Surah

Information

Surah # 76 | Verses: 31 | Ruku: 2 | Sajdah: 0 | Chronological # 98 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD)
اِنَّا خَلَقۡنَا الۡاِنۡسَانَ مِنۡ نُّطۡفَةٍ اَمۡشَاجٍۖ نَّبۡتَلِيۡهِ فَجَعَلۡنٰهُ سَمِيۡعًۢا بَصِيۡرًا‏ ﴿2﴾
بیشک ہم نے انسان کو ملے جلے نطفے سے امتحان کے لئے پیدا کیا اور اس کو سنتا دیکھتا بنایا ۔
انا خلقنا الانسان من نطفة امشاج نبتليه فجعلنه سميعا بصيرا
Indeed, We created man from a sperm-drop mixture that We may try him; and We made him hearing and seeing.
Besahak hum ney insan ko milay julay nutfay say imtehan kay liye paida kiya aur uss ko sunta dekhta banaya
ہم نے انسان کو ایک ملے جلے نطفے سے اس طرح پیدا کیا ( ١ ) کہ اسے آزمائیں ۔ پھر اسے ایسا بنایا کہ وہ سنتا بھی ہے ، دیکھتا بھی ہے ۔
بیشک ہم نے آدمی کو کیا ملی ہوئی منی سے ( ف٤ ) کہ وہ اسے جانچیں ( ف۵ ) تو اسے سنتا دیکھتا کردیا ( ف٦ )
ہم نے انسان کو ایک مخلوط نطفے سے پیدا کیا2 تاکہ اس کا امتحان لیں3 اور اس غرض کے لیے ہم نے اسے سننے اور دیکھنے والا بنایا4 ۔
بے شک ہم نے انسان کو مخلوط نطفہ سے پیدا فرمایا جسے ہم ( تولّد تک ایک مرحلہ سے دوسرے مرحلہ کی طرف ) پلٹتے اور جانچتے رہتے ہیں ، پس ہم نے اسے ( ترتیب سے ) سننے والا ( پھر ) دیکھنے والا بنایا ہے
سورة الدَّهْر حاشیہ نمبر :3 یہ ہے دنیا میں انسان ، اور انسان کے لیے دنیا کی اصل حیثیت ۔ وہ درختوں اور جانوروں کی طرح نہیں ہے کہ اس کا مقصد تخلیق یہیں پورا ہو جائے اور قانون فطرت کے مطابق ایک مدت تک اپنے حصے کا کام کر کے وہ یہیں مرکر فنا ہو جائے ۔ نیز یہ دنیا اس کے لیے نہ دار العذاب ہے ، جیسا کہ راہب سمجھتے ہیں ، نہ دار الجزا ہے جیسا کہ تناسخ کے قائلین سمجھتے ہیں ، نہ چراگاہ اور تفرگاہ ہے ، جیسا کہ مادہ پرست سمجھتے ہیں اور نہ رزم گاہ ، جیسا کہ ڈارون اور مارکس کے پیرو سمجھتے ہیں ، بلکہ دراصل یہ اس کے لیے ایک امتحان گاہ ہے ۔ وہ جس چیز کو عمر سمجھتا ہے حقیقت میں وہ امتحان کا وقت ہے جو اسے یہاں دیا گیا ہے ۔ دنیا میں جو قوتیں اور صلاحتیں بھی اس کو دی گئی ہیں ، جن چیزوں پر بھی اس کو تصرف کے مواقع دیے گئے ہیں ، جن حیثیتوں میں بھی وہ یہاں کام کر رہا ہے اور جو تعلقات بھی اس کے اور دوسرے انسانوں کے درمیان ہیں ، وہ سب اصل میں امتحان کے بے شمار پرچے ہیں ، اور زندگی کے آخری سانس تک اس امتحان کا سلسلہ جاری ہے ۔ نتیجہ اس کا دنیا میں نہیں نکلنا ہے بلکہ آخرت میں اس کے تمام پرچوں کو جانچ کر یہ فیصلہ ہونا ہے کہ وہ کامیاب ہوا ہے یا ناکام ۔ اور اس کی کامیابی و ناکامی کا سارا انحصار اس پر ہے کہ اس نے اپنے آپ کو کیا سمجھتے ہوئے یہاں کام کیا ، اور کس طرح امتحان کے وہ پرچے کیے جو اسے یہاں دیے گئے تھے ۔ اگر اس نے اپنے آپ کو بے خدایا بہت سے خداؤوں کا بندہ سمجھا ، اور سارے پرچے یہ سمجھتے ہوئے کیے کہ آخرت میں اسے اپنے خالق کے سامنے کوئی جوابدہی نہیں کرنی ہے ، تو اس کا سارا کارنامہ زندگی غلط ہو گیا اور ا گر اس نے اپنے آپ کو خدائے واحد کا بندہ سمجھ کر اس طریقے پر کام کیا جو خدا کی مرضی کے مطابق ہو اور آخرت کی جوابدہی کو پیش نظر رکھا تو وہ امتحان میں کامیاب ہو گیا ۔ ( یہ مضمون قرآن مجید میں اس کثرت کے ساتھ اور ر اتنی تفصیلات کے ساتھ بیان کیا گیا ہے کہ ان سب مقامات کا حوالہ دینا یہاں مشکل ہے ۔ جو حضرات اسے پوری طرح سمجھنا چاہتے ہوں وہ تفہیم القرآن کی ہر جلد کے آخر میں فہرست موضوعات کے اندر لفظ آزمائش نکال کر وہ تمام مقامات دیکھ لیں جہاں قرآن میں مختلف پہلوؤں سے اس کی وضاحت کی گئی ہے ۔ قرآن کے سوا دنیا کی کوئی کتاب ایسی نہیں ہے جس میں یہ حقیقت اتنی وضاحت کے ساتھ بیان کی گئی ہو ) ۔ سورة الدَّهْر حاشیہ نمبر :4 اصل میں فرمایا گیا ہے ہم نے اسے سمیع و بصیر بنایا ۔ اس کا مفہوم صحیح طور پر ہوش گوش رکھنے والا بنایا سے ادا ہوتا ہے ، لیکن ہم نے ترجمے کی رعایت سے سمیع کے معنی سننے والا اور بصیر کے معنی دیکھنے والا کیے ہیں ۔ اگرچہ عربی زبان کے ان الفاظ کا لفظی ترجمہ یہی ہے مگر ہر عربی دان جانتا ہے کہ حیوان کے لیے سمیع اور بصیر کے الفاظ کبھی استعمال نہیں ہوتے ، حالانکہ وہ بھی سننے اور دیکھنے والا ہوتا ہے ۔ پس سننے اور دیکھنے سے مراد یہاں سماعت اور بینائی کی وہ قوتیں نہیں ہیں جو حیوانات کو بھی دی گئی ہیں ، بلکہ اس سے مراد وہ ذرائع ہیں جن سے انسان علم حاصل کرتا اور ر پھر اس سے نتائج اخذ کرتا ہے ۔ علاوہ بریں سماعت اور بصارت انسان کے ذرائع علم میں چونکہ سب سے زیادہ اہم ہیں اس لیے اختصار کے طور پر صرف انہی کا ذکر کیا گیا ہے ، ورنہ اصل مراد انسان کو وہ تمام حواس عطا کرنا ہے جن کے ذریعہ سے وہ معلومات حاصل کرتا ہے ۔ پھر انسان کو جو حواس دیے گئے ہیں وہ اپنی نوعیت میں ان حواس سے بالکل مختلف ہیں جو حیوانات کو دیئے گئے ہیں کیونکہ اس کے ہر حاسہ کے پیچھے ایک سوچنے والا دماغ موجود ہوتا ہے جو حواس کے ذریعہ سے آنے والی معلومات کو جمع کر کے اور ان کو ترتیب دے کر ان سے نتائج نکالتا ہے ، رائے قائم کرتا ہے اور پھر کچھ فیصلوں پر پہنچتا ہے جن پر اس کا رویہ زندگی مبنی ہوتا ہے ۔ لہذا یہ کہنے کے بعد کہ انسان کو پیدا کر کے ہم اس کا امتحان لینا چاہتے تھے یہ ارشاد فرمانا کہ اسی غرض کے لیے ہم نے اسے سمیع و بصیر بنایا ، دراصل یہ معنی رکھتا ہے کہ اللہ تعالی نے اسے علم اور عقل کی طاقتیں دیں تاکہ وہ ا متحان دینے کے قابل ہو سکے ۔ ظاہر ہے کہ اگر مقصود کلام یہ نہ ہو اور سمیع و بصیر بنانے کا مطلب محض سماعت و بینائی کی قوتیں رکھنے والا ہی ہو تو ایک اندھا اور بہرا آدمی تو پھر امتحان سے مستثنیٰ ہو جاتا ہے حالانکہ جب تک کوئی علم و عقل سے بالکل محروم نہ ہو ، امتحان سے اس کے مستثنیٰ ہونے کا کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا ۔