Surah

Information

Surah # 83 | Verses: 36 | Ruku: 1 | Sajdah: 0 | Chronological # 86 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Late Makkah phase (620 - 622 AD)
وَيۡلٌ لِّلۡمُطَفِّفِيۡنَۙ‏ ﴿1﴾
بڑی خرابی ہے ناپ تول میں کمی کرنے والوں کی ۔
ويل للمطففين
Woe to those who give less [than due],
Bari kharabi hay nap tool mein kami kerney walon ki
بڑی خرابی ہے ناپ تول میں کمی کرنے والوں کی ۔
( ۱ ) کم تولنے والوں کی خرابی ہے ،
تباہی ہے ڈنڈی مارنے والوں1 کے لیے ۔
بربادی ہے ناپ تول میں کمی کرنے والوں کے لئے
سورة الْمُطَفِّفِيْن حاشیہ نمبر :1 اصل لفظ مطففین استعمال کیا گیا ہے جو تطفیف سے مشتق ہے ۔ عربی زبان میں طفیف چھوٹی اور حقیر چیز کے لیے بولتے ہیں اور تطفیف کا لفظ اصطلاحاً ناپ تول میں چوری چھپے کمی کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے کیونکہ یہ کام کرنے والا ناپ کر یا تول کر چیز دیتے ہوئے کوئی بڑی مقدار نہیں اڑاتا بلکہ ہاتھ کی صفائی دکھا کر ہر خریدار کے حصے میں سے تھوڑا تھوڑا اڑاتا رہتا ہے اور خریدار بیچارے کو کچھ پتہ نہیں چلتا کہ تاجر اسے کیا اور کتنا گھاٹا دے گیا ہے ۔
ناپ تول میں کمی کے تنائج نسائی اور ابن ماجہ میں ہے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینہ میں تشریف لائے اس وقت اہل مدینہ ناپ تول کے اعتبار سے بہت برے تھے ۔ جب یہ آیت اتری پھر انہوں نے ناپ تول بہت درست کر لیا ابن ابی حاتم میں ہے کہ حضرت ہلال بن طلق نے ایک مرتبہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ مکے مدینے والے بہت ہی عمدہ ناپ تول رکھتے ہیں ۔ آپ نے فرمایا وہ کیوں نہ رکھتے جب کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے آیت ( وَيْلٌ لِّـلْمُطَفِّفِيْنَ Ǻ۝ۙ ) 83- المطففين:1 ) ہے ۔ پس تطفیف سے مراد ناپ تول کی کمی ہے خواہ اس صورت میں کہ اوروں سے لیتے وقت زیادہ لے لیا اور دیتے وقت کم دیا ۔ اسی لیے انہیں دھمکایا کہ یہ نقصان اٹھانے والے ہیں کہ جب اپنا حق لیں تو پورا لیں بلکہ زیادہ لے لیں اور دوسروں کو دینے بیٹھیں تو کم دیں ۔ ٹھیک یہ ہے کہ کالو اور وزنو کو متعدی مانیں اور ھُم کو محلا منصوب کہیں گو بعض نے اسے ضمیر موکد مانا ہے ۔ جو کالو اور وزنو کی پوشیدہ ضمیر کی تاکید کے لیے ہے اور مفعول محذوف مانا ہے جس پر دلالت کلام موجود ہے دونوں طرح مطلب قریب قریب ایک ہی ہے ۔ قرآن کریم نے ناپ تول درست کرنے کا حکم اس آیت میں بھی دیا ہے ۔ آیت ( وَاَوْفُوا الْكَيْلَ اِذَا كِلْتُمْ وَزِنُوْا بِالْقِسْطَاسِ الْمُسْتَــقِيْمِ ۭ ذٰلِكَ خَيْرٌ وَّاَحْسَنُ تَاْوِيْلًا 35؀ ) 17- الإسراء:35 ) یعنی جب ناپو تو ناپ پورا کرو اور وزن سیدھے ترازو سے تول کر دیا کرو ۔ اور جگہ حکم ہے ۔ آیت ( وَاَوْفُوا الْكَيْلَ وَالْمِيْزَانَ بِالْقِسْطِ ۚ لَا نُكَلِّفُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَا ١٥٢؀ۙ ) 6- الانعام:152 ) ناپ تول انصاف کے ساتھ برابر کر دیا کرو ، ہم کسی کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتے اور جگہ فرمایا آیت ( وَاَقِيْمُوا الْوَزْنَ بِالْقِسْطِ وَلَا تُخْسِرُوا الْمِيْزَانَ Ḍ؀ ) 55- الرحمن:9 ) یعنی تول کو قائم رکھو اور میزان کو گھٹاؤ نہیں ۔ حضرت شعیب علیہ السلام کی قوم کو اسی بدعادت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے غارت و برباد کر دیا یہاں بھی اللہ تعالیٰ ڈرا رہا ہے ۔ کہ لوگوں کے حق مارنے والے کیا قیامت کے دن سے نہیں ڈرتے جس دن یہ اس ذات پاک کے سامنے کھڑے ہو جائیں گے ۔ جس پر نہ کوئی پوشیدہ بات پوشیدہ ہے نہ ظاہر ، وہ دن بھی نہایت ہولناک و خطرناک ہو گا ۔ بڑی گھبراہٹ اور پریشانی والا دن ہو گا ، اس دن یہ نقصان رساں لوگ جہنم کی بھڑکتی ہوئی آگ میں داخل ہوں گے وہ جگہ بھی نہایت تنگ و تاریک ہو گی اور میدان آفات و بلیات سے پر ہو گا اور وہ مصائب نازل ہو رہے ہوں گے کہ دل پریشان ہوں گے حواس بگڑے ہوئے ہوں گے ہوش جاتا رہے گا صحیح حدیث میں ہے کہ آدھے آدھے کانوں تک پسینہ پہنچ گیا ہو گا ۔ ( موطا مالک ) مسند احمد کی حدیث میں ہے اس دن رحمان عز و جل کی عظمت کے سامنے سب کھڑے کپکپا رہے ہوں گے اور حدیث میں ہے کہ قیامت کے دن بندوں سے سورج اس قدر قریب ہو جائے گا کہ ایک یا دو نیزے کے برابر اونچا ہو گا اور سخت تیز ہو گا ہر شخص اپنے اپنے اعمال کے مطابق اپنے پسینے میں غرق ہو گا بعض کی ایڑیوں تک پسینہ ہو گا بعض کے گھٹنوں تک بعض کی کمر تک بعض کو تو ان کا پسینہ لگام بنا ہوا ہو گا اور حدیث میں ہے دھوپ اس قدر تیز ہو گی کہ کھوپڑی بھنا اٹھے گی اور اس طرح اس میں جوش اٹھنے لگے گا جس طرح ہنڈیا میں ابال آتا ہے اور روایت میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے منہ پر اپنی انگلیاں رکھ کر بتایا کہ اس طرح پسینہ کی لگام چڑھی ہوئی ہو گی پھر آپ نے ہاتھ سے اشارہ کر کے بتایا کہ بعض بالکل ڈوبے ہوئے ہوں گے اور حدیث میں ہے ستر سال تک بغیر بولے چالے کھڑے رہیں گے یہ بھی کہا گیا ہے کہ تین سو سال تک کھڑے رہیں گے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ چالیس ہزارسال تک کھڑے رہیں گے اور دس ہزار سال میں فیصلہ کیا جائے گا صحیح مسلم میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مرفوعاً مروی ہے کہ اس دن میں جس کی مقدار پچاس ہزار سال کی ہو گی ابن ابی حاتم کی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بشیر غفاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا تو کیا کرے گا جس دن لوگ اللہ رب العالمین کے سامنے تین سو سال تک کھڑے رہیں گے نہ تو کوئی خبر آسمان سے آئیگی نہ کوئی حکم کیا جائیگا حضرت بشیر کہنے لگے اللہ ہی مدد گار ہے آپ نے فرمایا سنو جب بستر پر جاؤ تو اللہ تعالیٰ سے قیامت کے دن کی تکلیفوں اور حساب کی برائی سے پناہ مانگ لیا کرو ۔ سنن ابو داؤد میں ہے کہ رسول اللہ صلی علیہ وسلم قیامت کے دن کے کھڑے ہونے کی جگہ کی تنگی سے پناہ مانگا کرتے تھے ۔ حضرت ابن مسعود سے روایت ہے کہ چالیس سال تک لوگ اونچا سر کیے کھڑے رہیں گے کوئی بولے گا نہیں نیک و بد کو پسینے کی لگام میں چڑھی ہوئی ہوں گی ۔ ابن عمر فرماتے ہیں سو سال تک کھڑے رہیں گے ( ابن جریر ) ابو داؤد ، نسائی ابن ماجہ میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم جب رات کو اٹھ کر تہجد کی نماز شروع کرتے تو دس مرتبہ اللہ اکبر کہتے ، دس مرتبہ الحمد اللہ کہتے ، دس مرتبہ سبحان اللہ کہتے ، دس مرتبہ استغفر اللہ کہتے ۔ پھر کہتے دعا ( اللھم اغفرلی واھدنی وارزقنی وعافنی ) اے اللہ مجھے بخش مجھے ہدایت دے مجھے روزیاں دے اور عافیت عنایت فرما پھر اللہ تعالیٰ سے قیامت کے دن کے مقام کی تنگی سے پناہ مانگتے ۔