Surah

Information

Surah # 84 | Verses: 25 | Ruku: 1 | Sajdah: 1 | Chronological # 83 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Late Makkah phase (620 - 622 AD)
بِسۡمِ اللهِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِيۡمِ
شروع کرتا ہوں اللہ تعا لٰی کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے ۔
بسم الله الرحمن الرحيم
In the name of Allah , the Entirely Merciful, the Especially Merciful.
Shuroo Allah kay naam say jo bara meharban nehayat reham kerney wala hai
شروع اللہ کے نام سے جو سب پر مہربان ہے بہت مہربان ہے
اللہ کے نام سے شروع جو نہایت مہربان رحم والا
اللہ کے نام سے جو رحمان و رحیم ہے ۔
اللہ کے نام سے شروع جو نہایت مہربان ہمیشہ رحم فرمانے والا ہے ۔
سورة الْاِنْشِقَاق نام : پہلی ہی آیت کے لفظ انشقت سے ماخوذ ہے ۔ انشقاق مصدر ہے جس کے معنی پھٹ جانے کے ہیں اور اس نام کا مطلب یہ ہے کہ یہ وہ سورت ہے جس میں آسمان کے پھٹنے کا ذکر آیا ہے ۔ زمانۂ نزول : یہ بھی مکۂ معظمہ کے ابتدائی دور کی نازل شدہ سورتوں میں سے ہے ۔ اس کے مضمون کی داخلی شہادت یہ بتا رہی ہے کہ ابھی ظلم و ستم کا دور شروع نہیں ہوا تھا ، البتہ قرآن کی دعوت کو مکہ میں برملا جھٹلایا جا رہا تھا اور لوگ یہ ماننے سے انکار کر رہے تھے کہ کبھی قیامت برپا ہوگی اور انہیں اپنے خدا کے سامنے جواب دہی کے لیے حاضر ہونا پڑے گا ۔ موضوع اور مضمون : اس کا موضوع قیامت اور آخرت ہے ۔ پہلی پانچ آیتوں میں نہ صرف قیامت کی کیفیت بیان کی گئی ہے بلکہ اس کے برحق ہونے کی دلیل بھی دے دی گئی ہے ۔ اس کی کیفیت یہ بتائی گئی ہے کہ اس روز آسمان پھٹ جائے گا ، زمین پھیلا کر ہموار میدان بنا دی جائے گی ، جو کچھ زمین کے پیٹ میں ہے ( یعنی مردہ انسانوں کے اجزائے بدن اور ان کے اعمال کی شہادتیں ) سب کو نکال کر وہ باہر پھینک دے گی ، حتیٰ کہ اس کے اندر کچھ باقی نہ رہے گا اور اس کی دلیل یہ دی گئی ہے کہ آسمان و زمین کے لیے ان کے رب کا حکم یہی ہوگا اور چونکہ دونوں اس کی مخلوق ہیں اس لیے وہ اس کے حکم سے سرتابی نہیں کر سکتے ، ان کے لیے حق یہی ہے کہ وہ اپنے رب کے حکم کی تعمیل کریں ۔ اس کے بعد آیت 6 سے 19 تک بتایا گیا ہے کہ انسان کو خواہ اس کا شعور ہو یا نہ ہو ، بہرحال وہ اس منزل کی طرف چار و ناچار چلا جا رہا ہے جہاں اسے اپنے رب کے آگے پیش ہونا ہے ۔ پھر سب انسان دو حصوں میں بٹ جائیں گے ۔ ایک ، وہ جن کا نامۂ اعمال سیدھے ہاتھ میں دیا جائے گا ۔ وہ کسی سخت حساب فہمی کے بغیر معاف کر دیے جائیں گے ۔ دوسرے وہ جن کا نامۂ اعمال پیٹھ کے پیچھے دیا جائے گا ۔ وہ چاہیں گے کہ کسی طرح انہیں موت آ جائے ، مگر مرنے کے بجائے وہ جہنم میں جھونک دیے جائیں گے ۔ ان کا یہ انجام اس لیے ہوگا کہ وہ دنیا میں اس غلط فہمی پر مگن رہے کہ کبھی خدا کے سامنے جواب دہی کے لیے حاضر ہونا نہیں ہے ۔ حالانکہ ان کا رب ان کے سارے اعمال کو دیکھ رہا تھا اور کوئی وجہ نہ تھی کہ وہ ان اعمال کی بازپرس سے چھوٹ جائیں ۔ ان کا دنیا کی زندگی سے آخرت کی جزا و سزا تک درجہ بدرجہ پہنچنا اتنا ہی یقینی ہے جتنا سورج ڈوبنے کے بعد شفق کا نمودار ہونا ، دن کے بعد رات کا آنا اور اس میں انسان اور حیوانات کا اپنے اپنے بسیروں کی طرف پلٹنا ، اور چاند کا ہلال سے بڑھ کر ماہ کامل بننا یقینی ہے ۔ آخر میں ان کفار کو دردناک سزا کی خبر دے دی گئی ہے جو قرآن کو سن کر خدا کے آگے جھکنے کے بجائے الٹی تکذیب کرتے ہیں ، اور ان لوگوں کو بے حساب اجر کا مژدہ سنا دیا گیا ہے جو ایمان لا کر نیک عمل کرتے ہیں ۔
موطا امام مالک میں ہے کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے لوگوں کو نماز پڑھائی اور اس میں آیت ( اذا السماء انشقت ) کی سورت پڑھی اور سجدہ کیا اور فارغ ہو کر فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی اس کے پڑھتے ہوئے سجدہ کیا تھا یہ حدیث مسلم اور نسائی میں بھی ہے بخاری میں ہے حضرت ابو رافع فرماتے ہیں میں نے حضرت ابو ہریرہ کے پیچھے عشاء کی نماز پڑھی آپ نے اس میں آیت ( اذا السماء انشقت ) کی تلاوت کی اور سجدہ کیا میں نے پوچھا تو جواب دیا کہ میں نے ابو القاسم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے سجدہ کیا ہے ( یعنی حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس سورت کو نماز میں پڑھا اور آیت سجدہ پر سجدہ کیا اور مقتدیوں نے بھی سجدہ کیا ) پس میں تو جب تک آپ سے ملوں گا ( اس موقعہ پر ) سجدہ کرتا رہوں گا ( یعنی مرتے دم تک ) اس حدیث کی سندیں اور بھی ہیں اور صحیح مسلم شریف اور سنن میں مروی ہے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ سورہ آیت ( اذا السماء انشقت ) میں اور سورہ آیت ( اقراء باسم ربک الذی خلق ) میں سجدہ کیا ۔