Surah

Information

Surah # 77 | Verses: 50 | Ruku: 2 | Sajdah: 0 | Chronological # 33 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 48, from Madina
اِنَّ الۡمُتَّقِيۡنَ فِىۡ ظِلٰلٍ وَّعُيُوۡنٍۙ‏ ﴿41﴾
بیشک پرہیزگار لوگ سایوں میں ہیں اور بہتے چشموں میں ۔
ان المتقين في ظلل و عيون
Indeed, the righteous will be among shades and springs
Beshak perhezgar log sayon mein hein aur meethay chashmon mein
جن لوگوں نے تقوی اختیار کیا ، وہ بیشک سایوں اور چشموں کے درمیان ہوں گے ۔
بیشک ڈر والے ( ف۳۰ ) سایوں اور چشموں میں ہیں ،
متقی22 لوگ آج سایوں اور چشموں میں ہیں
بیشک پرہیزگار ٹھنڈے سایوں اور چشموں میں ( عیش و راحت کے ساتھ ) ہوں گے
سورة الْمُرْسَلٰت حاشیہ نمبر :22 چونکہ یہ لفظ یہاں مکذبین ( جھٹلانے والوں ) کے مقابلہ میں استعمال ہوا ہے اس لیے متقیوں سے مراد اس جگہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے آخرت کو جھٹلانے سے پرہیز کیا اور اس کو مان کر دنیا میں یہ سمجھتے ہوئے زندگی بسر کی کہ ہمیں آخرت میں اپنے اقوال و افعال اور اپنے اخلاق و کردار کی جواب دہی کرنی ہو گی ۔
دنیا اور آخرت کے فائدوں کا موازنہ : اوپر چونکہ بدکاروں کی سزاؤں کا بیان ہوا تھا یہاں نیک کاروں کی جزا کا بیان ہو رہا ہے کہ جو لوگ متقی پرہیزگار تھے اللہ کے عبادت گزار تھے فرائض اور واجبات کے پابند تھے ۔ اللہ کی نافرمانیوں سے حرام کاریوں سے بچتے تھے وہ قیامت کے دن جنتوں میں ہوں گے ، جہاں قسم قسم کی نہریں چل رہی ہیں ۔ گنہگار سیاہ بدبو دار دھوئیں میں گھرے ہوئے ہوں گے اور یہ نیک کردار جنتوں کے گھنے ٹھنڈے اور پرکیف سایوں میں بہ آرام تمام لیٹے بیٹھے ہوں گے ۔ سامنے صاف شفاف چشمے اپنی پوری پوری روانی سے جاری ہیں ۔ قسم قسم کے پھل میوے اور ترکاریاں موجود ہیں ، جسے جب جی چاہے کھائیں ، نہ روک ٹوک ہے نہ کمی اور نقصان کا اندیشہ ہے ، نہ فنا ہونے اور ختم ہونے کا خطرہ ہے ، پھر حوصلہ بڑھانے اور دل میں خوشی کو دو بالا کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے بار بار فرمایا جاتا ہے کہ اے میرے پیارے بندو تم بہ خوشی اور بافراغت لذیذ پر کیف طعام خوب کھاؤ پیو ، ہم ہر نیک کار پرہیزگار مخلص انسان کو اسی طرح بھلا بدلہ اور نیک جزا دیتے ہیں ۔ ہاں جھٹلانے والوں کی تو آج بڑی خرابی ہے ان جھٹلانے والوں کو دھمکایا جاتا ہے کہ اچھا دنیا میں تو تم کچھ کھا پی لو ، برت برتالو ، فائدے اٹھالو ، عنقریب یہ نعمتیں بھی فنا ہو جائیں گی اور تم بھی موت کے گھاٹ اترو گے ۔ پھر تمہارا نتیجہ جہنم ہی ہے جس کا ذکر اوپر گذر چکا ہے ۔ تمہاری بد اعمالیوں اور سیہ کاریوں کی سزا ہمارے پاس تیار ہے کوئی مجرم ہماری نگاہ سے باہر نہیں ، قیامت کو ، ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ہماری وحی کو نہ ماننے والا اسے جھوٹا جاننے والا قیامت کے دن سخت نقصان میں اور پورے خسارے میں ہو گا ۔ اسی کی سخت خرابی ہو گی ۔ جیسے اور جگہ ارشد ہے آیت ( نُمَـتِّعُهُمْ قَلِيْلًا ثُمَّ نَضْطَرُّهُمْ اِلٰى عَذَابٍ غَلِيْظٍ 24؀ ) 31- لقمان:24 ) دنیا میں ہم انہیں تھوڑا سا فائدہ پہنچا دیں گے پھر تو ہم انہیں سخت عذاب کیطرف بےبس کر دیں گے اور جگہ فرمان ہے ( قُلْ اِنَّ الَّذِيْنَ يَفْتَرُوْنَ عَلَي اللّٰهِ الْكَذِبَ لَا يُفْلِحُوْنَ 69؀ ) 10- یونس:69 ) یعنی اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھنے والا کامیاب نہیں ہو سکتے ۔ دنیا میں یونہی سا فائدہ اٹھا لیں پھر ان کا لوٹنا تو ہماری ہی طرف ہے ، ہم انہیں ان کے کفر کی سزا میں سخت تر عذاب چکھائیں گے ۔ پھر فرمایا کہ ان نادان منکروں کو جب کہا جاتا ہے کہ آؤ اللہ کے سامنے جھک تو لو ، جماعت کے ساتھ نماز تو ادا کر لو تو ان سے یہ بھی نہیں ہو سکتا ، اس سے بھی جی چراتے ہیں بلکہ اسے حقارت سے دیکھتے ہیں اور تکبر کے ساتھ انکار کر دیتے ہیں ۔ ان کے لئے جو جھٹلانے میں عمریں گذار دیتے ہیں قیامت کے دن بڑی مصیبت ہو گی ۔ پھر فرمایا جب یہ لوگ اس پاک کلام مجید پر بھی ایمان نہیں لاتے تو پھر کس کلام کو مانیں گے؟ جیسے اور جگہ ہے ( فَبِاَيِّ حَدِيْثٍۢ بَعْدَ اللّٰهِ وَاٰيٰتِهٖ يُؤْمِنُوْنَ Č۝ ) 45- الجاثية:6 ) یعنی اللہ تعالیٰ پر اور اسکی آیتوں پر جب یہ ایمان نہ لائے تو اب کس بات پر ایمان لائیں گے؟ ابن ابی حاتم میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص اس سورت کی اس آیت کو پڑھے اسے اس کے جواب میں ( امنت باللہ وبما انزل ) کہنا چاہئے ۔ یعنی میں اللہ تعالیٰ پر اور اس کی اتاری ہوئی کتابوں پر ایمان لایا ۔ یہ حدیث سورہ قیامہ کی تفسیر میں بھی گذر چکی ہے ، سورہ والمرسلات کی تفسیر ختم ہوئی ۔ اللہ تعالیٰ کا ہزار ہزار شکر ہے کہ انتیسویں پارے کی تفسیر بھی پوری ہوئی ۔ یہ محض اسی کا فضل و کرم اور لطف و رحم ہے ۔ فالحمد للہ ۔