سورة الدَّهْر حاشیہ نمبر :11
اصل الفاظ ہیں علی حبہ ۔ اکثر مفسرین نے حبہ کی ضمیر کا مرجع کھانے کو قرار دیا ہے ، اور وہ اس کا مطلب یہ بیان کرتے ہیں کہ وہ کھانے کے محبوب اور دل پسند ہونے اور خود اس کے حاجت مند ہونے کے باوجود دوسروں کو کھلا دیتے ہیں ۔ ابن عباس اور مجاہد کہتے ہیں کہ اس کا مطلب ہے علی حب الاطعام ، یعنی غریبوں کو کھانا کھلانے کے شوق میں وہ ایسا کرتے ہیں ۔ اور حضرت فضیل بن عیاض اور ابو سلیمان الدارانی کہتے ہیں کہ اللہ تعالی کی محبت میں وہ یہ کام کرتے ہیں ۔ ہمارے نزدیک ہمارے نزدیک بعد کا یہ فقرہ کہ انما نطعمکم لوجہ اللہ ( ہم تو اللہ کی خوشنودی کی خاطر تمہیں کھلا رہے ہیں ) اسی معنی کی تائید کرتا ہے ۔
سورة الدَّهْر حاشیہ نمبر :12
قدیم زمانے میں دستور یہ تھا کہ قیدیوں کو ہتھکڑی اور بیڑیاں لگا کر روزانہ باہر نکالا جاتا تھا اور وہ سڑکوں پر یا محلوں میں بھیک مانگ کر پیٹ بھرتے تھے ۔ بعد میں اسلامی حکومت نے یہ طریقہ بند کیا ( کتاب الخراج ، امام ابو یوسف ، صفحہ 150 ۔ طبع 1382 ھ اس آیت میں قیدی سے مراد ہر وہ شخص ہے جو قید میں ہو ، خواہ کافر ہو یا مسلمان ، خواہ جنگی قیدی ہو ، یا کسی جرم میں قید کیا گیا ہو ، خواہ اسے قید کی حالت میں کھانا دیا جاتا ہو یا بھیک منگوائی جاتی ہو ، ہر حالت میں ایک بے بس آدمی کو جو اپنی روزی کے لیے خود کوئی کوشش نہ کر سکتا ہو ، کھانا کھلانا ایک بڑی نیکی کا کام ہے ۔
سورة الدَّهْر حاشیہ نمبر :13
اگرچہ بجائے خود کسی غریب کو کھانا کھلانا بھی ایک بہت بڑی نیکی ہے ، لیکن کسی حاجت مند کی دوسری حاجتیں پوری کرنا بھی ویسا ہی نیک کام ہے جیسا بھوکے کو کھانا کھلانا ۔ مثلاً کوئی کپڑے کا محتاج ہے ، یا کوئی بیمار ہے اور علاج کا محتاج ہے ، یا کوئی قرضدار ہے اور قرض خواہ اسے پریشان کر رہا ہے ، تو اس کی مدد کرنا کھانا کھلانے سے کم درجے کی نیکی نہیں ہے ۔ اس لیے اس آیت میں نیکی کی ایک خاص صورت کو اس کی اہمیت کے لحاظ سے بطور مثال پیش کیا گیا ہے ، ورنہ اصل مقصود حاجت مندوں کی مدد کرنا ہے ۔