Surah

Information

Surah # 90 | Verses: 20 | Ruku: 1 | Sajdah: 0 | Chronological # 35 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD)
اَوۡ مِسۡكِيۡنًا ذَا مَتۡرَبَةٍ ؕ‏ ﴿16﴾
یا خاکسار مسکین کو ۔
او مسكينا ذا متربة
Or a needy person in misery
Ya khahsaar miskeen ko
یا کسی مسکین کو جو مٹی میں رل رہا ہو ۔
( ۱٦ ) یا خاک نشین مسکین کو ( ف۱۷ )
یا خاک نشین مسکین کو کھانا کھلانا12 ۔
یا شدید غربت کے مارے ہوئے محتاج کو جو محض خاک نشین ( اور بے گھر ) ہے
سورة الْبَلَد حاشیہ نمبر :12 اوپر چونکہ اس کی فضول خرچیوں کا ذکر کیا گیا ہے جو وہ اپنی بڑائی کی نمائش اور لوگوں پر اپنا فخر جتانے کے لیے کرتا ہے ، اس لیے اب اس کے مقابلے میں بتایا گیا ہے کہ وہ کونسا خرچ اور مال کا کونسا مصرف ہے جو اخلاق کی پستیوں میں گرانے کے بجائے آدمی کو بلندیوں کی طرف لے جاتا ہے ، مگر اس میں نفس کی کوئی لذت نہیں ہے بلکہ آدمی کو اس کے لیے اپنے نفس پر جبر کر کے ایثار اور قربانی سے کام لینا پڑتا ہے ۔ وہ خرچ یہ ہے کہ آدمی کسی غلام کو خود آزاد کرے ، یا اس کی مالی مدد کرے تاکہ وہ اپنا فدیہ ادا کر کے رہائی حاصل کر لے ، یا کسی غریب کی گردن قرض کے جال سے نکالے ، یا کوئی بے وسیلہ آدمی اگر کسی تاوان کے بوجھ سے لد گیا ہو تو اس کی جان اس سے چھڑائے ۔ اسی طرح وہ خرچ یہ ہے کہ آدمی بھوک کی حالت میں کسی قریبی یتیم ( یعنی رشتہ دار یا پڑوسی یتیم ) اور کسی ایسے بےکس محتاج کو کھانا کھلائے جسے غربت و افلاس کی شدت نے خاک میں ملا دیا ہو اور جس کس کی دستگیری کرنے والا کوئی نہ ہو ۔ ایسے لوگوں کی مدد سے آدمی کی شہرت کے ڈنکے تو نہیں بجتے اور نہ ان کو کھلا کر آدمی دولت مندی اور دریا دلی کے وہ چرچے ہوتے ہیں جو ہزاروں کھاتے پیتے لوگوں کی شاندار دعوتیں کرنے سے ہوا کرتے ہیں ، مگر اخلاق کی بلندیوں کی طرف جانے کا راستہ اسی دشوار گزار گھاٹی سے ہو کر گزرتا ہے ۔ ان آیات میں نیکی کے جن کاموں کا ذکر کیا گیا ہے ، ان کے بڑے فضائل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ارشادات میں بیان فرمائے ہیں ۔ مثلاً فَكُّ رَقَبَةٍ ( گردن چھڑانے ) کے بارے میں حضور کی بکثرت احادیث روایات میں نقل ہوئی ہیں جن میں سے ایک حضرت ابو ہریرہ کی یہ روایت ہے کہ حضور نے فرمایا جس شخص نے ایک مومن غلام کو آزاد کیا اللہ تعالی اس غلام کے ہر عضو کے بدلے میں آزاد کرنے والے شخص کے ہر عضو کو دوزخ کی آگ سے بچا لے گا ، ہاتھ کے بدلے میں ہاتھ ، پاؤں کے بدلے میں پاؤں ، شرمگاہ کے بدلے میں شرمگاہ ( مسند احمد ، بخاری ، مسلم ، ترمذی ، نسائی ) ۔ حضرت علی بن حسین ( امام زین العابدین ) نے اس حدیث کے راوی سعد بن مرجانہ سے پوچھا کیا تم نے ابوہریرہ سے یہ حدیث خود سنی ہے؟ انہوں نے کہا ہاں ۔ اس پر امام زین العابدین نے اپنے سب سے زیادہ قیمتی غلام کو بلایا اور اسی وقت اسے آزاد کر دیا ۔ مسلم میں بیان کیا گیا ہے کہ اس غلام کے لیے ان کو دس ہزار درہم قیمت مل رہی تھی ۔ امام ابو حنیفہ اور امام شعبی نے اسی آیت کی بنا پر کہا ہے کہ غلام آزاد کرنا صدقے سے افضل ہے کیونکہ اللہ تعالی نے اس کا ذکر صدقے پر مقدم رکھا ہے ۔ مساکین کی مدد کے فضائل بھی حضور نے بکثرت احادیث میں ارشاد فرمائے ہیں ۔ ان میں سے ایک حضرت ابوہریرہ کی یہ حدیث ہے کہ حضور نے فرمایا الساعی علی الارملۃ و المسکین کالساعی فی سبیل اللہ و احسبہ قال کالقائم لا یفترو کالصائم لا یفطر بیوہ اور مسکین کی مدد کے لیے دوڑ دھوپ کرنے والا ایسا ہے جیسے جہاد فی سبیل اللہ میں دوڑ دھوپ کرنے والا ۔ ( اور حضرت ابو ہریرہ کہتے ہیں کہ ) مجھے یہ خیال ہوتا ہے کہ حضور نے یہ بھی فرمایا تھا کہ وہ ایسا ہے جیسے وہ شخص جو نماز میں کھڑا رہے اور آرام نہ لے اور وہ جو پے درپے روزے رکھے اور کبھی روزہ نہ چھوڑے ( بخاری و مسلم ) یتامی کے بارے میں حضور کے بے شمار ارشادات ہیں ۔ حضرت سہل بن سعد کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں اور وہ شخص جو کسی رشتہ دار یا غیر رشتہ دار یتیم کی کفالت کرے ، جنت میں اس طرح ہوں گے یہ فرما کر آپ نے شہادت کی انگلی اور بیچ کی انگلی کو اٹھا کر دکھایا اور دونوں انگلیوں کے درمیان تھوڑا سا فاصلہ رکھا ( بخاری ) ۔ حضرت ابو ہریرہ حضور کا یہ ارشاد نقل کرتے ہیں کہ مسلمانوں کے گھروں میں بہترین گھر وہ ہے جس میں کسی یتیم سے نیک سلوک ہو رہا ہو اور بد ترین گھر وہ ہے جس میں کسی یتیم سے برا سلوک ہو رہا ہو ( ابن ماجہ ۔ بخاری فی الادب المفرد ) ۔ حضرت ابو امامہ کہتے ہیں کہ حضور نے فرمایا جس نے کسی یتیم کے سر پر ہاتھ پھیرا اور محض اللہ کی خاطر پھیرا اس بچے کے ہر بال کے بدلے جس پر اس شخص کا ہاتھ گزرا اس کے لیے نیکیاں لکھی جائیں گی ، اور جس نے کسی یتیم لڑکے یا لڑکی کے ساتھ نیک برتاؤ کیا وہ اور میں جنت میں اس طرح ہوں گے ۔ اور یہ فرما کر حضور نے اپنی دو انگلیاں ملا کر بتائیں ( مسند احمد ، ترمذی ) ۔ ابن عباس کا بیان ہے کہ سرکار رسالت ماب نے ارشاد فرمایا جس نے کسی یتیم کو اپنے کھانے اور پینے میں شامل کیا اللہ نے اس کے لیے جنت واجب کر دی الا یہ کہ وہ کوئی ایسا گناہ کر بیٹھا ہو جو معاف نہیں کیا جا سکتا ( شرح السنہ ) ۔ حضرت ابو ہریرہ فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے شکایت کی کہ میرا دل سخت ہے ۔ حضور نے فرمایا یتیم کے سر پر ہاتھ پھیر اور مسکین کو کھانا کھلا ( مسند احمد ) ۔