Surah

Information

Surah # 4 | Verses: 176 | Ruku: 24 | Sajdah: 0 | Chronological # 92 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD)
اَفَلَا يَتَدَبَّرُوۡنَ الۡقُرۡاٰنَ‌ؕ وَلَوۡ كَانَ مِنۡ عِنۡدِ غَيۡرِ اللّٰهِ لَوَجَدُوۡا فِيۡهِ اخۡتِلَافًا كَثِيۡرًا‏ ﴿82﴾
کیا یہ لوگ قرآن میں غور نہیں کرتے؟ اگر یہ اللہ تعالٰی کے سوا کسی اور کی طرف سے ہوتا تو یقیناً اس میں بہت کچھ اختلاف پاتے
افلا يتدبرون القران و لو كان من عند غير الله لوجدوا فيه اختلافا كثيرا
Then do they not reflect upon the Qur'an? If it had been from [any] other than Allah , they would have found within it much contradiction.
Kiya yeh log quran mein ghor nahi kertay? Agar yeh Allah Taalaa kay siwa kissi aur ki taraf say hota to yaqeenan iss mein boht kuch ikhtilaf patay.
کیا یہ لوگ قرآن میں غور وفکر سے کام نہیں لیتے؟ اگر یہ اللہ کے سوا کسی اور کی طرف سے ہوتا تو وہ اس میں بکثرت اختلافات پاتے ۔ ( ٤٩ )
تو کیا غور نہیں کرتے قرآن میں ( ف۲۱۲ ) اور اگر وہ غیر خدا کے پاس سے ہوتا تو ضرور اس میں بہت اختلاف پاتے ( ف۲۱۳ )
کیا یہ لوگ قرآن پر غور نہیں کرتے؟ اگر یہ اللہ کے سوا کسی اور کی طرف سے ہوتا تو اس میں بہت کچھ اختلاف بیانی پائی جاتی ۔ 111
تو کیا وہ قرآن میں غور و فکر نہیں کرتے ، اور اگر یہ ( قرآن ) غیرِ خدا کی طرف سے ( آیا ) ہوتا تو یہ لوگ اس میں بہت سا اختلاف پاتے
سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :111 منافق اور ضعیف الایمان لوگوں کی جس روش پر اوپر کی آیتوں میں تنبیہہ کی گئی ہے اس کی بڑی اور اصلی وجہ یہ تھی کہ انہیں قرآن کے منجانب اللہ ہونے میں شک تھا ۔ انہیں یقین نہ آتا تھا کہ رسول پر واقعی وحی اترتی ہے اور یہ جو کچھ ہدایات آرہی ہیں ۔ اسی لیے ان کی منافقانہ روش پر ملامت کرنے کے بعد اب فرمایا جا رہا ہے کہ یہ لوگ قرآن پر غور ہی نہیں کرتے ورنہ یہ کلام تو خود شہادت دے رہا ہے کہ یہ خدا کے سوا کسی دوسرے کا کلام ہو نہیں سکتا ۔ کوئی انسان اس بات پر قادر نہیں ہے کہ سالہا سال تک وہ مختلف حالات میں ، مختلف مواقع پر ، مختلف مضامین پر تقریریں کرتا رہے اور اول سے آخر تک اس کی ساری تقریریں ایسا ہموار ، یک رنگ ، متناسب مجموعہ بن جائیں جس کا کوئی جز دوسرے جز سے متصادم نہ ہو ، جس میں تبدیلی رائے کا کہیں نشان تک نہ ملے ، جس میں متکلم کے نفس کی مختلف کیفیات اپنے مختلف رنگ نہ دکھائیں ، اور جس پر کبھی نظر ثانی تک کی ضرورت نہ پیش آئے ۔
کتاب اللہ میں اختلاف نہیں ہمارے دماغ میں فتور ہے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو حکم دیتا ہے کہ وہ قرآن کو غور و فکر تامل و تدبر سے پڑھیں اس سے تغافل نہ برتیں ، بےپرواہی نہ کریں اس کے مستحکم مضامین اس کے حکمت بھرے احکام اس کے فصیح و بلیغ الفاظ پر غور کریں ، ساتھ یہ خبر دیتا ہے کہ یہ پاک کتاب اختلاف ، اضطراب ، تعارض اور تضاد سے پاک ہے اس لئے کہ حکم و حمید اللہ کا کلام ہے وہ خود حق ہے اور اسی طرح اس کا کلام بھی سراسر حق ہے ، چنانچہ اور جگہ فرمایا ( اَفَلَا يَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَ اَمْ عَلٰي قُلُوْبٍ اَقْفَالُهَا ) 47 ۔ محمد:24 ) یہ لوگ کیوں قرآن میں غور و خوض نہیں کرتے؟ کیا ان کے دلوں پر سنگین قفل لگ گئے ہیں ، پھر فرماتا ہے اگر یہ قرآن اللہ کی طرف سے نازل شدہ نہ ہوتا جیسے کہ مشرکین اور منافقین کا زعم ہے یہ اگر یہ فی الحقیقت کسی کا اپنی طرف سے وضع کیا ہوا ہوتا یا کوئی اور اس کا کہنے والا ہوتا تو ضروری بات ًتھی کہ اس میں انسانی طبائع کے مطابق اختلاف ملتا ، یعنی ناممکن ہے کہ انسانی اضطراب و تضاد سے مبرا ہو لازماً یہ ہوتا کہ کہیں کچھ کہا جاتا اور کہیں کچھ اور یہاں ایک بات کہی تو آگے جا کر اس کے خلاف بھی کہہ گئے ۔ چنانچہ عالموں کا قول بیان کیا گیا ہے کہ وہ کہے ہیں ہم اس پر ایمان لائے یہ سب ہمارے رب کی طرف سے ہیں یعنی محکم اور متشابہ کو محکم کی طرف لوٹا دیتے ہیں اور ہدایت پالیتے ہیں اور جن کے دلوں میں کجی ہے بد نیتی ہے وہ محکم متشابہ کی طرف موڑ توڑ کر کے گمراہ ہو جاتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے پہلے صحیح مزاج والوں کی تعریف کی اور دوسری قسم کے لوگوں کی برائی بیان فرمائی عمرو بن شعیب سے مروی ہے عن ابیہ عن جدہ والی حدیث میں ہے کہ میں ہے کہ میں اور میرے بھائی ایک ایسی مجلس میں شامل ہوئے کہ اس کے مقابلہ میں سرخ اونٹوں کا مل جانا بھی اس کے پاسنگ برابر بھی قیمت نہیں رکھتا ہم دونوں نے دیکھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دروازے پر چند بزرگ صحابہ کھڑے ہوئے ہیں ہم ادب کے ساتھ ایک طرف بیٹھ گئے ان میں قرآن کریم کی کسی آیت کی بابت مذاکرہ ہو رہا تھاجس میں اختلافی مسائل بھی تھے آخر بات بڑھ گئی اور زور زور سے آپس میں بات چیت ہونے لگی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسے سن کر سخت غضبناک ہو کرباہر تشریف لائے چہرہ مبارک سرخ ہو رہا تھا ان پر مٹی ڈالتے ہوئے فرمانے لگے خاموش رہو تم سے اگلی امتیں اسی باعث تباہ و برباد ہو گئیں ، کہ انہوں نے اپنے انبیاء سے اختلاف کیا اور کتاب اللہ کی ایک آیت کو دوسری آیت کے خلاف سمجھایاد رکھو قرآن کی کوئی آیت دوسری آیت کے خلاف اسے جھٹلانے والی نہیں بلکہ قرآن کی ایک ایک آیت ایک دوسرے کی تصدیق کرتی ہے تم جسے جان لو عمل کرو جسے نہ معلوم کر سکو اس کے جاننے والے کے لئے چھوڑ دو ۔ دوسری آیت میں ہے کہ صحابہ تقدیر کے بارے میں مباحثہ کر رہے تھے ، راہی کہتے ہیں کہ کاش کہ میں اس مجلس میں نہ بیٹھتا ۔ حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں دوپہر کے وقت حاضر حضور ہوا تو بیٹھا ہی تھا کہ ایک آیت کے بارے میں دو شخصوں کے درمیان اختلاف ہوا ان کی آوازیں اونچی ہوئیں تو آپ نے فرمایا تم سے پہلی امتوں کی ہلاکت کا باعث صرف ان کا کتاب اللہ کا اختلاف کرنا ہی تھا ( مسند احمد ) ۔ پھر ان جلد باز لوگوں کو روکا جا رہا ہے جو کسی امن یا خوف کی خبر پاتے ہی بےتحقیق بات ادھر سے ادھر تک پہنچا دیتے ہیں حالانکہ ممکن ہے وہ بالکل ہی غلط ہو ، صحیح مسلم شریف میں ہے جو شخص کوئی بات بیان کرے اور وہ گمان کرتا ہو کہ یہ غلط ہے وہ بھی جھوٹوں میں کا ایک جھوٹا ہے ، یہاں پر ہم حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ والی روایت کا ذکر کرنا بھی مناسب سمجھتے ہیں کہ جب انہیں یہ خبری پہنچا کہ حضور علیہ السلام نے اپنی بیویوں کو طلاق دے دی تو آپ اپنے گھر سے چلے مسجد میں آئے یہاں بھی لوگوں کو یہی کہتے سنا تو بذات خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس پہنچے اور خود آپ سے دریافت کیا کہ کیا یہ سچ ہے؟ کہ آپ نے اپنی ازواج مطہرات کو طلاق دے دی؟ آپ نے فرمایا غلط ہے چنانچہ فاروق اعظم نے اللہ کی بڑائی بیان کی ۔ صحیح مسلم میں ہے کہ پھر مسجد کے دروازے پر کھڑے ہو کر بہ آواز بلند فرمایا لوگو رسول مقبول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی بیویوں کو طلاق نہیں دی ۔ اسی پر یہ آیت نازل ہوئی ۔ پس حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ وہ ہیں جنہوں نے اس معاملہ کی تحقیق کی ۔ علمی اصطلاح میں استنباط کہتے ہیں کسی چیز کو اس کے منبع اور مخزن سے نکالنا مثلاً جب کوئی شخص کسی کان کو کھود کر اس کے نیجے سے کوئی چیز نکالے تو عرب کہتے ہیں استنبط الرجل پھر فرماتا ہے اگر اللہ تعالیٰ کا فضل و رحم تم پر نہ ہوتا تو تم سب کے سب سوائے چند کامل ایمان والوں کے شیطان کے تابعدار بن جاتے ایسے موقعوں پر محاورۃ معنی ہوتے ہیں کہ تم کل کے کل شامل ہو چنانچہ عرب کے ایسے شعر بھی ہیں ۔