Surah

Information

Surah # 4 | Verses: 176 | Ruku: 24 | Sajdah: 0 | Chronological # 92 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD)
يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا ضَرَبۡتُمۡ فِىۡ سَبِيۡلِ اللّٰهِ فَتَبَـيَّـنُوۡا وَلَا تَقُوۡلُوۡا لِمَنۡ اَ لۡقٰٓى اِلَيۡكُمُ السَّلٰمَ لَسۡتَ مُؤۡمِنًا‌ ۚ تَبۡـتَـغُوۡنَ عَرَضَ الۡحَيٰوةِ الدُّنۡيَا فَعِنۡدَ اللّٰهِ مَغَانِمُ كَثِيۡرَةٌ‌ ؕ كَذٰلِكَ كُنۡتُمۡ مِّنۡ قَبۡلُ فَمَنَّ اللّٰهُ عَلَيۡكُمۡ فَتَبَـيَّـنُوۡا‌ ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ خَبِيۡرًا‏ ﴿94﴾
اے ایمان والو! جب تم اللہ کی راہ میں جا رہے ہو تو تحقیق کر لیا کرو اور جو تم سے سلام علیک کرے تم اسے یہ نہ کہہ دو کہ تو ایمان والا نہیں ۔ تم دنیاوی زندگی کے اسباب کی تلاش میں ہو تو اللہ تعالٰی کے پاس بہت سی غنیمتیں ہیں ، پہلے تم بھی ایسے ہی تھے ، پھر اللہ تعالٰی نے تم پر احسان کیا لہذا تم ضرور تحقیق اور تفتیش کر لیا کرو بیشک اللہ تعالٰی تمہارے اعمال سے باخبر ہے ۔
يايها الذين امنوا اذا ضربتم في سبيل الله فتبينوا و لا تقولوا لمن القى اليكم السلم لست مؤمنا تبتغون عرض الحيوة الدنيا فعند الله مغانم كثيرة كذلك كنتم من قبل فمن الله عليكم فتبينوا ان الله كان بما تعملون خبيرا
O you who have believed, when you go forth [to fight] in the cause of Allah , investigate; and do not say to one who gives you [a greeting of] peace "You are not a believer," aspiring for the goods of worldly life; for with Allah are many acquisitions. You [yourselves] were like that before; then Allah conferred His favor upon you, so investigate. Indeed Allah is ever, with what you do, Acquainted.
Aey eman walo! Jab tum Allah ki raah mein jaa rahey ho to tehqeeq ker liya kero aur jo tum say salam-alaik keray tum ussay yeh na kehdo kay tu eman wala nahi. Tum dunyawi zindagi kay asbaab ki talash mein ho to Allah Taalaa kay pass boht si ghanimaten hain. Pehlay tum bhi aisay hi thay phir Allah Taalaa ney tum per ehsan kiya lehaza tum zaroor tehqeeq-o-tafteesh ker liya kero be-shak Allah Taalaa tumahray aemaal say ba khabar hai.
