Surah

Information

Surah # 76 | Verses: 31 | Ruku: 2 | Sajdah: 0 | Chronological # 98 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD)
هَلۡ اَتٰى عَلَى الۡاِنۡسَانِ حِيۡنٌ مِّنَ الدَّهۡرِ لَمۡ يَكُنۡ شَيۡـًٔـا مَّذۡكُوۡرًا‏ ﴿1﴾
یقیناً گزرا ہے انسان پرایک وقت زمانے میں جب کہ یہ کوئی قابل ذکر چیز نہ تھا ۔
هل اتى على الانسان حين من الدهر لم يكن شيا مذكورا
Has there [not] come upon man a period of time when he was not a thing [even] mentioned?
Yaqeenan guzra hai insan per ik waqat zamanay mein jab kay yeh koi qabe e zikar chez na tha
انسان پر کبھی ایسا وقت آیا ہے کہ نہیں جب وہ کوئی قابل ذکر چیز نہیں تھا؟
بیشک آدمی پر ( ف۲ ) ایک وقت وہ گزرا کہ کہیں اس کا نام بھی نہ تھا ( ف۳ )
کیا انسان پر لامتناہی زمانے کا ایک وقت ایسا بھی گزرا ہے جب وہ کوئی قابل ذکر چیز نہ تھا1؟
بے شک انسان پر زمانے کا ایک ایسا وقت بھی گزر چکا ہے کہ وہ کوئی قابلِ ذِکر چیز ہی نہ تھا
سورة الدَّهْر حاشیہ نمبر :1 پہلا فقرہ ہے ھل اتی علی الانسان ۔ اکثر مفسرین و مترجمین نے یہاں ھل کو قد کے معنی میں لیا ہے ۔ اور وہ اس کے معنی یہ لیتے ہیں کہ بے شک یا بلا شبہ انسان پر ایسا ایک وقت آیا ہے ۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ لفظ ھل عربی زبان میں کیا کے معنی ہی میں استعمال ہوتا ہے ، اور اس سے مقصود ہر حال میں سوال ہی نہیں ہوتا بلکہ مختلف مواقع پر یہ بظاہر سوالیہ لفظ مختلف معنوں میں بولا جاتا ہے ۔ مثلاً کبھی تو ہم یہ معلوم کرنا چاہتے ہیں کہ فلاں واقعہ پیش آیا ہے یا نہیں اور کسی سے پوچھتے ہیں کیا یہ واقعہ پیش آیا ہے؟ کبھی ہمارا مقصود سوال کرنا نہیں ہوتا بلکہ کسی بات کا انکار کرنا ہوتا ہے اور یہ انکار ہم اس انداز میں کرتے ہیں کہ کیا یہ کام کوئی اور بھی کر سکتا ہے؟ کبھی ہم ایک شخص سے کسی بات کا اقرار کرانا چاہتے ہیں اور اس غرض کے لیے اس سے پوچھتے ہیں کہ کیا میں نے تمہاری رقم ادا کر دی ہے ؟ اور کبھی ہمارا مقصود محض اقرار ہی کرانا نہیں ہوتا بلکہ سوال ہم اس غرض کے لیے کرتے ہیں کہ مخاطب کے ذہن کو ایک اور بات سوچنے پر مجبور کر دیں جو لازماً اس کے اقرار سے بطور نتیجہ پیدا ہوتی ہے ۔ مثلاً ہم کسی سے پوچھتے ہیں کیا میں نے تمہارے ساتھ کوئی برائی کی ہے؟ اس سے مقصود صرف یہی نہیں ہوتا کہ وہ اس بات کا اقرار کرے کہ آپ نے اس کے ساتھ کوئی برائی نہیں کی ہے ، بلکہ اسے یہ سوچنے پر مجبور کرنا بھی مقصود ہوتا ہے کہ جس نے میرے ساتھ کوئی برائی نہیں کی ہے اس کے ساتھ میں برائی کرنے میں کہاں تک حق بجانب ہوں ۔ آیت زیر بحث میں سوالیہ فقرہ دراصل اسی آخری معنی میں ارشاد ہوا ہے ۔ اس سے مقصود انسان سے صرف یہی اقرار کرانا نہیں ہے کہ فی الواقع اس پر ایک وقت ایسا گزرا ہے ، بلکہ اسے یہ سوچنے پر مجبور کرنا بھی ہے کہ جس خدا نے اس کی تخلیق کا آغاز ایسی حقیر سی حالت سے کر کے اسے پورا انسان بنا کھڑا کیا وہ آخر اسے دوبارہ پیدا کرنے سے کیوں عاجز ہو گا ؟ دوسرا فقرہ ہے حین من الدھر ۔ دھر سے مراد وہ لامتناہی زمانہ ہے جس کی نہ ابتدا انسان کو معلوم ہے نہ انتہا ، اور حین سے مراد وہ خاص وقت ہے جو اس لا متناہی زمانے کے اندر کبھی پیش آیا ہو ۔ کلام کا مدعا یہ ہے کہ اس لا متناہی زمانے کے اندر ایک طویل مدت تو ایسی گزری ہے جب سرے سے نوع انسانی ہی موجود نہ تھی ۔ پھر اس میں ایک وقت ایسا آیا جب انسان نام کی ایک نوع کا آغاز کیا گیا ۔ اور اسی زمانے کے اندر ہر شخص پر ایک ایسا وقت آیا ہے جب اسے عدم سے وجود میں لانے کی ابتدا کی گئی ۔ تیسرا فقرہ ہے لم یکن شیئا مذکوراً ، یعنی اس وقت وہ کوئی قابل ذکر چیز نہ تھا ۔ اس کا ایک حصہ باپ کے نطفے میں ایک خورد بینی کیڑے کی شکل میں اور دوسرا حصہ ماں کے نطفے میں ایک خورد بینی بیضے کی شکل میں موجود تھا ۔ مدتہائے دراز تک تو انسان یہ بھی نہیں جانتا تھا کہ دراصل وہ اس کیڑے اور بیضے کے ملنے سے وجود میں آتا ہے ۔ اب طاقتور خورد بینوں سے ان دونوں کو دیکھ تو لیا گیا ہے لیکن اب بھی کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکتا کہ کتنا انسان باپ کے اس کیڑے میں اور کتنا ماں کے اس بیضے میں موجود ہوتاہے ۔ پھر استقرار حمل کے وقت ان دونوں کے ملنے سے جو ابتدائی خلیہ ( Cell ) وجود میں آتاہے وہ ایک ایسا ذرہ بے مقدار ہوتا ہے کہ بہت طاقتور خورد بین ہی سے نظر آ سکتا ہے کہ اس حقیر سی ابتداء سے نشوو نما پا کر کوئی انسان اگر بنے گا بھی تو وہ کس قد و قامت ، کس شکل و صورت ، کس قابلیت اور شخصیت کا انسان ہو گا ۔ یہی مطلب ہے اس ارشاد کا کہ اس وقت وہ کوئی قابل ذکر چیز نہ تھا اگرچہ انسان ہونے کی حیثیت سے اس کے و جود کا آغاز ہو گیا تھا ۔ سورة الدَّهْر حاشیہ نمبر :2 ایک مخلوط نطفے سے مراد یہ ہے کہ انسان کی پیدائش مرد اور عورت کے دو الگ الگ نطفوں سے نہیں ہوئی بلکہ دونوں نطفے مل کر جب ایک ہو گئے تب اس مرکب نطفے سے انسان پیدا ہوا ۔
اے انسان اپنے فرائض پہچان اللہ تعالیٰ بیان فرماتا ہے کہ اس نے انسان کو پیدا کیا حالانکہ اس سے پہلے ہوا پانی حقارت اور ضعف کی وجہ سے ایسی چیز نہ تھا کہ ذکر کیا جائے ، اسے مرد و عورت کے ملے جلے پانی سے پیدا کیا اور عجب عجب تبدیلیوں کے بعد یہ موجودہ شکل و صورت اور ہئیت پر آیا ، اسے ہم آزما رہے ہیں ، جیسے اور جگہ ہے آیت ( لِيَبْلُوَكُمْ اَيُّكُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا ۭوَهُوَ الْعَزِيْزُ الْغَفُوْرُ Ą۝ۙ ) 67- الملك:2 ) تاکہ وہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے اچھے عمل کرنے والا کون ہے؟ پس اس نے تمہیں کان اور آنکھیں عطا فرمائیں تاکہ اطاعت اور معصیت میں تمیز کر سکو ۔ ہم نے اسے راہ دکھا دی خوب واضح اور صاف کر کے اپنا سیدھا راستہ اس پر کھول دیا ، جیسے اور جگہ ہے آیت ( وَاَمَّا ثَمُوْدُ فَهَدَيْنٰهُمْ فَاسْتَــحَبُّوا الْعَمٰى عَلَي الْهُدٰى فَاَخَذَتْهُمْ صٰعِقَةُ الْعَذَابِ الْهُوْنِ بِمَا كَانُوْا يَكْسِبُوْنَ 17۝ۚ ) 41- فصلت:17 ) یعنی ثمودیوں کو ہم نے ہدایت کی لیکن انہوں نے اندھے پن کو ہدایت پر ترجیح دی اور جگہ ہے آیت ( وَهَدَيْنٰهُ النَّجْدَيْنِ 10۝ۚ ) 90- البلد:10 ) ہم نے انسان کو دونوں راہیں دکھا دیں ، یعنی بھلائی برائی کی ، اس آیت کی تفسیر میں مجاہد ابو صالح ضحاک اور سدی سے مروی ہے کہ اسے ہم نے راہ دکھائی یعنی ماں کے پیٹ سے باہر آنے کی ، لیکن یہ قول غریب ہے اور صحیح قول پہلا ہی ہے اور جمہور سے یہی منقول ہے شاکراً اور کفوراً کا نصب حال کی وجہ سے ذوالحال لا کی ضمیر ہے جو آیت ( اِنَّا هَدَيْنٰهُ السَّبِيْلَ اِمَّا شَاكِرًا وَّاِمَّا كَفُوْرًا Ǽ۝ ) 76- الإنسان:3 ) میں ہے ، یعنی وہ اس حالت میں یا تو شقی ہے یا سعید ہے ، جیسے صحیح مسلم کی حدیث میں ہے کہ ہر شخص صبح کے وقت اپنے نفس کی خریدوفروخت کرتا ہے یا تو اسے ہلاک کر دیتا ہے یا آزاد کرا لیتا ہے ، مسند احمد میں ہے کہ حضرت کعب بن عجرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے آپ نے فرمایا اللہ تجھے بیوقوفوں کی سرداری سے بچائے حضرت کعب نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہ کیا ہے؟ فرمایا وہ میرے بعد کے سردار ہوں گے جو میری سنتوں پر نہ عمل کریں گے نہ میرے طریقوں پر چلیں گے پس جو لوگ ان کی جھوٹ کی تصدیق کریں اور ان کے ظلم کی امداد کریں وہ نہ میرے ہیں اور نہ میں ان کا ہوں یاد رکھو وہ میرے حوض کوثر پر بھی نہیں آ سکتے اور جو ان کے جھوٹ کو سچا نہ کرے اور ان کے ظلموں میں ان کا مددگار نہ بنے وہ میرا ہے اور میں اس کا ہوں یہ لوگ میرے حوض کوثر پر مجھے ملیں گے اے کعب روزہ ڈھال ہے اور صدقہ خطاؤں کو مٹا دیتا ہے اور نماز قرب اللہ کا سبب ہے یا فرمایا کہ دلیل نجات ہے ۔ اے کعب وہ گوشت پوست جنت میں نہیں جا سکتا وہ حرام سے پلا ہو وہ تو جہنم میں ہی جانے کے قابل ہے ، اے کعب لوگ ہر صبح اپنے نفس کی خرید و فروخت کرتے ہیں کوئی تو اسے آزاد کرا لیتا ہے اور کوئی ہلاک کر گذرتا ہے ، سورہ روم کی آیت ( فِطْرَتَ اللّٰهِ الَّتِيْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا ۭ لَا تَبْدِيْلَ لِخَلْقِ اللّٰهِ ۭ ذٰلِكَ الدِّيْنُ الْـقَيِّمُ ڎ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُوْنَ 30؀ڎ ) 30- الروم:30 ) کی تفسیر میں حضرت جابر کی روایت سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان بھی گذر چکا ہے کہ ہر بچہ فطرت اسلام پر پیدا ہوتا ہے یہاں تک کہ زبان چلنے لگتی ہے پھر یا تو شکر گذار بنتا ہے یا ناشکرا ، مسند احمد کی اور حدیث میں ہے کہ جو نکلنے والا نکلتا ہے اس کے دروازے پر دو جھنڈے ہوتے ہیں ایک فرشتے کے ہاتھ میں دوسرا شیطان کے ہاتھ میں پس اگر وہ اس کام کے لئے نکلا جو اللہ کی مرضی کا ہے تو فرشتہ اپنا جھنڈا لئے ہوئے اس کے ساتھ ہو لیتا ہے اور یہ واپسی تک فرشتے کے جھنڈے تلے ہی رہتا ہے اور اگر اللہ کی ناراضگی کے کام کے لئے نکلا ہے تو شیطان اپنا جھنڈا لگائے اس کے ساتھ ہو لیتا ہے اور واپسی تک یہ شیطانی جھنڈے تلے رہتا ہے ۔