Surah

Information

Surah # 78 | Verses: 40 | Ruku: 2 | Sajdah: 0 | Chronological # 80 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Late Makkah phase (620 - 622 AD)
عَمَّ يَتَسَآءَلُوۡنَ‌ۚ‏ ﴿1﴾
یہ لوگ کس چیزکے بارے میں پوچھ گچھ کر رہے ہیں ۔
عم يتساءلون
About what are they asking one another?
Yeh log kis chez kay bary mein poch gach ker rahy hein
یہ ( کافر ) لوگ کس چیز کے بارے میں سوالات کر رہے ہیں؟
یہ ( ف۲ ) آپس میں کاہے کی پوچھ گچھ کررہے ہیں ( ف۳ )
یہ لوگ کس چیز کے بارے میں پوچھ رہے ہیں؟
یہ لوگ آپس میں کس ( چیز ) سے متعلق سوال کرتے ہیں
پہاڑیوں کی تنصیب ، زمین کی سختی اور نرمی دعوت فکر ہے جو مشرک اور کفار قیامت کے آنے کے منکر تھے اور بطور انکار کے آپس میں سوالات کیا کرتے تھے اور مرنے کے بعد جی اٹھنے پر تعجب کرتے تھے ان کے جواب میں اور قیامت کے قائم ہونے کی خبر میں اور اس کے دلائل میں پروردگار عالم فرماتا ہے کہ یہ لوگ آپس میں کس چیز کے بارے میں سوالات کر رہے ہیں؟ پھر خود فرماتا ہے کہ یہ قیامت کے قائم ہونے کی بابت سوالات کرتے ہیں جو بڑا بھاری دن ہے اور نہایت دل ہلا دینے والا امر ہے ۔ حضرت قتادہ اور ابن زید نے اس نبا عظیم ( بہت بڑی خبر ) سے مرنے کے بعد دوبارہ جی اٹھنا مراد لیا ہے ۔ مگر حضرت مجاہد سے یہ مروی ہے کہ اس سے مراد قرآن ہے ، لیکن بظاہر ٹھیک بات یہی ہے کہ اس سے مراد مرنے کے بعد جینا ہے جیسے کہ حضرت قتادہ اور حضرت ابن زید کا قول ہے ، پھر اس آیت ( الَّذِيْ هُمْ فِيْهِ مُخْـتَلِفُوْنَ Ǽ۝ۭ ) 78- النبأ:3 ) جس میں یہ لوگ آپس میں اختلاف رکھتے ہیں میں جس اختلاف کا ذکر ہے وہ یہ ہے کہ لوگ اس کے بارے میں مختلف محاذوں پر ہیں ان کا اختلاف یہ تھا کہ مومن تو مانتے تھے کہ قیامت ہو گی لیکن کفار اس کے منکر تھے ، پھر ان منکروں کو اللہ تعالیٰ دھمکاتا ہے کہ تمہیں عنقریب اس کا علم حاصل ہو جائے گا اور تم ابھی ابھی معلوم کر لو گے ، اس میں سخت ڈانٹ ڈپٹ ہے ، پھر اللہ تعالیٰ اپنی قدرت کی عجیب و غریب نشانیاں بیان فرما رہا ہے جن سے قیامت کے قائم کرنے پر اس کی قدرت کا ہونا صاف طور پر ظاہر ہو رہا ہے کہ جب وہ اس تمام موجودات کو اول مرتبہ پیدا کرنے پر قادر ہے تو فنا کے بعد دوبارہ ان کا پیدا کرنا اس پر کیا مشکل ہو گا ؟ تو فرماتا ہے دیکھو کیا ہم نے زمین کو لوگوں کے لئے فرش نہیں بنایا کہ وہ بچھی ہوئی ہے ، ٹھہری ہوئی ہے حرکت نہیں کرتی تمہاری فرماں بردار ہے اور مضبوطی کے ساتھ جمی ہوئی ہے اور پہاڑوں کی میخیں بنا کر زمین میں ہم نے گاڑ دیا ہے ، تاکہ نہ وہ ہل سکے ، نہ اپنے اوپر کی چیزوں کو ہلا سکے ، زمین اور پہاڑوں کی پیدائش پر ایک نظر ڈال کر پھر تم اپنے آپ کو دیکھو کہ ہم نے تمہیں جوڑا جوڑا پیدا کیا یعنی مرد و عورت کو آپس میں ایک دوسرے سے نفع اٹھاتے ہو اور توالد تناسل ہوتا ہے بال بچے پیدا ہو رہے ہیں جیسے اور جگہ فرمایا ہے آیت ( وَمِنْ اٰيٰتِهٖٓ اَنْ خَلَقَ لَكُمْ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ اَزْوَاجًا لِّتَسْكُنُوْٓا اِلَيْهَا وَجَعَلَ بَيْنَكُمْ مَّوَدَّةً وَّرَحْمَةً ۭ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّــقَوْمٍ يَّتَفَكَّرُوْنَ 21؀ ) 30- الروم:21 ) اللہ کی نشانیوں میں سے ایک یہ ہے کہ اس نے خود تم ہی میں سے تمہارے جوڑے پیدا کئے تاکہ تم ان سے سکون حاصل کرو اس نے اپنی مہربانی سے تم میں آپس میں محبت اور رحم ڈال دیا ، پھر فرماتا ہے ہم نے تمہاری نیند کو حرکت کے ختم ہونے کا سبب بنایا تاکہ آرام اور اطمینان حاصل کر لو ، اور دن بھر کی تھکان کسل اور ماندگی دور ہو جائے ، اسی معنی کی اور آیت سورہ فرقان میں بھی گزر چکی ہے ، رات کو ہم نے لباس بنایا کہ اس کا اندھیرا اور سیاہی سب لوگوں پر چھا جاتی ہے ، جیسے اور جگہ ارشاد فرمایا آیت ( وَالَّيْلِ اِذَا يَغْشٰى Ǻ۝ۙ ) 92- الليل:1 ) قسم ہے رات کی جبکہ وہ ڈھک لے ، عرب شاعر بھی اپنے شعروں میں رات کو لباس کہتے ہیں ، حضرت قتادہ نے فرمایا ہے کہ رات سکون کا باعث بن جاتی ہے اور برخلاف رات کے دن کو ہم نے روشن ، اجالے والا اور بغیر اندھیرے کے بنایا ہے ، تاکہ تم اپنا کام دھندا اس میں کر سکو جا آ سکو ۔ بیوپار ، تجارت ، لین دین کر سکو اور اپنی روزیاں حاصل کر سکو ، ہم نے جہاں تمہیں رہنے سہنے کو زمین بنا دی وہاں ہم نے تمہارے اوپر سات آسمان بنائے جو بڑے لمبے چوڑے مضبوط پختہ عمدہ اور زینت والے ہیں ، تم دیکھتے ہو کہ اس میں ہیروں کی طرح چمکتے ہوئے ستارے لگ رہے ہیں بعض چلتے پھرتے رہتے ہیں اور بعض ایک جگہ قائم ہیں ، پھر فرمایا ہم نے سورج کو چمکتا چراغ بنایا جو تمام جہان کو روشن کر دیتا ہے ہر چیز کو جگمگا دیتا ہے اور دنیا کو منور کر دیتا ہے اور دیکھو کہ ہم نے پانی کی بھری بدلیوں سے بکثرت پانی برسایا ، ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ہوائیں چلتی ہے ، ادھر سے ادھر بادلوں کو لے جاتی ہیں اور پھر ان بادلوں سے خوب بارش برستی ہے اور زمین کو سیراب کرتی ہے اور بھی بہت سے مفسرین نے یہی فرمایا ہے معصرات سے مراد بعض نے تو ہوا لی ہے اور بعض نے بادل جو ایک ایک قطرہ پانی برساتے رہتے ہیں ۔ مرأۃ معصرۃ عرب میں اس عورت کو کہتے ہیں جس کے حیض کا زمانہ بالکل قریب آ گیا ہو ، لیکن اب تک حیض جاری نہ ہوا ہو ، حضرت حسن اور قتادہ نے فرمایا معصرات سے مراد آسمان ہے ، لیکن یہ قول غریب ہے سب سے زیادہ ظاہر قول یہ ہے کہ مراد اس سے بادل ہیں جیسے اور جگہ ہے آیت ( اَللّٰهُ الَّذِيْ يُرْسِلُ الرِّيٰحَ فَتُثِيْرُ سَحَابًا 48؀ۚ ) 30- الروم:48 ) اللہ تعالیٰ ہواؤں کو بھیجتا ہے جو بادلوں کو ابھارتی ہیں اور انہیں پروردگار کی منشاء کے مطابق آسمان میں پھیلا دیتی ہیں اور انہیں وہ ٹکڑے ٹکڑے کر دیتا ہے پھر تو دیکھتا ہے کہ ان کے درمیان سے پانی نکلتا ہے ۔ ثجاجاً کے معنی خوب لگاتار بہنے کے ہیں جو بکثرت بہہ رہا ہو اور خوب برس رہا ہو ، ایک حدیث میں ہے افضل حج وہ ہے جس میں لبیک خوب پکاری جائے اور خون بکثرت بہایا جائے یعنی قربانیاں زیادہ کی جائیں اس حدیث میں بھی لفظ ثج ہے ، ایک اور حدیث میں ہے کہ استحاضہ کا مسئلہ پوچھنے والی ایک صحابیہ عورت سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم روئی کا پھایا رکھ لو ، اس نے کہا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم وہ تو بہت زیادہ ہے میں تو ہر وقت خون بکثرت بہاتی رہتی ہوں ، اس روایت میں بھی لفظ اثج ثجا ہے یعنی بےروک برابر خون آتا رہتا ہے ، تو یہاں اس آیت میں بھی مراد یہی ہے کہ ابر سے پانی کثرت سے مسلسل برستا ہی رہتا ہے ، واللہ اعلم ، پھر ہم اس پانی سے جو پاک ، صاف ، بابرکت ، نفع بخش ہے ، اناج اور دانے پیدا کرتے ہیں جو انسان حیوان سب کے کھانے میں آتے ہیں اور سبزیاں اگاتے ہیں جو ترو تازہ کھائی جاتی ہیں اور اناج کھلیان میں رکھا جاتا ہے پھر کھایا جاتا ہے اور باغات اس پانی سے پھلتے پھولتے ہیں اور قسم قسم کے ذائقوں ، رنگوں خوشبوؤں والے میوے اور پھل پھول ان سے پیدا ہوتے ہیں گو کہ زمین کے ایک ہی ٹکڑے پر وہ ملے جلے ہیں ۔ الفاقاً کے معنی جمع کے ہیں اور جگہ ہے آیت ( وَفِي الْاَرْضِ قِطَعٌ مُّتَجٰوِرٰتٌ وَّجَنّٰتٌ مِّنْ اَعْنَابٍ وَّزَرْعٌ وَّنَخِيْلٌ صِنْوَانٌ وَّغَيْرُ صِنْوَانٍ يُّسْقٰى بِمَاۗءٍ وَّاحِدٍ ۣ وَنُفَضِّلُ بَعْضَهَا عَلٰي بَعْضٍ فِي الْاُكُلِ ۭ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّقَوْمٍ يَّعْقِلُوْنَ Ć۝ ) 13- الرعد:4 ) زمین میں مختلف ٹکڑے ہیں جو آپس میں ملے جلے ہیں اور انگور کے درخت ، کھیتیاں ، کھجور کے درخت ، بعض شاخ دار ، بعض زیادہ شاخوں کے بغیر ، سب ایک ہی پانی سے سیراب کئے جاتے ہیں اور ہم ایک سے ایک بڑھ کر میوہ میں زیادہ کرتے ہیں یقینا عقل مندوں کے لئے اس میں نشانیاں ہیں ۔