اے ‌ایمان ‌والو ! جب تم اللہ کے راستے میں سفر کرو تو تحقیق سے کام لیا کرو ، اور جو شخص تم کو سلام کرے تو دنیوی زندگی کا سامان حاصل کرنے کی خواہش میں اس کو یہ نہ کہو کہ : تم مومن نہیں ہو ۔ ( ٥٩ ) کیونکہ اللہ کے پاس مال غنیمت کے بڑے ذخیرے ہیں ۔ تم بھی تو پہلے ایسے ہی تھے ۔ پھر اللہ نے تم پر فضل کیا ۔ ( ٦٠ ) لہذا تحقیق سے کام لو ، بیشک جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سب سے پوری طرح باخبر ہے ۔
اے ایمان والو! جب تم جہاد کو چلو تو تحقیق کرلو اور جو تمہیں سلام کرے اس سے یہ نہ کہو کہ تو مسلمان نہیں ( ف۲۵۷ ) تم جیتی دنیا کا اسباب چاہتے ہو تو اللہ کے پاس بہتری غنیمتیں ہیں پہلے تم بھی ایسے ہی تھے ( ف۲۵۹ ) پھر اللہ نے تم پر احسان کیا ( ف۲٦۰ ) تو تم پر تحقیق کرنا لازم ہے ( ف۲٦۱ ) بیشک اللہ کو تمہارے کاموں کی خبر ہے ،
اے لوگوں جو ایمان لائے ہو ، جب تم اللہ کی راہ میں جہاد کے لیے نکلو تو دوست دشمن میں تمیز کرو اور جو تمہاری طرف سلام سے تقدیم کرے اسے فوراً نہ کہدو کہ تو مومن نہیں ہے ۔ 126 اگر تم دنیوی فائدہ چاہتے ہو تو اللہ کے پاس تمہارے لیے بہت سے اموال غنیمت ہیں ۔ آخر اسی حالت میں تم خود بھی تو اس سے پہلے مبتلا رہ چکے ہو ، پھر اللہ نے تم پر احسان کیا ، 127 لہٰذا تحقیق سے کام لو ، جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے باخبر ہے ۔
اے ایمان والو! جب تم اللہ کی راہ میں ( جہاد کے لئے ) سفر پر نکلو تو تحقیق کر لیا کرو اور اس کو جو تمہیں سلام کرے یہ نہ کہو کہ تو مسلمان نہیں ہے ، تم ( ایک مسلمان کو کافر کہہ کر مارنے کے بعد مالِ غنیمت کی صورت میں ) دنیوی زندگی کا سامان تلاش کرتے ہو تو ( یقین کرو ) اللہ کے پاس بہت اَموالِ غنیمت ہیں ۔ اس سے پیشتر تم ( بھی ) توایسے ہی تھے پھر اللہ نے تم پر احسان کیا ( اور تم مسلمان ہوگئے ) پس ( دوسروں کے بارے میں بھی ) تحقیق کر لیا کرو ۔ بیشک اللہ تمہارے کاموں سے خبردار ہے
سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :126 ابتدائے اسلام میں”السلام علیکم“ کا لفظ مسلمانوں کے لیے شعار اور علامت کی حیثیت رکھتا تھا اور ایک مسلمان دوسرے مسلمان کو دیکھ کر یہ لفظ اس معنی میں استعمال کرتا تھا کہ میں تمہارے ہی گروہ کا آدمی ہوں ، دوست اور خیر خواہ ہوں ، میرے پاس تمہارے لیے سلامتی و عافیت کے سوا کچھ نہیں ہے ، لہٰذا نہ تم مجھ سے دشمنی کرو اور نہ میری طرف سے عداوت اور ضرر کا اندیشہ رکھو ۔ جس طرح فوج میں ایک لفظ شعار ( Password ) کے طور پر مقرر کیا جاتا ہے اور رات کے وقت ایک فوج کے آدمی ایک دوسرے کے پاس سے گزرتے ہوئے اسے اس غرض کے لیے استعمال کرتے ہیں کہ فوج مخالف کے آدمیوں سے ممیز ہوں ، اسی طرح سلام کا لفظ بھی مسلمانوں میں شعار کے طور پر مقرر کیا گیا تھا ۔ خصوصیت کے ساتھ اس زمانہ میں اس شعار کی اہمیت اس وجہ سے اور بھی زیادہ تھی کہ اس وقت عرب کے نو مسلموں اور کافروں کے درمیان لباس ، زبان اور کسی دوسری چیز میں کوئی نمایاں امتیاز نہ تھا جس کی وجہ سے ایک مسلمان سرسری نظر میں دوسرے مسلمان کو پہچان سکتا ہو ۔ لیکن لڑائیوں کے موقع پر ایک پیچیدگی یہ پیش آتی تھی کہ مسلمان جب کسی دشمن گروہ پر حملہ کرتے اور وہاں کوئی مسلمان اس لپیٹ میں آجاتا تو وہ حملہ آور مسلمانوں کو یہ بتانے کے لیے کہ وہ بھی ان کا دینی بھائی ہے ” السلام علیکم“ یا ”لا الٰہ الا اللہ“ پکارتا تھا ، مگر مسلمانوں کو اس پر یہ شبہہ ہوتا تھا کہ یہ کوئی کافر ہے جو محض جان بچانے کے لیے حیلہ کر رہا ہے ، اس لیے بسا اوقات وہ اسے قتل کر بیٹھتے تھے اور اس کی چیزیں غنیمت کے طور پر لوٹ لیتے تھے ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے ہر موقع پر نہایت سختی کے ساتھ سرزنش فرمائی ۔ مگر اس قسم کے واقعات برابر پیش آتے رہے ۔ آخر کار اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اس پیچیدگی کو حل کیا ۔ آیت کا منشا یہ ہے کہ جو شخص اپنے آپ کو مسلمان کی حیثیت سے پیش کر رہا ہے اس کے متعلق تمہیں سرسری طور پر یہ فیصلہ کر دینے کا حق نہیں ہے کہ وہ محض جان بچانے کے لیے جھوٹ بول رہا ہے ۔ ہو سکتا ہے کہ وہ سچا ہو اور ہو سکتا ہے کہ جھوٹا ہو ۔ حقیقت تو تحقیق ہی سے معلوم ہو سکتی ہے ۔ تحقیق کے بغیر چھوڑ دینے میں اگر یہ امکان ہے کہ ایک کافر جھوٹ بول کر جان بچالے جائے ، تو قتل کر دینے میں اس کا امکان بھی ہے کہ ایک مومن بے گناہ تمہارے ہاتھ سے مارا جائے ۔ اور بہرحال تمہارا ایک کافر کو چھوڑ دینے میں غلطی کرنا اس سے بدرجہا زیادہ بہتر ہے کہ تم ایک مومن کو قتل کرنے میں غلطی کرو ۔ سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :127 یعنی ایک وقت تم پر بھی ایسا گزر چکا ہے کہ انفرادی طور پر مختلف کافر قبیلوں میں منتشر تھے ، اپنے اسلام کو ظلم و ستم کے خوف سے چھپانے پر مجبور تھے ، اور تمہارے پاس ایمان کے زبانی اقرار کے سوا اپنے ایمان کا کوئی ثبوت موجود نہ تھا ۔ اب یہ اللہ کا احسان ہے کہ اس نے تم کو اجتماعی زندگی عطا کی اور تم اس قابل ہوئے کہ کفار کے مقابلہ میں اسلام کا جھنڈا بلند کرنے اٹھے ہو ۔ اس احسان کا یہ کوئی صحیح شکریہ نہیں ہے کہ جو مسلمان ابھی پہلی حالت میں مبتلا ہیں ان کے ساتھ تم نرمی و رعایت سے کام نہ لو ۔
مسلمان کے ہاتھوں مسلمان کا قتل ناقابل معافی جرم ہے ترمذوی وغیرہ کی ایک حدیث میں ہے کہ بنو سلیم کا ایک شخص بکریاں چراتا ہوا صحابہ کی ایک جمات کے پاس سے گذرا اور سلام کیا تو صحابہ آپس میں کہنے لگے یہ مسلمان تو ہے نہیں صرف اپنی جان بچانے کے لئے سلام کرتا ہے چنانچہ اسے قتل کر دیا اور بکریاں لے کر چلے آئے ، اس پر یہ آیت اتری ، یہ حدیث تو صحیح ہے لیکن بعض نے اس میں علتیں نکالی ہیں کہ سماک راوی کے سوائے اس طریقے کا اور کوئی مخرج ہی اس کا نہیں ، اور یہ کہ عکرمہ سے اس کے روایت کرنے کے بھی قائل ہے ، اور یہ کہ اس آیت کے شان نزول میں اور واقعات بھی مروی ہیں ، بعض کہتے ہیں محکم بن جثامہ کے بارے میں اتری ہے بعض کہتے ہیں اسامہ بن زید کے بارے میں نازل ہوئی ہے اور اس کے علاوہ بھی اقوال ہیں ، لیکن میرے خیال میں یہ سب ناقابل تسلیم ہے سماک