Surah

Information

Surah # 76 | Verses: 31 | Ruku: 2 | Sajdah: 0 | Chronological # 98 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD)
فَاصۡبِرۡ لِحُكۡمِ رَبِّكَ وَلَا تُطِعۡ مِنۡهُمۡ اٰثِمًا اَوۡ كَفُوۡرًا‌ۚ‏ ﴿24﴾
پس تو اپنے رب کے حکم پر قائم رہ اور ان میں سے کسی گنہگار یا ناشکرے کا کہنا نہ مان ۔
فاصبر لحكم ربك و لا تطع منهم اثما او كفورا
So be patient for the decision of your Lord and do not obey from among them a sinner or ungrateful [disbeliever].
Pus to apney rab kay hokum per qaim rah aur in mein say kissi gunhagar ya na shukray ka kaha na maan
لہذا تم اپنے پروردگار کے حکم پر ثابت قدم رہو ، اور ان لوگوں میں سے کسی نافرمان یا کافر کی بات نہ مانو ۔
تو اپنے رب کے حکم پر صابر رہو ( ف٤۰ ) اور ان میں کسی گنہگار یا ناشکرے کی بات نہ سنو ( ف٤۱ )
لہذا تم اپنے رب کے حکم پر صبر کرو28 ، اور ان میں سے کسی بد عمل یا منکر حق کی بات نہ مانو29 ۔
سو آپ اپنے ربّ کے حکم کی خاطر صبر ( جاری ) رکھیں اور ان میں سے کسی کاذب و گنہگار یا کافر و ناشکرگزار کی بات پر کان نہ دھریں
سورة الدَّهْر حاشیہ نمبر :28 یعنی تمارے رب نے جس کار عظیم پر تمہیں مامور کیا ہے اس کی سختیوں اور مشکلات پر صبر کرو ، جو کچھ بھی تم پر گزر جائے اسے پا مردی کے ساتھ برداشت کرتے چلے جاؤ اور پائے ثبات میں لغزش نہ آنے دو ۔ سورة الدَّهْر حاشیہ نمبر :29 یعنی ان میں سے کسی سے دب کر دین حق کی تبلیغ سے باز نہ آؤ ، اور کسی بد عمل کی خاطر دین کی اخلاقی تعلیمات میں ، یا کسی منکر حق کی خاطر دین کے عقائد میں ذرہ برابر بھی ترمیم و تغیر کرنے کے لیے تیار نہ ہو ۔ جو کچھ حرام و ناجائز ہے اسے بر ملا حرام و ناجائز کہو ، خواہ کوئی بد کار کتنا ہی زور لگائے کہ تم اس کی مذمت میں ذرا سی نرمی ہی برت لو ۔ اور جو عقائد باطل ہیں انہیں کھلم کھلا باطل اور جو حق ہیں انہیں علانیہ حق کہو ، چاہے کفار تمہارا منہ بند کرنے ، یا اس معاملہ میں کچھ نرمی اختیار کر لینے کے لیے تم پر کتنا ہی دباؤ ڈالیں ۔ سورة الدَّهْر حاشیہ نمبر :30 قرآن کا قاعدہ ہے کہ جہاں بھی کفار کے مقابلہ میں صبر و ثبات کی تلقین کی گئی ہے وہاں اس کے معاً بعد اللہ کے ذکر اور نماز کا حکم دیا گیا ہے ، جس سے خود بخود یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ دین حق کی راہ میں دشمنان حق کی مزاحمتوں کا مقابلہ کرنے کے لیے جس طاقت کی ضرورت ہے وہ اسی چیز سے حاصل ہوتی ہے ، صبح وشام اللہ کا ذکر کرنے سے مراد ہمیشہ اللہ کو یاد کرنا بھی ہو سکتا ہے ، مگر جب اللہ کی یاد کا حکم اوقات کے تعین کے ساتھ دیا جائے تو پھر اس سے مراد نماز ہوتی ہے ۔ آیت میں سب سے پہلے فرمایا اذکر اسم ربک بکرۃ و اصیلا ۔ بکرہ عربی زبان میں صبح کو کہتے ہیں اصیل کا لفظ زوال کے وقت سے غروب تک کے لیے استعمال کیا جاتا ہے جس میں ظہر اور عصر کے اوقات آ جاتے ہیں ۔ پھر فرمایا و من الیل فاسجد لہ ۔ رات کا وقت غروب آفتاب کے بعد شروع ہو جاتا ہے ، اس لیے رات کو سجدہ کرنے کے حکم میں مغرب اور عشاء ، دونوں وقتوں کی نمازیں شامل ہو جاتی ہیں ۔ اس کے بعد یہ ارشاد کہ رات کے طویل اوقات میں اس کی تسبیح کرتے رہو ، نماز تہجد کی طرف صاف اشارہ کرتا ہے ۔ ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم ا لقرآن ، جلد دوم ، بنی اسرائیل حواشی 92 تا 97 ۔ جلد ششم ، المزمل ، حاشیہ 2 ) ۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ نماز کے یہی اوقات ابتدا سے اسلام میں تھے ، البتہ اوقات اور رکعتوں کے تعین کے ساتھ پنجوقتہ نماز کی فرضیت کا حکم معراج کے موقع پر دیا گیا ہے ۔