Surah

Information

Surah # 4 | Verses: 176 | Ruku: 24 | Sajdah: 0 | Chronological # 92 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD)
فَقَاتِلۡ فِىۡ سَبِيۡلِ اللّٰهِ‌ ۚ لَا تُكَلَّفُ اِلَّا نَـفۡسَكَ‌ وَحَرِّضِ الۡمُؤۡمِنِيۡنَ‌ ۚ عَسَے اللّٰهُ اَنۡ يَّكُفَّ بَاۡسَ الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا‌ ؕ وَاللّٰهُ اَشَدُّ بَاۡسًا وَّاَشَدُّ تَـنۡكِيۡلًا‏ ﴿84﴾
تُو اللہ تعالٰی کی راہ میں جہاد کرتا رہ تجھے صرف تیری ذات کی نسبت حکم دیا جاتا ہے ہاں ایمان والوں کو رغبت دلاتا رہ بہت ممکن ہے کہ اللہ تعالٰی کافروں کی جنگ کو روک دے اور اللہ تعالٰی سخت قوّت والا ہے اور سزا دینے میں بھی سخت ہے ۔
فقاتل في سبيل الله لا تكلف الا نفسك و حرض المؤمنين عسى الله ان يكف باس الذين كفروا و الله اشد باسا و اشد تنكيلا
So fight, [O Muhammad], in the cause of Allah ; you are not held responsible except for yourself. And encourage the believers [to join you] that perhaps Allah will restrain the [military] might of those who disbelieve. And Allah is greater in might and stronger in [exemplary] punishment.
Tu Allah Taalaa ki raah mein jihad kerta reh tujhay sirf teri zaat ki nisbat hukum diya jata hai haan eman walon ko raghbat dilata reh boht mumkin hai kay Allah Taalaa kafiron ki jang ko rok dey aur Allah Taalaa sakht qooat wala hai aur saza denay mein bhi sakht hai.
لہذا ( اے پیغمبر ) تم اللہ کے راستے میں جنگ کرو ، تم پر اپنے سوا کسی اور کی ذمہ داری نہیں ہے ۔ ہاں مومنوں کو ترغیب دیتے رہو ، کچھ بعید نہیں کہ اللہ کافروں کی جنگ کا زور توڑ دے ۔ اور اللہ کا زور سب سے زیادہ زبردست ہے اور اس کی سزا بڑی سخت ۔
تو اے محبوب اللہ کی راہ میں لڑو ( ۲۲٤ ) تم تکلیف نہ دیئے جاؤ گے مگر اپنے دم کی ( ف۲۲۵ ) اور مسلمانوں کو آمادہ کرو ( ف۲۲٦ ) قریب ہے کہ اللہ کافروں کی سختی روک دے ( ف۲۲۷ ) اور اللہ کی آنچ ( جنگی طاقت ) سب سے سخت تر ہے اور اس کا عذاب سب سے کڑا ( زبردست )
پس اے نبی! تم اللہ کی راہ میں لڑو ، تم اپنی ذات کے سوا کسی اور کے لیے ذمہ دار نہیں ہو ۔ البتہ اہل ایمان کو لڑنے کے لیے اکساؤ ، بعید نہیں کہ اللہ کافروں کا زور توڑ دے ، اللہ کا زور سب سے زیادہ زبردست اور اس کی سزا سب سے زیادہ سخت ہے ۔
پس ( اے محبوب! ) آپ اللہ کی راہ میں جہاد کیجئے ، آپ کو اپنی جان کے سوا ( کسی اور کے لئے ) ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جائے گا اور آپ مسلمانوں کو ( جہاد کے لئے ) اُبھاریں ، عجب نہیں کہ اللہ کافروں کا جنگی زور توڑ دے ، اور اللہ گرفت میں ( بھی ) بہت سخت ہے اور سزا دینے میں ( بھی ) بہت سخت
حکم جہاد امتحان ایمان ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حکم ہو رہا ہے کہ آپ تنہا اپنی ذات سے اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کریں چاہیے کوئی بھی آپ کا ساتھ نہ دے ، ابو اسحاق حضرت براء بن عازب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے دریافت فرماتے ہیں کہ ایک مسلمان اکیلا تنہا ہو اور دشمن ایک سو ہوں تو کیا وہ ان سے جہاد کرے؟ آپ نے فرمایا ہاں تو کہا پھر قرآن کی اس آیت سے تو ممانعت تاکید ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اپنے ہاتھوں آپ ہلاکت میں نہ پڑو تو حضرت براء نے فرمایا اللہ تعالیٰ اسی آیت میں اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے فرماتا ہے اللہ کی راہ میں لڑ تجھے فقط تیرے نفس کی تکلیف دی جاتی ہے اور حکم دیا جاتا ہے کہ مومنوں کو بھی اس سے مراد اللہ کی راہ میں خرچ کرنے سے رکنے والا ہے اور روایت میں ہے کہ جب یہ آیت ہلاکت اتری تو آپ نے صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا مجھے میرے رب نے جہاد کا حکم دیا ہے پس تم بھی جہاد کرو یہ حدیث غریب ہے ۔ پھر فرماتا ہے مومنوں کو دلیری دلا اور انہیں جہاد کی رغبت دلا ، چنانچہ بدر والے دن میدان جہاد میں مسلمانوں کی صفیں درست کرتے ہوئے حضور علیہ السلام نے فرمایا اٹھو اور بڑھو اس جنت کی طرف جس کی چوڑائی آسمان و زمین ہے ، جہاد کی ترغیب کی بہت سی حدیثیں ہیں ، بخاری میں ہے جو اللہ پر اور اس کے رسول پر ایمان لائے ، صلوۃ قائم کرے ، زکوٰۃ دیتا رہے ، رمضان کے روزے رکھے اللہ پر اس کا حق ہے کہ وہ اسے جنت میں داخل کرے اللہ کی راہ میں ہجرت کی ہو جہاں پیدا ہوا ہے وہیں ٹھہرا رہا ہو ، لوگوں نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیا لوگوں کو اس کی خوشخبری ہم نہ دے دیں؟ آپ نے فرمایا سنو جنت میں سو درجے ہیں جن میں سے ایک درجے میں اس قدر بلندی ہے جتنی زمین و آسمان میں اور یہ درجے اللہ نے ان کے لئے تیار کیے ہیں جو اس کی راہ میں جہاد کریں ۔ پس جب تم اللہ سے جنت مانگو تو جنت الفردوس طلب کرو وہ بہترین جنت ہے اور سب سے اعلیٰ ہے اس کے اوپر رحمٰن کا عرش ہے اور اسی سے جنت کی سب نہریں جاری ہوتی ہیں ، مسلم کی حدیث میں ہے جو شخص رب ہونے پر اسلام کے دین ہونے پر محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے رسول و نبی ہونے پر راضی ہو جائے اس کے لئے جنت واجب ہے حضرت ابو سعید اسے سن کر خوش ہو کر کہنے لگے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دوبارہ ارشاد ہو آپ نے دوبارہ اسی کو بیان فرما کر کہا ایک اور عمل ہے جس کے باعث اللہ تعالیٰ اپنے بندے کے سو درجے بلند کرتا ہے ایک درجے سے دوسرے درجے تک اتنی بلندی ہے جتنی آسان و زمین کے درمیان ہے پوچھا وہ عمل کیا ہے؟ فرمایا اللہ کی راہ میں جہاد ۔ ارشاد ہے جب آپ جہاد کے لئے تیار ہو جائیں گے مسلمان آپ کی تعلیم سے جہاد پر آمادہ ہو جائیں گے تو پھر اللہ کی مدد شامل حال ہو گی اللہ تعالیٰ کفر کی کمر توڑ دے گا کفار کی ہمت پست کر دے گا ان کے حوصلے ٹوٹ جائیں گے پھر کیا مجال کہ دنیا میں بھی انہیں مغلوب کرے اور یہیں انہیں عذاب بھی دے اسی طرح آخرت میں بھی اسی کو قدرت حاصل ہے ، جیسے اور آیت میں ہے ۔ ( وَلَوْ يَشَاۗءُ اللّٰهُ لَانْتَـصَرَ مِنْهُمْ وَلٰكِنْ لِّيَبْلُوَا۟ بَعْضَكُمْ بِبَعْـضٍ ) 47 ۔ محمد:4 ) اگر اللہ چاہے ان سے از خود بدلہ لے لے ، لیکن وہ ان کو اور تمہیں آزما رہا ہے ۔ جو شخص کسی امر خیر میں کوشش کرے تو اسے بھی اس خیر بھلائی کا ثواب ملے گا ، اور جو اس کے خلاف کوشش کرے اور بد نتیجہ برآمد کرے اس کی کوشش اور نیت کا اس پر بھی ویسا ہی بوجھ ہوگا ، نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں سفارش کرو اجر پاؤ گے اور اللہ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبان پر وہ جاری کرے گا جو چاہے ، یہ آیت ایک دوسرے کی سفارش کرنے کے بارے میں نازل ہوئی ہے ، اس مہربانی کو دیکھئے فرمایا محض شفاعت پر ہی اجر مل جائے گا خواہ اس سے کام بنے یا نہ بنے ، اللہ ہر چیز کا حافظ ہے ، ہر چیز پر حاضر ہے ، ہر چیز کا حساب لینے والا ہے ، ہر چیز پر قادر ہے ، ہر چیز کو دوام بخشنے والا ہے ، ہر ایک کو روزی دینے والا ہے ، ہر انسان کے اعمال کا اندازہ کرنے والا ہے ۔ سلام کہنے والے کو اس سے بہتر جواب دو : مسلمانو! جب تمہیں کوئی مسلمان سلام کرے تو اس کے سلام کے الفاظ سے بہتر الفاظ سے اس کا جواب دو ، یا کم سے کم انہی الفاظ کو دوہرا دو پس زیادتی مستحب ہے اور برابری فرض ہے ، ابن جریر میں ہے ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا السلام علیکم یا رسول اللہ آپ نے فرمایا وعلیک السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ پھر ایک صاحب آئے انہوں نے السلام علیک ورحمتہ اللہ وبرکاتہ آپ نے جواب میں فرمایا وعلیک تو اس نے کہا اے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فلاں اور فلاں نے آپ کو سلام کیا تو آپ نے جواب دیا کچھ زیادہ دعائیہ الفاظ کے ساتھ دیا جو مجھے نہیں دیا آپ نے فرمایا تم نے ہمارے لئے کچھ باقی ہی نہ چھوڑا اللہ کا فرمان ہے جب تم پر سلام کیا جائے تو تم اس سے اچھا جواب دو یا اسی کو لوٹا دو اس لئے ہم نے وہی الفاظ لوٹا دئیے یہ روایت ابن ابی حاتم میں بھی اسی طرح مروی ہے ، اسے ابو بکر مردویہ نے بھی روایت کیا مگر میں نے اسے مسند میں نہیں دیکھا واللہ اعلم اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ سلام کے کلمات میں سے زیادتی نہیں ، اگر ہوتی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس آخری صحابی کے جواب میں وہ لفظ کہہ دیتے ۔ مسند احمد میں ہے کہ ایک شخص حضور کے پاس آئے اور السلام علیکم یارسول اللہ کہہ کر بیٹھ گئے آپ نے جواب دیا اور فرمایا دس نیکیاں ملیں ، دوسرے آئے اور السلام علیکم ورحمتہ اللہ یا رسول اللہ کہہ کر بیٹھ گئے آپ نے فرمایا بیس نیکیاں ملیں ، پھر تیسرے صاحب آئے انہوں نے کہا السلام علیکم ورحمتہ وبرکاتہ آپ نے فرمایا تیس نیکیاں ملیں ، امام ترمذی اسے حسن غریب بتاتے ہیں ، حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس آیت کو عام لیتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ خلق اللہ میں سے جو کوئی سلام کرے گا اسے جواب دو گو وہ مجوسی ہو ، حضرت قتادہ فرماتے ہیں سلام کا اس سے بہتر جواب دینا تو مسمانوں کے لئے ہے اور اسی کو لوٹا دینا اہل ذمہ کے لئے ہے ، لیکن اس تفسیر میں ذرا اختلاف ہے جیسے کہ اوپر کی حدیث میں گزر چکا ہے مراد یہ ہے کہ اس کے سلام سے اچھا جواب دیں اور اگر مسلمان سلام کے سبھی الفاظ کہہ دے تو پھر جواب دینے والا انہی کو لوٹادے ، ذمی لوگوں کو خود کریں تو جواب میں اتنے ہی الفاظ کہدے ، بخاری و مسلم میں ہے جب کوئی یہودی تمہیں سلام کرے تو خیال رکھو یہ کہ دیتے ہیں السام علیک تو تم کہ دو و علیک صحیح مسلم میں ہے یہود و نصاری کو تم پہلے سلام نہ کرو اور جب راستے میں مڈ بھیڑ ہو جائے تو انہیں تنگی کی طرف مضطر کر ، امام حسن بصری رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں سلام نفل ہے اور جواب سلام فرض ہے اور علماء کرام کا فرمان بھی یہی ہے ، پس اگر جواب نہ دے گا تو گنہگار ہو گا اس لئے کہ جواب سلام کا اللہ کا حکم ہے اس کے بعد اللہ تعالیٰ اپنی توحید بیان فرماتا ہے اور الوہیت اور اپنا یکتا ہونا ظاہر کرتا ہے اور اس میں ضمنی مضامین بھی ہیں اسی لئے دوسرے جملے کو لام سے شروع کیا جو قسم کے جواب میں آتا ہے ، تو اگلا جملہ خبر ہے اور قسم بھی ہے کہ وہ عنقریب تمام مقدم و موخر کو میدان محشر میں جمع کرے گا اور وہاں ہر ایک کو اس کے عمل کا بدلہ دے گا ، اس اللہ سمیع بصیر سے زیادہ سچی بات والا اور کوئی نہیں ، اس کی خبر اس کا وعدہ اس کی وعید سب سچ ہے ، وہی معبود برحق ہے ، اس کے سوا کوئی مربی نہیں ۔