سے اسے بہت سے ائمہ کبار نے روایت کیا ہے ، عکرمہ سے صحیح دلیل لی گئی ہے ، یہی روایت دوسرے طریق سے حضرت ابن عباس سے صحیح بخاری میں مروی ہے ، سعید بن منصور میں یہی مروی ہے ، ابن جریر اور ابن ابی حاتم میں ہے کہ ایک شخص کو اس کے والد اور اس کی قوم نے اپنے اسلام کی خبر پہنچانے کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھیجا ، راستے میں اسے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بھیجے ہوئے ایک لشکر سے رات کے وقت ملاقات ہوئی اس نے ان سے کہا کہ میں مسلمان ہوں لیکن انہیں یقین نہ آیا اور اسے دشمن سمجھ کر قتل کر ڈالا ان کے والد کو جب یہ علم ہوا تو یہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور واقعہ بیان کیا چنانچہ آپ نے انہیں ایک ہزار دینار دئیے اور دیت دی اور انہیں عزت کے ساتھ رخصت کیا ، اس پر یہ آیت اتری ، محکم بن جثامہ کا واقعہ یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ایک چھوٹا سا لشکر اخسم کی طرف بھیجا جب یہ لشکر بطل اخسم میں پہنچا تو عامر بن اضبط اشجعی اپنی سواری پر سوار مع اسباب کے آرہے تھے پاس پہنچ کر سلام کیا سب تو رک گئے لیکن محکم بن جثامہ نے آپس کی پرانی عداوت کی بنا پر اس پر جھپٹ کر حملہ کر دیا ، انہیں قتل کر ڈالا اور ان کا اسباب قبضہ میں کر لیا پھر ہم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچے اور آپ یہ واقعہ بیان کیا اس پر یہ آیت اتری ۔ ایک اور روایت میں ہے کہ عامر نے اسلامی طریقہ کے مطابق سلام کیا تھا لیکن جاہلیت کی پہلی عداوت کے باعث محکم نے اسے تیر مار کر مار ڈالا یہ خبر پا کر عامر کے لوگوں سے محکم بن جثامہ نے مصالحانہ گفتگو کی لیکن عینیہ نے کہا نہیں نہیں اللہ کی قسم جب تک اس کی عورتوں پر بھی وہی مصیبت نہ آئے جو میری عورتوں پر آئی ۔ چنانچہ محکم اپنی دونوں چادریں اوڑھے ہوئے آئے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بیٹھ گئے اس امید پر کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ان کے لئے استغفار کریں لیکن آپ نے فرمایا اللہ تجھے معاف نہ کرے یہ یہاں سے سخت نادم شرمسار روتے ہوئے اُٹھے اپنی چادروں سے اپنے آنسو پونچھتے جاتے تھے سات روز بھی نہ گذرنے پائے تھے انتقال کر گئے ۔ لوگوں نے انہیں دفن کیا لیکن زمین نے ان کی نعش اگل دی ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے جب یہ ذکر ہوا تو آپ نے فرمایا تمہارے اس ساتھی سے نہایت بدتر لوگوں کو زمین سنبھال لیتی ہے لیکن اللہ کا ارادہ ہے کہ وہ تمہیں مسلمان کی حرمت دکھائے چنانچہ ان کے لاشے کو پہاڑ پر ڈال دیا گیا اور اُوپر سے پتھر رکھ دئے گئے اور یہ آیت نازل ہوئی ( ابن جریر ) صحیح بخاری شریف میں تعلیقاً مروی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مقداد سے فرمایا جبکہ انہوں نے قوم کفار کے ساتھ جو مسلمان مخفی ایمان والا تھا اسے قتل کر دیا تھا باوجودیکہ اس نے اپنے سلام کا اظہار کر دیا تھا کہ تم بھی مکہ میں اسی طرح ایمان چھپائے ہوئے تھے ۔ بزار میں یہ واقعہ پورا اس طرح مرودی ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک چھوٹا سا لشکر بھیجا تھا جس میں حضرت مقداد بھی تھے جب دشمنوں کے پاس پہنچے تو دیکھا کہ سب تو اِدھر اُدھر ہوگئے ہیں ایک شخص مالدار وہاں رہ گیا ہے اس نے انہیں دیکھتے ہی اشھد ان لا اللہ الا اللّٰہ کہا ۔ تاہم انہوں نے حملہ کر دیا اور اسے قتل کر ڈالا ، ایک شخص جس نے یہ واقعہ دیکھا تھا وہ سخت برہم ہوا اور کہنے لگا مقداد نے اسے قتل کر ڈالا جس نے کلمہ پڑھا تھا ؟ میں اس کا ذکر حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کروں گا ، جب یہ لشکر واپس پہنچا تو اس شخص نے یہ واقعہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا آپ نے حضرت مقداد کو بلوایا اور فرمایا تم نے یہ کیا کیا ؟ کل قیات کے دن تم لا الٰہ الا اللّٰہ کے سامنے کیا جواب دو گے؟ پس اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری اور آپ نے فرمایا کہ اے مقداد وہ شخص مسلمان تھا جس طرح تو مکہ میں اپنے ایمان کو مخفی رکھتا تھا پھر تو نے اس کے اسلام ظاہر کرنے کے باوجود اسے مارا ؟ اس کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جس غنیمت کے لالچ میں تم غفلت برتتے ہو اور سلام کرنے والوں کے ایمان میں شک وشبہ کرکے انہیں قتل کر ڈالتے ہو یاد رکھو وہ غنیمت اللہ کی طرف سے ہے اس کے پاس بہت سے غنیمتیں ہیں جو وہ تمہیں حلال ذرائع سے دے گا اور وہ تمہارے لئے اس مال سے بہت بہتر ہوں گے ۔ تم بھی اپنا وہ وقت یاد کرو کہ تم بھی ایسے ہی لاچار تھے اپنے ضعف اور اپنی کمزوری کی وجہ سے ایمان ظاہر کرنے کی جرأت نہیں کر سکتے تھے قوم میں چھپے لگے پھرتے تھے آج اللہ خالق کل نے تم پر احسان کیا تمہیں قوت دی اور تم کھلے بندوں اپنے اسلام کا اظہار کر رہے ہو ، تو جو بے اسباب اب تک دشمنوں کے پنجے میں پھنسے ہوئے ہیں اور ایمان کا اعلان کھلے طور پر نہیں کر سکے جب وہ اپنا ایمان ظاہر کریں تمہیں تسلیم کر لینا چاہئے اور آیت میں ہے ( وَاذْكُرُوْٓا اِذْ اَنْتُمْ قَلِيْلٌ مُّسْتَضْعَفُوْنَ فِي الْاَرْضِ تَخَافُوْنَ اَنْ يَّتَخَطَّفَكُمُ النَّاسُ فَاٰوٰىكُمْ وَاَيَّدَكُمْ بِنَصْرِهٖ وَرَزَقَكُمْ مِّنَ الطَّيِّبٰتِ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ ) 8 ۔ الانفال:26 ) یاد کرو جبکہ تم کم تھے کمزور تھے ۔ الغرض ارشاد ہوتا ہے کہ جس طرح یہ بکری کا چرواہا اپنا ایمان چھپائے ہوئے تھا اسی طرح اس سے پہلے جبکہ بےسرو سامانی اور قلت کی حالت میں تم مشرکوں کے درمیان تھے ایمان چھپائے پھرتے تھے ، یہ مطلب بھی بیان کیا گیا ہے کہ تم بھی پہلے اسلام والے نہ تھے اللہ نے تم پر احسان کیا اور تمہیں اسلام نصیب فرمایا ، حضرت اسامہ نے قسم کھائی تھی کہ اس کے بعد بھی کسی لا الہ الا اللّٰہ کہنے والے کو قتل نہ کروں گا کیونکہ انہیں بھی اس بارے میں پوری سرزنش ہوئی تھی ۔ پھر تاکیداً دوبارہ فرمایا کہ بخوبی تحقیق کر لیا کرو ، پھر دھمکی دی جاتی ہے کہ اللہ جل شانہ کو اپنے اعمال سے غافل نہ سمجھو ، جو تم کر رہے ، وہ سب کی پوری طرح خبر رکھتا ہے ۔