Surah

Information

Surah # 4 | Verses: 176 | Ruku: 24 | Sajdah: 0 | Chronological # 92 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD)
لَا يَسۡتَوِى الۡقَاعِدُوۡنَ مِنَ الۡمُؤۡمِنِيۡنَ غَيۡرُ اُولِى الضَّرَرِ وَالۡمُجَاهِدُوۡنَ فِىۡ سَبِيۡلِ اللّٰهِ بِاَمۡوَالِهِمۡ وَاَنۡفُسِهِمۡ‌ ؕ فَضَّلَ اللّٰهُ الۡمُجٰهِدِيۡنَ بِاَمۡوَالِهِمۡ وَاَنۡفُسِهِمۡ عَلَى الۡقٰعِدِيۡنَ دَرَجَةً‌  ؕ وَكُلًّا وَّعَدَ اللّٰهُ الۡحُسۡنٰى‌ؕ وَفَضَّلَ اللّٰهُ الۡمُجٰهِدِيۡنَ عَلَى الۡقٰعِدِيۡنَ اَجۡرًا عَظِيۡمًا ۙ‏ ﴿95﴾
اپنی جانوں اور مالوں سے اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے مومن اور بغیر عذر کے بیٹھے رہنے والے مومن برابر نہیں ، اپنے مالوں اور اپنی جانوں سے جہاد کرنے والوں کو بیٹھ رہنے والوں پر اللہ تعالٰی نے درجوں میں بہت فضیلت دے رکھی ہے اور یُوں تو اللہ تعالٰی نے ہر ایک کو خوبی اور اچھائی کا وعدہ دیا ہے ، لیکن مجاہدین کو بیٹھ رہنے والوں پر بہت بڑے اجر کی فضیلت دے رکھی ہے ۔
لا يستوي القعدون من المؤمنين غير اولي الضرر و المجهدون في سبيل الله باموالهم و انفسهم فضل الله المجهدين باموالهم و انفسهم على القعدين درجة و كلا وعد الله الحسنى و فضل الله المجهدين على القعدين اجرا عظيما
Not equal are those believers remaining [at home] - other than the disabled - and the mujahideen, [who strive and fight] in the cause of Allah with their wealth and their lives. Allah has preferred the mujahideen through their wealth and their lives over those who remain [behind], by degrees. And to both Allah has promised the best [reward]. But Allah has preferred the mujahideen over those who remain [behind] with a great reward -
Apni janon aur maalon say Allah ki raah mein jihad kerney walay momin aur baghair uzur kay beth rehney walay momin barabar nahi apney maalon aur apni janon say jihad kerney walon ko beth rehney walon per Allah Taalaa ney darjon mein boht fazeelat dey rakhi ahi aur yun to Allah Taalaa ney her aik ko khoobi aur achai kay wada diya hai lekin mujahideen ko beth rehney walon per boht baray ajar ki fazeelat dey rakhi hai.
جن مسلمانوں کو کوئی معذوری لاحق نہ ہو اور وہ ( جہاد میں جانے کے بجائے گھر میں ) بیٹھ رہیں وہ اللہ کے راستے میں اپنے مال و جان سے جہاد کرنے والوں کے برابر نہیں ہیں ۔ جو لوگ اپنے مال و جان سے جہاد کرتے ہیں ان کو اللہ نے بیٹھ رہنے والوں پر درجے میں فضیلت دی ہے ۔ اور اللہ نے سب سے اچھائی کا وعدہ کر رکھا ہے ۔ ( ٦١ ) اور اللہ نے مجاہدین کو بیٹھ رہنے والوں پر فضیلت دے کر بڑا ثواب بخشا ہے ۔
برابر نہیں وہ مسلمان کہ بےعذر جہاد سے بیٹھ رہیں اور وہ کہ راہ خدا میں اپنے مالوں اور جانوں سے جہاد کرتے ہیں ( ف۲٦۲ ) اللہ نے اپنے مالوں اور جانوں کے ساتھ جہاد کرنے والوں کا درجہ بیٹھنے والوں سے بڑا کیا ( ف۲٦۳ ) اور اللہ نے سب سے بھلائی کا وعدہ فرمایا ( ف۲٦٤ ) اور اللہ نے جہاد والوں کو ( ۲٦۵ ) بیٹھنے والوں پر بڑے ثواب سے فضیلت دی ہے ،
