Surah

Information

Surah # 83 | Verses: 36 | Ruku: 1 | Sajdah: 0 | Chronological # 86 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Late Makkah phase (620 - 622 AD)
كَلَّاۤ اِنَّ كِتٰبَ الۡفُجَّارِ لَفِىۡ سِجِّيۡنٍؕ‏ ﴿7﴾
یقیناً بدکاروں کا نامہ اعمال سجین میں ہے ۔
كلا ان كتب الفجار لفي سجين
No! Indeed, the record of the wicked is in sijjeen.
yaqenan badkaron ka nama e amal sijeen mein hay
ہرگز ایسا نہیں چاہیے ! یقین جانو کہ بدکار لوگوں کا اعمال نامہ سجین میں ہے ۔ ( ٢ )
( ۷ ) بیشک کافروں کی لکھت ( ف٤ ) سب سے نیچی جگہ سجین میں ہے ( ف۵ )
ہرگز نہیں4 ، یقینا بدکاروں کا نامہ اعمال قیدخانے کے دفتر میں ہے5 ۔
یہ حق ہے کہ بدکرداروں کا نامۂ اعمال سجین ( یعنی دیوان خانۂ جہنم ) میں ہے
سورة الْمُطَفِّفِيْن حاشیہ نمبر :4 یعنی ان لوگوں کا یہ گمان غلط ہے کہ دنیا میں ان جرائم کا ارتکاب کرنے کے بعد یہ یونہی چھوٹ جائیں گے اور کبھی ان کو اپنے خدا کے سامنے جواب دہی کے لیے حاضر نہ ہونا پڑے گا ۔ سورة الْمُطَفِّفِيْن حاشیہ نمبر :5 اصل میں لفظ سجین استعمال ہوا ہے جو سجن ( جیل یا قید خانے ) سے ماخوذ ہے اور آگے اس کی جو تشریح کی گئی ہے اس سے معلوم ہو جاتا ہے کہ اس سے مراد رجسٹر ہے جس میں سزا کے مستحق لوگوں کے اعمال نامے درج کیے جا رہے ہیں ۔
انتہائی المناک اور دکھ درد کی جگہ مطلب یہ ہے کہ برے لوگوں کا ٹھکانا سجین ہے یہ لفظ فعیل کے وزن پر سجن سے ماخوذ ہے سجن کہتے ہیں لغتا تنگی کو ضییق شریب خمیر سکیر وغیرہ کی طرح یہ لفظ بھی سجین ہے پھر اس کی مزید برائیاں بیان کرنے کے لیے فرمایا کہ تمہیں اس کی حقیقت معلوم نہیں وہ المناک اور ہمیشہ کے دکھ درد کی جگہ ہے مروی ہے کہ یہ جگہ ساتوں زمینوں کے نیچے ہے حضرت براء بن عازب کی ایک مطول حدیث میں یہ گزر چکا ہے کہ کافر کی روح کے بارے میں جناب باری ارشاد ہوتا ہے کہ اس کی کتاب سجین میں لکھ لو اور سجین ساتویں زمین کے نیچے ہے کہا گیا ہے کہ یہ ساتویں زمین کے نیچے سبز رنگ کی ایک چٹان ہے اور کہا گیا ہے کہ جہنم میں ایک گڑھا ہے ابن جریر کی ایک غریب منکر اور غیر صحیح حدیث میں ہے کہ فلق جہنم کا ایک منہ بند کردہ کنواں ہے اور سجین کھلے منہ والا گڑھا ہے صحیح بات یہ ہے کہ اس کے معنی ہیں تنگ جگہ جیل خانہ کے نیچے کی مخلوق میں تنگی ہے اور اوپر کی مخلوق میں کشادگی آسمانوں میں ہر اوپر والا آسمان نیچے والے آسمان سے کشادہ ہے اور زمینوں میں ہر نیچے کی زمین اوپر کی زمین سے تنگ ہے یہاں تک کہ بالکل نیچے کی تہہ بہت تنگ ہے اور سب سے زیادہ تنگ جگہ ساتویں زمین کا وسطی مرکز ہے چونکہ کافروں کے لوٹنے کی جگہ جہنم ہے اور وہ سب سے نیچے ہے ۔ اور جگہ ہے آیت ( ثُمَّ رَدَدْنٰهُ اَسْفَلَ سٰفِلِيْنَ Ĉ۝ۙ ) 95- التين:5 ) یعنی ہم نے اسے پھر نیچوں کا نیچ کر دیا ہاں جو ایمان والے اور نیک اعمال والے ہیں غرض سجین ایک تنگ اور تہہ کی جگہ ہے جیسے قرآن کریم نے اور جگہ فرمایا ہے آیت ( وَاِذَآ اُلْقُوْا مِنْهَا مَكَانًا ضَيِّقًا مُّقَرَّنِيْنَ دَعَوْا هُنَالِكَ ثُبُوْرًا 13۝ۭ ) 25- الفرقان:13 ) جب وہ جہنم کی کسی تنگ جگہ میں ہاتھ پاؤں جکڑ کر ڈال دئیے جائیں گے تو وہاں موت ہی موت پکاریں گے ۔ کتاب مرقوم یہ سجین کی تفسیر نہیں بلکہ یہ اس کی تفسیر ہے جو ان کے لیے لکھا جا چکا ہے کہ آخرش جہنم میں پہنچیں گے ان کا یہ نتیجہ لکھا جا چکا ہے اور اس سے فراغت حاصل کر لی گئی ہے نہ اب اس میں کچھ زیادتی ہو نہ کمی ، تو فرمایا ان کا انجام سجین ہونا ہماری کتاب میں پہلے سے ہی لکھا جا چکا ہے ان جھٹلانے والوں کی اس دن خرابی ہو گی انہیں جہنم کا قید خانہ اور رسوائی والے المناک عذاب ہوں گے ویل کی مکمل تفسیر اس سے پہلے گزر چکی ہے خلاصہ مطلب یہ ہے کہ ان کی ہلاکی بربادی اور خرابی ہے جیسے کہا جاتا ہے ویل لفلان مسند اور سنن کی حدیث میں ہے ویل ہے اس شخص کے لیے جو کوئی جھوٹی بات کہہ کر لوگوں کو ہنسانا چاہے اور اسے ویل ہے اسے ویل ہے پھر ان جھٹلانے والے بدکار کافروں کی مزید تشریح کی اور فرمایا یہ وہ لوگ ہیں جو روز جزاء کو نہیں مانتے اسے خلاف عقل کہہ کر اس کے واقع ہونے کو محال جانتے ہیں پھر فرمایا کہ قیامت کا جھٹلانا انہی لوگوں کا کام ہے جو اپنے کاموں میں حد سے بڑھ جائیں اسی طرح اپنے اقوال میں گنہگار ہوں جھوٹ بولیں وعدہ خلافی کریں گالیاں بکیں وغیرہ یہ لوگ ہیں کہ ہماری آیتوں کو سن کر انہیں جھٹلاتے ہیں بدگمانی کرتے ہیں اور کہہ گزرتے ہیں کہ پہلی کتابوں سے کچھ جمع اکٹھا کر لیا ہے جیسے اور جگہ فرمایا آیت ( وَاِذَا قِيْلَ لَهُمْ مَّاذَآ اَنْزَلَ رَبُّكُمْ ۙ قَالُوْٓا اَسَاطِيْرُ الْاَوَّلِيْنَ 24؀ۙ ) 16- النحل:24 ) جب انہیں کہا جاتا ہے کہ تمہارے رب نے کیا کچھ نازل فرمایا تو کہتے ہیں اگلوں کے افسانے ہیں اور جگہ ہے آیت ( وقالوا اساطیر الاولین کتتبھا فھی تملی علیہ بکرۃ وعشیا ) یعنی یہ کہتے ہیں کہ اگلوں کے قصے ہیں جو اسے صبح شام لکھوائے جا رہے ہیں اللہ تعالیٰ انہیں جواب میں فرماتا ہے کہ واقعہ ان کے قول اور ان کے خیال کے مطابق نہیں بلکہ دراصل یہ قرآن کلام الٰہی ہے اس کی وحی ہے جو اس نے اپنے بندے پر نازل کی ہے ہاں ان کے دلوں پر ان کے بداعمال نے پردے ڈال دئیے ہیں گناہوں اور خطاؤں کی کثرت نے ان کے دلوں کو زنگ آلود کر دیا ہے کافروں کے دلوں پر رین ہوتا ہے اور نیک کار لوگوں کے دلوں پر غیم ہوتا ہے ترمذی نسائی ابن ماجہ وغیرہ میں رسول اللہ صیل اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں کہ بندہ جب گناہ کرتا ہے تو اس کے دل پر ایک سیاہ نکتہ ہو جاتا ہے اگر توبہ کر لیتا ہے تو اس کی صفائی ہو جاتی ہے اور اگر گناہ کرتا ہے تو وہ سیاہی پھیلتی جاتی ہے اسی کا بیان کلا بل ران میں ہے نسائی کے الفاظ میں کچھ اختلاف بھی ہے مسند احمد میں بھی یہ حدیث ہے حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ کا فرمان ہے کہ گناہوں پر گناہ کرنے سے دل اندھا ہو جاتا ہے اور پھر مر جاتا ہے پھر فرمایا کہ یہ لوگ ان عذابوں میں مبتلا ہو کر دیدار باری سے بھی محروم اور محجوب کر دئیے جائیں گے حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں اس میں دلیل ہے کہ مومن قیامت کے دن دیدار باری تعالیٰ سے مشرف ہوں گے امام صاحب کا یہ فرمان بالکل درست ہے اور آیت کا صاف مفہوم یہی ہے اور دوسری جگہ کھلے الفاظ میں بھی یہ بیان موجود ہے فرمان ہے آیت ( وُجُوْهٌ يَّوْمَىِٕذٍ نَّاضِرَةٌ 22؀ۙ ) 75- القيامة:22 ) یعنی اس دن بہت سے چہرے تروتازہ ہوں گے اور اپنے رب کو دیکھ رہے ہوں گے صحیح اور متواتر احادیث سے بھی یہ ثابت ہے کہ ایمان دار قیامت والے دن اپنے رب عز و جل کو اپنی آنکھوں سے قیامت کے میدان میں اور جنت کے نفیس باغیچوں میں دیکھیں گے حضرت حسن فرماتے ہیں کہ حجاب ہٹ جائیں گے اور مومن اپنے رب کو دیکھیں گے اور کافر پھر کافروں کو پردوں کے پیچھے کر دیا جائیگا البتہ مومن ہر صبح و شام پروردگار عالم کا دیدار حاصل کریں گے یا اسی جیسا اور کلام ہے پھر فرماتا ہے کہ برے لوگ نہ صرف دیدار الٰہی سے ہی محروم رہیں گے بلکہ یہ لوگ جہنم میں جھونک دئیے جائیں گے اور انہیں حقارت ذلت اور ڈانٹ ڈپٹ کے طور پر غصہ کے ساتھ کہا جائیگا کہ یہی وہ جسے تم جھٹلاتے رہے ۔