Surah

Information

Surah # 73 | Verses: 20 | Ruku: 2 | Sajdah: 0 | Chronological # 3 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Early Makkah phase (610 - 618 AD). Except 10, 11 and 20, from Madina
اِنَّ هٰذِهٖ تَذۡكِرَةٌ ‌ ۚ فَمَنۡ شَآءَ اتَّخَذَ اِلٰى رَبِّهٖ سَبِيۡلًا‏ ﴿19﴾
بیشک یہ نصیحت ہے پس جو چاہے اپنے رب کی طرف راہ اختیار کرے ۔
ان هذه تذكرة فمن شاء اتخذ الى ربه سبيلا
Indeed, this is a reminder, so whoever wills may take to his Lord a way.
Beshak yeh nasehat hay pus jo chahey apney rab ki taraf rah ikhtiyar keray
یہ ایک نصیحت کی بات ہے ۔ اب جو چاہے ، اپنے پروردگار کی طرف جانے والا راستہ اختیار کرلے ۔
بیشک یہ نصیحت ہے ، تو جو چاہے اپنے رب کی طرف راہ لے ( ف۲۷ )
یہ ایک نصیحت ہے ، اب جس کا جی چاہے اپنے رب کی طرف جانے کا راستہ اختیار کر لے ۔ ؏١
بے شک یہ ( قرآن ) نصیحت ہے ، پس جو شخص چاہے اپنے رب تک پہنچنے کا راستہ اِختیار کر لے
پیغام نصیحت و عبرت اور قیام الیل فرماتا ہے کہ یہ سورت عقل مندوں کے لئے سراسر نصیحت وعبرت ہے جو بھی طالب ہدایت ہو وہ مرضی مولا سے ہدایت کا راستہ پا لے گا اور اپنے رب کی طرف پہنچ جانے کا ذریعہ حاصل کر لے گا ، جیسے دوسری سورت میں فرمایا آیت ( وَمَا تَشَاۗءُوْنَ اِلَّآ اَنْ يَّشَاۗءَ اللّٰهُ ۭ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلِيْمًا حَكِيْمًا 30 ؀ڰ ) 76- الإنسان:30 ) تمہاری چاہت کام نہیں آتی وہی ہوتا ہے جو اللہ چاہے ۔ صحیح علم والا اور پوری حکمت والا اللہ تعالیٰ ہی ہے ، پھر فرماتا ہے کہ اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم آپ کا اور آپ کے اصحاب کی ایک جماعت کا کبھی دو تہائی رات تک قیام میں مشغول رہنا کبھی آدھی رات اسی میں گذرنا کبھی تہائی رات تک تہجد پڑھنا اللہ تعالیٰ کو بخوبی معلوم ہے گو تمہارا مقصد ٹھیک اس وقت کو پورا کرنا نہیں ہوتا اور ہے بھی وہ مشکل کام ، کیونکہ رات دن کا صحیح اندازہ اللہ ہی کو ہے کبھی دونوں برابر ہوتے ہیں کبھی رات چھوٹی دن بڑا ، کبھی دن چھوٹا رات بڑی ، اللہ جانتا ہے کہ اس کو بننے کی طاقت تم میں نہیں تو اب رات کی نماز اتنی ہی پڑھو جتنی تم با آسانی پڑھ سکو کوئی وقت مقرر نہیں کہ فرضاً اتنا وقت تو لگانا ہی ہوگا یہاں صلوۃ کی تعبیر قرأت سے کی ہے جیسے سورہ سبحن مین کی ہے آیت ( وَلَا تَجْـهَرْ بِصَلَاتِكَ وَلَا تُخَافِتْ بِهَا وَابْتَغِ بَيْنَ ذٰلِكَ سَبِيْلًا ١١٠؁ ) 17- الإسراء:110 ) نہ تو بہت بلند کر نہ بالکل پست کر ، امام ابو حنیفہ رحمتہ اللہ کے اصحاب نے اس آیت سے استدلال کر کے یہ مسئلہ لیا ہے کہ نماز میں سورہ فاتحہ ہی کا پڑھنا متعین نہیں اسے پڑھے خواہ اور کہیں سے پڑھ لے گو ایک ہی آیت پڑھے کافی ہے اور پھر اس مسئلہ کی مضبوطی اس حدیث سے کی ہے جس میں ہے کہ بہت جلدی جلدی نماز ادا کرنے والے کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا پھر پڑھ جو آسان ہو تیرے ساتھ قرآن سے ( بخاری و مسلم ) یہ مذہب جمہور کے خلاف ہے اور جمہور نے انہیں یہ جواب دیا ہے کہ بخاری و مسلم کی حضرت عبادہ بن صامت والی حدیث میں آ چکا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نماز نہیں ہے مگر یہ کہ تو سورہ فاتحہ پڑھے اور صحیح مسلم شریف میں بہ روایت حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہر وہ نماز جس میں سورہ فاتحہ نہ پڑھی جائے وہ بالکل ادھوری محض ناکارہ ناقص اور ناتمام ہے ، صحیح ابن خزیمہ میں بھی ان ہی کی روایت سے ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس شخص کی نماز نہیں ہوتی جو سورہ فاتحہ نہ پڑھے ( پس ٹھیک قول جمہور کا ہی ہے کہ ہر نماز کی ہر ایک رکعت میں سورہ فاتحہ کا پڑھنا لازمی اور متعین ہے ) پھر فرماتا ہے کہ اللہ کو معلوم ہے کہ اس امت میں عذر والے لوگ بھی ہیں جو قیام الیل کے ترک پر معذور ہیں ، مثلاً بیمار کہ جنہیں اس کی طاقت نہیں مسافر جو روزی کی تلاش میں ادھر ادھر جا رہے ہیں ، مجاہد جو اہم تر شغل میں مشغول ہیں ، یہ آیت بلکہ یہ پوری سورت مکی ہے مکہ شریف میں نازل ہوئی اس وقت جہاد فرض نہیں تھا بلکہ مسلمان نہایت پست حالت میں تھے پھر غیب کی یہ خبر دینا اور اسی طرح ظہور میں بھی آنا کہ مسلمانوں جہاد میں پوری طرح مشغول ہوئے یہ نبوت کی اعلیٰ اور بہترین دلیل ہے ۔ تو ان معذورات کے باعث تمہیں رخصت دی جاتی ہے کہ جتنا قیام تم سے با آسانی کیا جا سکے کر لیا کرو ، حضرت ابو رجاء محمد نے حسن رحمتہ اللہ علیہ سے پوچھا کہ اے ابو سعید اس شخص کے بارے میں آپ کیا فرماتے ہیں جو پورے قرآن کا حافظ ہے لیکن تہجد نہیں پڑھتا صرف فرض نماز پڑھتا ہے؟ آپ نے فرمایا اس نے قرآن کو تکیہ بنا لیا اس پر اللہ کی لعنت ہو ، اللہ تعالیٰ نے اپنے نیک غلام کے لئے فرمایا کہ وہ ہمارے علم کو جاننے والا ہے اور فرمایا تم وہ سکھائے گئے ہو جسے نہ تم جانتے تھے نہ تمہارے باپ دادا ، میں نے کہا ۔ ابو سعید اللہ تعالیٰ تو فرماتا ہے جو قرآن آسانی سے تم پڑھ سکو پڑھو ، فرمایا ہاں ٹھیک تو ہے پانچ آیتیں ہی پڑھ لو ، پس بہ ظاہر معلوم ہوتا ہے کہ حافظ قرآن کا رات کی نماز میں کچھ نہ کچھ قیام کرنا امام حسن بصری کے نزدیک حق و واجب تھا ، ایک حدیث بھی اس پر دلالت کرتی ہے جس میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے اس شخص کے بارے میں سوال ہوا جو صبح تک سویا رہتا ہے فرمایا یہ وہ شخص ہے جس کے کان میں شیطان پیشاب کر جاتا ہے اس کا تو ایک تو یہ مطلب بیان کیا گیا ہے کہ اس سے مراد وہ شخص ہے جو عشاء کے فرض بھی نہ پڑھے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ جو رات کو نفلی قیام نہ کرے ، سنن کی حدیث میں ہے اے قرآن والو وتر پڑھا کرو ، دوسری روایت میں ہے جو وتر نہیں پڑھے وہ ہم میں سے نہیں ، حسن بصری کے قول سے بھی زیادہ غریب قول ابو بکر بن عبدالعزیز حنبلی کا ہے جو کہتے ہیں کہ رمضان کے مہینے کا قیام فرض ہے واللہ اعلم ( یہ یاد رہے کہ صحیح مسلک یہی ہے کہ تہجد کی نماز نہ تو رمضان میں واجب ہے نہ غیر رمضان میں ۔ رمضان کی بابت بھی حدیث شریف میں صاف آچکا ہے وقیام لیلہ تطوعا یعنی اللہ نے اس کے قیام کو نفلی قرار دیا ہے وغیرہ واللہ اعلم ۔ مترجم ) طبرانی کی حدیث میں اس آیت کی تفسیر میں بہت مرفوعاً مروی ہے کہ گو سو ہی آیتیں ہوں ، لیکن یہ حدیث بہت غریب ہے صرف معجم طبرانی میں ہی میں نے اسے دیکھا ہے ۔ پھر ارشاد ہے کہ فرض نمازوں کی حفاظت کرو اور فرض زکوٰۃ کی ادائیگی کیا کرو ، یہ آیت ان حضرات کی دلیل ہے جو فرماتے ہیں فرضیت زکوٰۃ کا حکم مکہ شریف میں ہی نازل ہو چکا تھا ہاں کتنی نکالی جائی؟ نصاب کیا ہے؟ وغیرہ یہ سب مدینہ میں بیان ہوا واللہ اعلم ۔ حضرت ابن عباس عکرمہ مجاہد حسن قتادہ وغیرہ سلف کا فرمان ہے کہ اس آیت نے اس سے پہلے کے حکم رات کے قیام کو منسوخ کر دیا ان دونوں حکموں کے درمیان کس قدر مدت تھی؟ اس میں جو اختلاف ہے اس کا بیان اوپر گذر چکا ، بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص سے فرمایا پانچ نمازیں دن رات میں فرض ہیں اس نے پوچھا اس کے سوا بھی کوئی نماز مجھ پر فرض ہے؟ آپ نے فرمایا باقی سب نوافل ہیں ۔ پھر فرماتا ہے اللہ تعالیٰ کو اچھا قرض دو یعنی راہ اللہ صدقہ خیرات کرتے رہو جس پر اللہ تعالیٰ تمہیں بہت بہتر اور اعلیٰ اور پورا بدلہ دے گا ، جیسے اور جگہ ہے ایسا کون ہے کہ اللہ تعالیٰ کو قرض حسن دے اور اللہ اسے بہت کچھ بڑھائے چڑھائے ۔ تم جو بھی نیکیاں کر کے بھیجو گے وہ تمہارے لئے اس چیز سے جسے تم اپنے پیچھے چھوڑ کر جاؤ گے بہت ہی بہتر اور اجر و ثواب میں بہت ہی زیادہ ہے ، ابو یعلی موصلی کی روایت میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب سے ایک مرتبہ پوچھا تم میں سے ایسا کون ہے جسے اپنے وارث کا مال اپنے مال سے زیادہ محبوب ہو؟ لوگوں نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہم میں سے تو ایک بھی ایسا نہیں آپ نے فرمایا اور سوچ لو انہوں نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم یہی بات ہے فرمایا سنو تمہارا مال وہ ہے جسے تم راہ اللہ دے کر اپنے لئے آگے بھیج دو اور جو چھوڑ جاؤ گے وہ تمہارا مال نہیں وہ نہیں وہ تمہارا وارثوں کا مال ہے ، یہ حدیث بخاری شریف اور نسائی میں بھی مروی ہے ۔ پھر فرمان ہے کہ ذکر اللہ بکثرت کیا کرو اور اپنے تمام کاموں میں استغفار کیا کرو جو استغفار کرے وہ مغفرت حاصل کر لیتا ہے کیونکہ اللہ مغفرت کرنے والا اور مہربانیوں والا ہے ۔ الحمد اللہ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے سورہ مزمل کی تفسیر ختم ہوئی ۔