Surah

Information

Surah # 75 | Verses: 40 | Ruku: 2 | Sajdah: 0 | Chronological # 31 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD)
اَلَيۡسَ ذٰلِكَ بِقٰدِرٍ عَلٰٓى اَنۡ يُّحۡـىِۦَ الۡمَوۡتٰى‏ ﴿40﴾
کیا ( اللہ تعالیٰ ) اس ( امر ) پر قادر نہیں کہ مردے کو زندہ کر دے ۔
اليس ذلك بقدر على ان يحي الموتى
Is not that [Creator] Able to give life to the dead?
kiya ( Allah Talah ) iss ( amar ) per qadir nahi kay murday ko zinda kerday
کیا وہ اس بات پر قادر نہیں ہے کہ مردوں کو پھر سے زندہ کردے؟
کیا جس نے یہ کچھ کیا وہ مردے نہ جِلا سکے گا ،
کیا وہ اس پر قادر نہیں ہے کہ مرنے والوں کو پھر سے زندہ کردے25؟ ؏۲
تو کیا وہ اس بات پر قادر نہیں کہ مُردوں کو پھر سے زندہ کر دے
سورة الْقِیٰمَة حاشیہ نمبر :25 یہ حیات بعد موت کے امکان کی دلیل ہے ۔ جہاں تک ان لوگوں کا تعلق ہے جو یہ مانتے ہیں کہ ابتدائی نطفے سے تخلیق کا آغاز کر کے پورا انسان بنا دینے تک کا سارا فعل اللہ تعالی ہی کی قدرت اور حکمت کا کرشمہ ہے ان کے لیے تو فی الحقیقت اس دلیل کا کوئی جواب ہے ہی نہیں ، کیونکہ وہ خواہ کتنی ہی ڈھٹائی برتیں ، ان کی عقل یہ تسلیم کرنے سے انکار نہیں کر سکتی کہ جو خدا اس طرح انسان کو دنیا میں پیدا کر تا ہے وہ دوبارہ بھی اسی انسان کو وجود میں لے آنے پر قادر ہے ۔ رہے وہ لوگ جو اس صریح حکیمانہ فعل کو محض اتفاقات کا نتیجہ قرار دیتے ہیں وہ اگر ہٹ دھرمی پر تلے ہوئے نہیں ہیں تو آخر ان کے پاس اس بات کی کیا توجیہ ہے کہ آغاز آفرینش سے آج تک دنیا کے ہر حصے اور قوم میں کس طرح ایک ہی نوعیت کے تخلیقی فعل کے نتیجے میں لڑکوں اور لڑکیوں کی پیدائش مسلسل اس تناسب سے ہوتی چلی جا رہی ہے کہ کہیں کسی زمانے میں بھی ایسا نہیں ہوا کہ کسی انسانی آبادی میں صرف لڑکے یا صرف لڑکیاں ہی پیدا ہوتی چلی جائیں اور آئندہ اس کی نسل چلنے کا کوئی امکان باقی نہ رہے؟ کیا یہ بھی اتفاقاً ہی ہوئے چلا جا رہا ہے؟ اتنا بڑا دعویٰ کرنے کے لیے آدمی کو کم از کم اتنا بے شرم ہونا چاہیے کہ وہ اٹھ کر بے تکلف ایک روز یہ دعویٰ کر بیٹھے کہ لندن اور نیویارک ، ماسکو اور پیکنگ اتفاقاً آپ سے آپ بن گئے ہیں ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد سوم ، الروم ، حواشی 27 تا 30 ۔ جلد چہارم ، الشوریٰ ، حاشیہ 77 ) ۔ متعدد روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب اس آیت کو پڑھتے تھے تو اللہ تعالی کے اس سوال کے جواب میں کبھی بلی ( کیوں نہیں ) ، کبھی سبحنک اللھم فبلی ( پاک ہے تیری ذات ، خداوندا ، کیوں نہیں ) اور کبھی سبحانک فبلی یا سبحانک و بلی فرمایا کرتے تھے ( ابن جریر ، ابن ابی حاتم ، ابو داؤود ) ۔ ابو داؤود میں حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تم سورہ تین میں آیت الیس اللہ باحکم الحاکمین ( کیا اللہ سب حاکموں سے بڑا حاکم نہیں ہے؟ ) پڑھو تو کہو بلی و انا علی ذلک من الشاھدین ( کیوں نہیں ، میں اس پر گواہی دینے والوں میں سے ہوں ) ۔ اور جب سورۃ قیامہ کی یہ آیت پڑھو تو کہو بلیٰ ، اور جب سورہ مرسلات کی آیت فبای حدیث بعدہ یومنون ( اس قرآن کے بعد یہ لوگ اور کس بات پر ایمان لائیں گے؟ ) پڑھو تو کہو امنا باللہ ( ہم اللہ پر ایمان لائے ) ۔ اسی مضمون کی روایات امام احمد ، ترمذی ، ابن المنذر ، ابن مردویہ ، بہیقی اور حاکم نے بھی نقل کی ہیں ۔