مسلمانوں میں سے وہ لوگ جو کسی معذوری کے بغیر گھر بیٹھے رہتے ہیں اور وہ جو اللہ کی راہ میں جان و مال سے جہاد کرتے ہیں ، دونوں کی حیثیت یکساں نہیں ہے ۔ اللہ نے بیٹھنے والوں کی بہ نسبت جان و مال سے جہاد کرنے والوں کا درجہ بڑا رکھا ہے ۔ اگرچہ ہر ایک کے لیے اللہ نے بھلائی ہی کا وعدہ فرمایا ہے ، مگر اس کے ہاں مجاہدوں کی خدمات کا معاوضہ بیٹھنے والوں سےبہت زیادہ ہے ، 128
مسلمانوں میں سے وہ لوگ جو ( جہاد سے جی چرا کر ) بغیر کسی ( عذر ) تکلیف کے ( گھروں میں ) بیٹھ رہنے والے ہیں اور وہ لوگ جو اللہ کی راہ میں اپنے مالوں اور اپنی جانوں سے جہاد کرنے والے ہیں ( یہ دونوں درجہ و ثواب میں ) برابر نہیں ہوسکتے ۔ اللہ نے اپنے مالوں اور اپنی جانوں سے جہاد کرنے والوں کو بیٹھ رہنے والوں پر مرتبہ میں فضیلت بخشی ہے اوراللہ نے سب ( ایمان والوں ) سے وعدہ ( تو ) بھلائی کا ( ہی ) فرمایا ہے ، اور اللہ نے جہاد کرنے والوں کو ( بہر طور ) بیٹھ رہنے والوں پر زبردست اجر ( و ثواب ) کی فضیلت دی ہے
سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :128 یہاں ان بیٹھنے والوں کا ذکر نہیں ہے جن کو جہاد پر جانے کا حکم دیا جائے اور وہ بہانے کر کے بیٹھ رہیں ، یا نفیر عام ہو اور جہاد فرض عین ہو جائے پھر بھی وہ جنگ پر جانے سے جی چرائیں ۔ بلکہ یہاں ذکر ان بیٹھنے والوں کا ہے جو جہاد کے فرض کفایہ ہونے کی صورت میں میدان جنگ کی طرف جانے کے بجائے دوسرے کاموں میں لگے رہیں ۔ پہلی دو صورتوں میں جہاد کے لیے نہ نکلنے والا صرف منافق ہی ہو سکتا ہے اور اس کے لیے اللہ کی طرف سے کسی بھلائی کا وعدہ نہیں ہے اِلّا یہ کہ وہ کسی حقیقی معذوری کا شکار ہو ۔ بخلاف اس کے یہ آخری صورت ایسی ہے جس میں اسلامی جماعت کی پوری فوجی طاقت مطلوب نہیں ہوتی بلکہ محض اس کا ایک حصہ مطلوب ہوتا ہے ۔ اس صورت میں اگر امام کی طرف سے اپیل کی جائے کہ کون سرباز ہیں جو فلاں مہم کے لیے اپنے آپ کو پیش کرتے ہیں ، تو جو لوگ اس دعوت پر لبیک کہنے کے لیے اٹھ کھڑے ہوں وہ افضل ہیں بہ نسبت ان کے جو دوسرے کاموں میں لگے رہیں ، خواہ وہ دوسرے کام بھی بجائے خود مفید ہی ہوں ۔
مجاہد اور عوام میں فرق صحیح بخاری میں ہے کہ جب اس آیت کے ابتدائی الفاظ اترے کہ گھروں میں بیٹھ رہنے والے جہاد کرنے والے مومن برابر نہیں ، تو آپ اسے حضرت زید کو بلوا کر لکھوا رہے تھے اس وقت حضرت ابن ام مکتوم نابینا آئے اور کہنے لگے حضور صلی اللہ علیہ وسلم میں تو نابینا ہوں معذور ہوں اس پر الفاظ غیر اولی الضرر نازل ہوئے یعنی وہ بیٹھ رہنے والے جو بےعذر ہوں ان کا ذکر ہے ۔ اور روایت میں ہے کہ حضرت زید اپنے ساتھ قلم دوات اور شانہ لے کر آئے تھے اور حدیث میں ہے کہ ام مکتوم نے فرمایا تھا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اگر مجھ میں طاقت ہوتی تو میں ضرور جہاد میں شامل ہوتا اس پر وہ آیت اتری اس وقت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ران حضرت زید کی ران پر تھی ان پر اس قدر بوجھ پڑا قریب تھا کہ ران ٹوٹ جائے ۔ وہ حدیث میں ہے کہ جس وقت ان آیات کی وحی اتری اور اس کے بعد طمانیت آپ پر نازل ہوئی میں آپ کے پہلو میں تھا اللہ کی قسم مجھ پر رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ران کا ایسا بوجھ پڑا کہ میں نے اس سے زیادہ بوجھل چیز زندگی بھر کوئی اٹھائی پھر وحی ہٹ جانے کے بعد آپ نے عظیما تک آیت لکھوائی اور میں نے اسے شانے کی ہڈی پر لکھ لیا اور حدیث میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ ابھی تو ابن ام مکتوم کے الفاظ ختم بھی نہ ہوئے تھے جو آپ پر وحی نازل ہونا شروع ہوئی ، حضرت زید فرماتے ہیں وہ منظر اب تک میری نگاہوں کے سامنے ہے گویا میں دیکھ رہا ہوں کہ بعد میں اترے ہوئے الفاظ کو میں نے ان کی جگہ پر اپنی تحریر میں بعد میں بڑھایا ہے ، حضرت ابن عباس فرماتے ہیں مراد بدر کی لڑائی میں جانے والے اور اس میں حاضر نہ ہونے والے ہیں ، غزوہ بدر کے موقعہ پر حضرت عبداللہ بن جعش اور حضرت عبداللہ بن ام مکتوم آکر حضور سے کہنے لگے ہم دونوں نابینا ہیں کیا ہمیں رخصت ہے؟ تو انہیں آیت قرآنی میں رخصت دی گئی ، پس مجاہدین کو جس قسم کے بیٹھ رہنے والوں پر فضلیت دی گئی ہے وہ وہ ہیں جو صحت و تندرستی والے ہوں ، پس پہلے تو مجاہدین کو جس قسم کے بیٹھ رہنے والوں پر فضلیت دی گئی ہے وہ وہ ہیں جو صحت وتندرستی والے ہوں ، پس پہلے تو مجاہدین کو بیٹھ رہنے والوں پر مطلقاً فضلیت تھی لیکن اسی وحی میں جو الفاظ اترے اس نے ان لوگوں کو جنہیں مباح عذر ہوں عام بیٹھ رہنے والوں سے مستثنیٰ کر دیا جیسے اندھے لنگڑے لولے اور بیمار ، یہ مجاہدین کے درجے میں ہیں ۔ پھر مجاہدین کی جو فضلیت بیان ہوئی ہے وہ ان لوگوں پر بھی ہے جو بےوجہ جہاد میں شامل نہ ہوئے ہوں ، جیسے کہ ابن عباس کی تفسیر گذری اور یہ ہونا بھی چاہئے بخاری میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مدینہ میں ایسے لوگ بھی ہیں کہ تم جس جہاد کے لئے سفر کرو اور جس جنگل میں کوچ کرو وہ تمہارے ساتھ اجر میں یکساں ہیں ، صحابہ نے کہا باوجودیکہ وہ مدینے میں مقیم ہیں ، آپ نے فرمایا اس لئے کہ انہیں عذر نے روک رکھا ہے اور روایت میں ہے کہ تم جو خرچ کرتے ہو اس کا ثواب بھی جو تمہیں ملتا ہے انہیں بھی ملتا ہے ، اسی مطلب کو ایک شاعر نے ان الفاظ میں یارا حلین الی البیت العتیق لقد سر تم جسو ماو سرنا نحن ارواحا انا اقمنا علی عذروعن قدر ومن اقام علی عذر فقدراحا یعنی اے اللہ کے گھر کے حج کو جانے والو! اگر تم اپنے جسموں سمیت اس طرف چل رہے ہو لیکن ہم بھی اپنی روحانی روش سے اسی طرف لپکے جا رہے ہیں ، سنو ہماری جسمانی کمزوری اور عذر نے ہمیں روک رکھا ہے اور ظاہر ہے کہ عذر سے رک جانے والا کچھ جانے والے سے کم نہیں پھر فرمایا ہے ہر ایک سے اللہ تعالیٰ کا وعدہ جنت کا اور بہت بڑے اجر کا ہے ، اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جہاد فرض عین نہیں بلکہ فرض کفایہ ہے ، پھر ارشاد ہے ، مجاہدین کو غیر مجاہدین پر بڑی فضلیت ہے ۔ پھر ان کے بلند درجات ان کے گناہوں کی معافی اور ان پر جو برکت و رحمت ہے اس کا بیان فرمایا اور اپنی عام بخشش اور عام رحم کی خبر دی ۔ بخاری مسلم میں ہے جنت میں سو درجے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے راہ کے مجاہدین کے لئے تیار کیا ہے ہر دو درجوں میں اس قدر فاصلہ ہے جتنا آسمان و زمین میں ، اور حدیث میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص اللہ کی راہ میں تیر چلائے اسے جنت کا درجہ ملتا ہے ایک شخص نے پوچھا درجہ کیا ہے؟ آپ نے فرمایا وہ تمہارے یہاں کے گھروں کے بالا خانوں جتنا نہیں بلکہ دو درجوں میں سو سال کا فاصلہ ہے ۔