Surah

Information

Surah # 4 | Verses: 176 | Ruku: 24 | Sajdah: 0 | Chronological # 92 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD)
وَ مَنۡ يَّعۡمَلۡ سُوۡٓءًا اَوۡ يَظۡلِمۡ نَفۡسَهٗ ثُمَّ يَسۡتَغۡفِرِ اللّٰهَ يَجِدِ اللّٰهَ غَفُوۡرًا رَّحِيۡمًا‏ ﴿110﴾
جو شخص کوئی برائی کرے یا اپنی جان پر ظلم کرے پھر اللہ سے استغفار کرے تو وہ اللہ کو بخشنے والا ، مہربانی کرنے والا پائے گا ۔
و من يعمل سوءا او يظلم نفسه ثم يستغفر الله يجد الله غفورا رحيما
And whoever does a wrong or wrongs himself but then seeks forgiveness of Allah will find Allah Forgiving and Merciful.
Jo shaks koi buraee keray ya apni jaan per zulm keray phir Allah Taalaa say istaghfaar keray to woh Allah ko bakshney wala meharbani kerney wala payega.
اور جو شخص کوئی برا کام کر گذرے یا اپنی جان پر ظلم کر بیٹھے ، پھر اللہ سے معافی مانگ لے تو وہ اللہ کو بہت بخشنے والا ، بڑا مہربان پائے گا ۔
اور جو کوئی برائی یا اپنی جان پر ظلم کرے پھر اللہ سے بخشش چاہے تو اللہ کو بخشنے والا مہربان پائے گا ،
اگر کوئی شخص برا فعل کر گزرے یا اپنے نفس پر ظلم کر جائے اور اس کے بعد اللہ سے درگزر کی درخواست کرے تو اللہ کو درگزر کرنے والا اور رحیم پائے گا ۔
اور جو کوئی برا کام کرے یا اپنی جان پر ظلم کرے پھر اللہ سے بخشش طلب کرے وہ اللہ کو بڑا بخشنے والا نہایت مہربان پائے گا
سچی توبہ کبھی مسترد نہیں ہوتی اللہ تعالیٰ اپنا کرم اور اپنی مہربانی کو بیان فرماتا ہے کہ جس گناہ سے جو کوئی توبہ کرے اللہ اس کی طرف مہربانی سے رجوع کرتا ہے ، ہر وہ شخص جو رب کی طرف جھکے رب اپنی مہربانی سے اور اپنی وسعت رحمت سے اسے ڈھانپ لیتا ہے اور اس کے صغیرہ کبیرہ گناہ کو بخشش دیتا ہے ، چاہے وہ گناہ آسمان و زمین اور پہاڑوں سے بھی بڑے ہوں ، بنو اسرائیل میں جب کوئی گناہ کرتا تو اس کے دروازے پر قدرتی حروف میں کفارہ لکھا ہوا نظر آجاتا جو اسے ادا کرنا پڑتا اور انہیں یہ بھی حکم تھا کہ ان کے کپڑے پر اگر پیشاب لگ جائے تو اتنا کپڑا کتروا ڈالیں اللہ نے اس امت پر آسانی کر دی پانی سے دھو لینا ہی کپڑے کی پاکی رکھی اور توبہ کر لیناہی گناہ کی معافی ، ایک عورت نے حضرت عبداللہ بن مفضل سے سوال کیا کہ عورت نے بدکاری کی پھر جب بچہ ہوا تو اسے مار ڈالا آپ نے فرمایا اس کی سزا جہنم ہے وہ روتی ہوئی واپس چلی تو آپ نے اسے بلایا اور ( وَمَنْ يَّعْمَلْ سُوْۗءًا اَوْ يَظْلِمْ نَفْسَهٗ ثُمَّ يَسْتَغْفِرِ اللّٰهَ يَجِدِ اللّٰهَ غَفُوْرًا رَّحِيْمًا ) 4 ۔ النسآء:110 ) پڑھ کر سنائی تو اس نے اپنے آنسو پونچھ ڈالے اور واپس لوٹ گئی ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جس مسلمان سے کوئی گناہ سرزد ہو جائے پھر وہ وضو کرکے دو رکعت نماز ادا کرکے اللہ سے استغفار کرے تو اللہ اس کے اس گناہ کو بخش دیتا ہے پھر آپ نے یہ آیت اور ( وَالَّذِيْنَ اِذَا فَعَلُوْا فَاحِشَةً اَوْ ظَلَمُوْٓا اَنْفُسَھُمْ ذَكَرُوا اللّٰهَ فَاسْتَغْفَرُوْا لِذُنُوْبِھِمْ ۠ وَ مَنْ يَّغْفِرُ الذُّنُوْبَ اِلَّا اللّٰهُ ڞ وَلَمْ يُصِرُّوْا عَلٰي مَا فَعَلُوْا وَھُمْ يَعْلَمُوْنَ ) 3 ۔ آل عمران:135 ) کی تلاوت کی ۔ اس حدیث کا پورا بیان ہم نے مسند ابو بکر میں کر دیا ہے اور کچھ بیان سورہ آل عمران کی تفسیر میں بھی گذرا ہے ، حضرت ابو درداء فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت مبارک تھی کہ مجلس میں سے اٹھ کر اپنے کسی کام کے لئے کبھی جاتے اور واپس تشریف لانے کا ارادہ بھی ہوتا جوتی یا کپڑا کچھ نہ کچھ چھوڑ جاتے ، ایک مرتبہ آپ اپنی جوتی چھوڑے ہوئے اُٹھے ڈولچی پانی کی ساتھ لے چلے میں بھی آپ کے پیچھے ہو لیا آپ کچھ دور جا کر بغیر حاجت پوری کئے واپس آئے اور فرمانے لگے ۔ میرے پاس میرے رب کی طرف سے ایک آنے والا آیا اور مجھے یہ پیغام دے گیا ، پھر آپ نے ( وَمَنْ يَّعْمَلْ سُوْۗءًا اَوْ يَظْلِمْ نَفْسَهٗ ثُمَّ يَسْتَغْفِرِ اللّٰهَ يَجِدِ اللّٰهَ غَفُوْرًا رَّحِيْمًا ) 4 ۔ النسآء:110 ) پڑھی اور فرمایا میں اپنے صحابہ کو یہ خوشخبری سنانے کے لئے راستے میں ہی لوٹ آیا ہوں اس سے پہلے چونکہ ( وَمَنْ يَّعْمَلْ سُوْۗءًا اَوْ يَظْلِمْ نَفْسَهٗ ثُمَّ يَسْتَغْفِرِ اللّٰهَ يَجِدِ اللّٰهَ غَفُوْرًا رَّحِيْمًا ) 4 ۔ النسآء:110 ) یعنی ہر برائی کرنے والے کو اس کی برائی کا بدلہ ملے گا اتر چکی تھی اس لئے صحابہ بہت پریشان تھے ، میں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کسی نے زنا کیا ہو؟ چوری کی ہو؟ پھر وہ استفغار کرے تو اسے بھی اللہ بخش دے گا ؟ آپ نے فرمایا ہاں ، میں نے دوبارہ پوچھا آپ نے کہا ہاں میں نے سہ بارہ دریافت کیا تو آپ نے فرمایا ہاں گو ابو دراداء کی ناک خاک آلود ہو ، پس حضرت ابو درداء جب یہ حدیث بیان کرتے اپنی ناک پر مار کر بتاتے ۔ اس کی اسناد ضعیف ہے اور یہ حدیث غریب ہے ۔ پھر فرمایا گناہ کرنے والا اپنا ہی برا کرتا ہے جیسے اور جگہ ہے کوئی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا ، ایک دوسرے کو نفع نہ پہنچا سکے گا ، ہر شخص انپے کرتوت کا ذمہ دار ہے ، کوئی بوجھ بٹائی نہ ہو گا ، اللہ کا علم ، اللہ کی حکمت اور الٰہی عدل و رحمت کے خلاف ہے کہ ایک گناہ کرے اور دوسرا پکڑا جائے ۔ پھر فرماتا ہے جو خود برا کام کرکے کسی بےگناہ کے سر تھوپ دے جیسے بنوابیرق نے لبید کا نام لے دیا جو واقعہ تفصیل وار اس سے اگلی آیت کی تفسیر میں بیان ہو چکا ہے ، یا مراد زید بن سمین یہودی ہے جیسے بعض اور مفسرین کا خیال ہے کہ اس چوری کی تہمت اس قبیلے نے اس بےگناہ شخص کے ذمہ لگائی تھی اور خود ہی خائن اور ظلم تھے ، آیت گوشان نزول کے اعتبار سے خاص ہے لیکن حکم کے اعتبار سے عام ہے جو بھی ایسا کرے وہ اللہ کی سزا کا مستحق ہے ۔ اس کے بعد کی ( آیت ولولا الخ ، ) کا تعلق بھی اسی واقعہ سے ہے یعنی لبید بن عروہ اور ان کے ساتھیوں نے بنوابیرق کے چوروں کی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے برات اور ان کی پاکدامنی کا اظہار کرکے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اصلیت سے دور رکھنے کا سارا کام پورا کر لیا تھا ، لیکن اللہ تعالیٰ نے جو آپ کی عصمت کا حقیقی نگہبان ہے آپ کو اس خطرناک موقعہ پر خائنوں کی طرف داری سے بچا لیا اور اصلی واقعہ صاف کر دیا ۔ کتاب سے مراد قرآن اور حکم سے مراد سنت ہے ۔ نزول وحی سے پہلے آپ جو نہ جانتے تھے ان کا علم پروردگار نے آپ کو بذریعہ وحی کر دیا جیسے اور آیت میں ہے وکذلک اوجینا الیک روحا من امرنا سے پوری سوت تک اور آیت میں ہے ( وَمَا كُنْتَ تَرْجُوْٓا اَنْ يُّلْقٰٓى اِلَيْكَ الْكِتٰبُ اِلَّا رَحْمَةً مِّنْ رَّبِّكَ فَلَا تَكُوْنَنَّ ظَهِيْرًا لِّـلْكٰفِرِيْنَ ) 28 ۔ القصص:86 ) اسی لئے یہاں بھی فرمایا ۔ یہ سب باتیں اللہ کا فضل ہیں جو آپ کے شامل حال ہے ۔