Surah

Information

Surah # 87 | Verses: 19 | Ruku: 1 | Sajdah: 0 | Chronological # 8 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Early Makkah phase (610-618 AD)
سَبِّحِ اسۡمَ رَبِّكَ الۡاَعۡلَىۙ‏ ﴿1﴾
اپنے بہت ہی بلند اللہ کے نام کی پاکیزگی بیان کر ۔
سبح اسم ربك الاعلى
Exalt the name of your Lord, the Most High,
Apney buhat hi buland Allah kay nam ki pakizgi biyan ker
اپنے پروردگار کے نام کی تسبیح کرو جس کی شان سب سے اونچی ہے ۔
( ۱ ) اپنے رب کے نام کی پاکی بولو جب سے بلند ہے ( ف۲ )
﴿اے نبی ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ﴾ اپنے رب برتر کے نام کی تسبیح کرو1
اپنے رب کے نام کی تسبیح کریں جو سب سے بلند ہے
سورة الْاَعْلٰی حاشیہ نمبر :1 1 ۔ لفظی ترجمہ ہو گا اپنے ربِ برتر کے نام کو پاک کرو ۔ اس کے کئی مفہوم ہو سکتے ہیں اور وہ سب ہی مراد ہیں ۔ ( 1 ) اللہ تعالی کو ان ناموں سے یاد کیا جائے جو اس کے لائق ہیں اور ایسے نام اس کی ذات برتر کے لیے استعمال نہ کیے جائیں جو اپنے معنی اور مفہوم کے لحاظ سے اس کے لیے موزوں نہیں ہیں ، یا جن میں اس کے لیے نقص یا گستاخی یا شرک کا کوئی پہلو نکلتا ہے ، یا جن میں اس کی ذات یا صفات یا افعال کے بارے میں کوئی غلط عقیدہ پایا جاتا ہے ۔ اس غرض کے لیے محفوظ ترین صورت یہ ہے کہ اللہ تعالی کے وہی نام استعمال کیے جائیں جو اس نے خود قرآن مجید میں بیان فرمائے ہیں ، یا جو دوسری زبان میں ان کا صحیح ترجمہ ہوں ۔ ( 2 ) اللہ کے لیے مخلوقات کے نام ، یا مخلوقات کے لیے اللہ کے ناموں جیسے نام استعمال نہ کیے جائیں ۔ اور اگر کچھ صفاتی نام ایسے ہوں جو اللہ تعالی کے لیے خاص نہیں ہیں بلکہ بندوں کے لیے بھی ان کا استعمال جائز ہے ، مثلاً رؤف ، رحیم ، کریم ، سمیع ، بصیر وغیرہ ، تو ان میں یہ احتیاط ملحوظ رہنی چاہیے کہ بندے کے لیے ان کا استعمال اس طریقے پر نہ ہو جس طرح اللہ کے لیے ہوتا ہے ۔ ( 3 ) اللہ کا نام ادب اور احترام کے ساتھ لیا جائے ، کسی ایسے طریقے پر یا ایسی حالت میں نہ لیا جائے جو اس کے احترام کے منافی ہو ، مثلاً ہنسی مذاق میں یا بیت الخلاء میں یا کوئی گناہ کرتے ہوئے اس کا نام لینا ، یا ایسے لوگوں کے سامنے اس کا ذکر کرنا جو اسے سن کر گستاخی پر اتر آئیں ، یا ایسی مجلسوں میں اس کا نام لینا جہاں لوگ بیہودگیوں میں مشغول ہوں اور اس کا ذکر سن کر مذاق میں اڑا دیں ، یا ایسے موقع پر اس کا نام پاک زبان پر لانا جہاں اندیشہ ہو کہ سننے والا اسے ناگواری کے ساتھ سنے گا ۔ امام مالک کے حالات میں منقول ہے کہ جب کوئی سائل ان سے کچھ مانگتا اور وہ اس وقت اسے کچھ نہ دے سکتے تو عام لوگوں کی طرح اللہ دے گا نہ کہتے بلکہ کسی اور طرح معذرت کر دیتے تھے ۔ لوگوں نے اس کا سبب پوچھا تو انہوں نے کہا کہ سائل کو جب کچھ نہ دیا جائے اور اس سے معذرت کر دی جائے تو لامحالہ اسے ناگوار ہوتا ہے ۔ ایسے موقع پر میں اللہ کا نام لینا مناسب نہیں سمجھتا کہ کوئی شخص اسے ناگواری کے ساتھ سنے ۔ احادیث میں حضرت عقبہ بن عامر جہنی سے منقول ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سجدے میں سجان ربی الاعلی پڑھنے کا حکم اسی آیت کی بنا پر دیا تھا ، اور رکوع میں سبحان ربی العظیم پڑھنے کا جو طریقہ حضور نے مقرر فرمایا تھا وہ سورہ واقعہ کی آخری آیت فسبخ باسم ربک العظیم ۔ پر مبنی تھا ( مسند احمد ، ابو داؤد ، ابن ماجہ ، ابن حبان ، حاکم ، ابن المنذر ) ۔
مسند احمد میں ہے عقبہ بن عامر جہنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ جب آیت ( فَسَبِّحْ بِاسْمِ رَبِّكَ الْعَظِيْمِ 74۝ۧ ) 56- الواقعة:74 ) اتری تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اسے تم اپنے رکوع میں کر لو جب آیت ( سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْاَعْلَى Ǻ۝ۙ ) 87- الأعلى:1 ) اتری تو آپ نے فرمایا اسے اپنے سجدے میں کر لو ابو داؤد وغیرہ کی حدیث میں ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آیت ( سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْاَعْلَى Ǻ۝ۙ ) 87- الأعلى:1 ) پڑھتے تو کہتے سبحان ربی الاعلی حضرت علی سے بھی یہ مروی ہے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بھی یہ مروی ہے اور آپ جب آیت ( لا اقسم بیوم القیامۃ ) پڑھتے اور آخری آیت ( اَلَيْسَ ذٰلِكَ بِقٰدِرٍ عَلٰٓي اَنْ يُّـحْيِۦ الْمَوْتٰى 40؀ۧ ) 75- القيامة:40 ) پر پہنچتے تو فرماتے سبحانک و بلی اللہ تعالیٰ یہاں ارشاد فرماتا ہے اپنے بلندیوں والے پرورش کرنے والے اللہ کے پاک نام کی پاکیزگی اور تسبیح بیان کرو جس نے تمام مخلوق کو پیدا کیا اور سب کو اچھی ہیئت بخشی انسان کو سعادت شقاوت کے چہرے دکھا دئیے اور جانور کو چرنے چگنے وغیرہ کے سامان مہیا کیے جیسے اور جگہ ہے آیت ( رَبُّنَا الَّذِيْٓ اَعْطٰي كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهٗ ثُمَّ هَدٰى 50؀ ) 20-طه:50 ) یعنی ہمارا رب وہ ہے جس نے ہر چیز کو اس کی پیدائش عطا فرمائی پھر رہبری کی صحیح مسلم شریف کی حدیث میں ہے کہ زمین آسمان کی پیدائش سے پچاس ہزار سال پہلے اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق کی تقدیر لکھی اس کا عرش پانی پر تھا جس نے ہر قسم کے نباتات اور کھیت نکالے پھر ان سرسبز چاروں کو خشک اور سیاہ رنگ کر دیا بعض عارفان کلام عرب نے کہا ہے کہ یہاں بعض الفاظ جو ذکر میں موخر ہیں معنی کے لحاظ سے مقدم ہیں یعنی مطلب یہ ہے کہ جس نے گھاس چارہ سبز رنگ سیاہی مائل پیدا کیا پھر اسے خشک کر دیا گویہ معنی بھی بن سکتے ہیں لیکن کچھ زیادہ ٹھیک نظر نہیں آتے کیونکہ مفسرین کے اقوال کے خلاف ہیں پھر فرماتا ہے کہ تجھے ہم اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایسا پڑھائیں گے جسے تو بھولے نہیں ہاں اگر خود اللہ کوئی آیت بھلا دینا چاہے تو اور بات ہے امام ابن جریر تو اسی مطلب کو پسند کرتے ہیں اور مطلب اس آیت کا یہ ہے کہ جو قرآن ہم تجھے پڑھاتے ہیں اسے نہ بھول ہاں جسے ہم خود منسوخ کر دیں اس کی اور بات ہے اللہ پر بندوں کے چھپے کھلے اعمال احوال عقائد سب ظاہر ہیں ہم تجھ پر بھلائی کے کام اچھی باتیں شرعی امر آسان کر دیں گے نہ اس میں کجی ہو گی نہ سختی نہ جرم ہو گا تو نصیحت کر اگر نصیحت فائدے دے ۔ اس سے معلوم ہوا کہ نالائقوں کو نہ سکھانا چاہیے جیسے کہ امیر المومنین حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں کہ اگر تم دوسروں کے ساتھ وہ باتیں کرو گے جو ان کی عقل میں نہ آ سکیں تو نتیجہ یہ ہو گا کہ تمہاری بھلی باتیں ان کے لیے بری بن جائیں گی اور باعث فتنہ ہو جائیں گی بلکہ لوگوں سے ان کی سمجھ کے مطابق بات چیت کرو تاکہ لوگ اللہ اور رسول کو نہ جھٹلائیں ۔ پھر فرمایا کہ اس سے نصیحت وہ حاصل کریگا جس کے دل میں اللہ کا خوف ہے جو اس کی ملاقات پر یقین رکھتا ہے اور اس سے وہ عبرت و نصیحت حاصل نہیں کر سکتا جو بد بخت ہو جو جہنم میں جانے والا ہو جہاں نہ تو راحت کی زندگی ہے نہ بھلی موت ہے بلکہ وہ لازوال عذاب اور دائمی برائی ہے اس میں طرح طرح کے عذاب اور بدترین سزائیں ہیں مسند احمد میں ہے کہ جو اصلی جہنمی ہیں انہیں نہ تو موت آئیگی نہ کار آمد زندگی ملے گی ہاں جن کے ساتھ اللہ کا ارادہ رحمت کا ہے وہ آگ میں گرتے ہی جل کر مر جائیں گے پھر سفارشی لوگ جائیں گے اور ان میں سے اکثر کو چھڑا لائیں گے پھر نہر حیاۃ میں ڈال دئیے جائیں گے جنتی نہروں کا پانی ان پر ڈالا جائیگا اور وہ اس طرح جی اٹھیں گے جس طرح دانہ نالی کے کنارے کوڑے پر اگ آتا ہے کہ پہلے سبز ہوتا ہے پھر زرد پھر ہرا لوگ کہنے لگے حضور صلی اللہ علیہ وسلم تو اس طرح بیان فرماتے ہیں جیسے آپ جنگل سے واقف ہوں یہ حدیث مختلف الفاظ سے بہت سی کتب میں مروی ہے قرآن کریم میں اور جگہ وارد ہے آیت ( وَنَادَوْا يٰمٰلِكُ لِيَقْضِ عَلَيْنَا رَبُّكَ ۭ قَالَ اِنَّكُمْ مّٰكِثُوْنَ 77؀ ) 43- الزخرف:77 ) یعنی جہنمی لوگ پکار پکار کر کہیں گے کہ اے مالک داروغہ جہنم اللہ سے کہہ وہ ہمیں موت دے دے جواب ملے گا تم تو اب اسی میں پڑے رہنے والے ہو اور جگہ ہے آیت ( لَا يُقْضٰى عَلَيْهِمْ فَيَمُوْتُوْا وَلَا يُخَـفَّفُ عَنْهُمْ مِّنْ عَذَابِهَا ۭ كَذٰلِكَ نَجْزِيْ كُلَّ كَفُوْرٍ 36؀ۚ ) 35- فاطر:36 ) یعنی نہ تو ان کی موت آئیگی نہ عذاب کم ہوں گے اس معنی کی آیتیں اور بھی ہیں ۔