہ تم نے آگے اپنی آخرت کے لیے جو کچھ بھیج دیا وہ تمہارے لیے اس سے زیادہ نافع ہے جو تم نے دنیا میں روک رکھا اور کسی بھلائی کے کام میں اللہ کی رضا کی خاطر خرچ نہ کیا ۔ حدیث میں حضرت عبداللہ بن مسعود کی روایت ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا ایکم مالہ احب الیہ من مال وارثہ؟ تم میں سے کون ہے جس کو اپنا مال اپنے وارث کے مال سے زیادہ محبوب ہے ؟ لوگوں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم میں سے کوئی بھی ایسا نہیں جسے اپنا مال اپنے وارث کے مال سے زیادہ محبوب نہ ہو ۔ فرمایا اعلموا ما تقولون ۔ سوچ لو کہ تم کیا کہہ رہے ہو ۔ لوگوں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارا حال واقعی یہی ہے ۔ اس پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: انما مال احدکم ما قدم و مال وارثہ ما اخر ۔ تمہارا اپنا مال تو وہ ہے جو تم نے اپنی آخرت کے لیے آگے بھیج دیا ۔ اور جو کچھ تم نے روک کر رکھا وہ تو وارث کا مال ہے ۔ ( بخاری ۔ نسائی ۔ مسند ابو یعلیٰ ) ۔