Surah

Information

Surah # 4 | Verses: 176 | Ruku: 24 | Sajdah: 0 | Chronological # 92 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD)
اِنَّ اللّٰهَ لَا يَغۡفِرُ اَنۡ يُّشۡرَكَ بِهٖ وَيَغۡفِرُ مَا دُوۡنَ ذٰ لِكَ لِمَنۡ يَّشَآءُ‌ ؕ وَمَنۡ يُّشۡرِكۡ بِاللّٰهِ فَقَدۡ ضَلَّ ضَلٰلًاۢ بَعِيۡدًا‏ ﴿116﴾
اسے اللہ تعالٰی قطعًا نہ بخشے گا کہ اس کے ساتھ شریک مقرر کیا جائے ، ہاں شرک کے علاوہ گناہ جس کے چاہے معاف فرما دیتا ہے اور اللہ کے ساتھ شریک کرنے والا بہت دور کی گمراہی میں جا پڑا ۔
ان الله لا يغفر ان يشرك به و يغفر ما دون ذلك لمن يشاء و من يشرك بالله فقد ضل ضللا بعيدا
Indeed, Allah does not forgive association with Him, but He forgives what is less than that for whom He wills. And he who associates others with Allah has certainly gone far astray.
Ussay Allah Taalaa qatan na bakshay ga kay uss kay sath shareek muqarrar kiya jaye haan shirk kay ilawa gunah jiss kay chahaye moaf farma deta hai aur Allah kay sath sharik kerney wala boht door ki gumrahi mein jaa para.
بیشک اللہ اس بات کو نہیں بخشتا کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرایا جائے ، اور اس سے کمتر ہر گناہ کی جس کے لیے چاہتا ہے بخشش کردیتا ہے ۔ ( ٦٩ ) اور جو شخص اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہراتا ہے ، وہ راہ راست سے بھٹک کر بہت دور جا گرتا ہے ۔
اللہ اسے نہیں بخشتا کہ اس کا کوئی شریک ٹھہرایا جائے اور اس سے نیچے جو کچھ ہے جسے چاہے معاف فرما دیتا ہے ( ف۳۰۵ ) اور جو اللہ کا شریک ٹھہرائے وہ دور کی گمراہی میں پڑا ،
اللہ کے ہاں 144 بس شرک ہی کی بخشش نہیں ہے ، اس کے سوا اور سب کچھ معاف ہو سکتا ہے جسے وہ معاف کرنا چاہے ۔ جس نے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرایا وہ تو گمراہی میں بہت دور نکل گیا ۔
بیشک اللہ اس ( بات ) کو معاف نہیں کرتا کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرایا جائے اور جو ( گناہ ) اس سے نیچے ہے جس کے لئے چاہے معاف فرما دیتا ہے ، اور جو کوئی اللہ کے ساتھ شرک کرے وہ واقعی دور کی گمراہی میں بھٹک گیا
سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :144 اس رکوع میں اوپر کے سلسلہ کلام کو جاری رکھتے ہوئے ارشاد ہوا ہے کہ اپنی جاہلیت کے طیش میں آکر یہ شخص جس راہ کی طرف گیا ہے وہ کیسی راہ ہے ، اور صالحین کے گروہ سے الگ ہو کر جن لوگوں کا ساتھ اس نے اختیار کیا ہے وہ کیسے لوگ ہیں ۔
مشرک کی پہچان اور ان کا انجام اس سورت کے شروع میں پہلی آیت کے متعلق ہم پوری تفسیر کر چکے ہیں اور وہیں اس آیت سے تعلق رکھنے والی حدیثیں بھی بیان کر دی ہیں ، حضرت علی فرمایا کرتے تھے قرآن کی کوئی آیت مجھے اس آیت سے زیادہ محبوب نہیں ( ترمذی ) مشرکین سے دنیا اور آخرت کی بھلائی دور ہو جاتی ہے اور وہ راہ حق سے دور ہو جاتے ہیں وہ اپنے آپ کو اور اپنے دونوں جہانوں کو برباد کر لیتے ہیں ، یہ مشرکین عورتوں کے پرستار ہیں ، حضرت کعب فرماتے ہیں ہر صنم کے ساتھ ایک جنبیہ عورت ہے ، حضرت عائشہ فرماتی ہیں اِنَاثًا سے مراد بت ہیں ، یہ قول اور بھی مفسرین کا ہے ، ضحاک کا قول ہے کہ مشرک فرشتوں کو پوجتے تھے اور انہیں اللہ کی لڑکیاں مانتے تھے اور کہتے تھے کہ ان کی عبادت ہے ہماری اصل غرض اللہ عزوجل کی نزدیکی حاصل کرنا ہے اور ان کی تصویریں عورتوں کی شکل پر بناتے تھے پھر حکم کرتے تھے اور تقلید کرتے تھے اور کہتے تھے کہ یہ صورتیں فرشتوں کی ہیں جو اللہ کی لڑکیاں ہیں ۔ یہ تفسیر ( اَفَرَءَيْتُمُ اللّٰتَ وَالْعُزّٰى ) 53 ۔ النجم:24 ) کے مضمون سے خوب ملتی ہے جہاں ان کے بتوں کے نام لے کر اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ یہ خوب انصاف ہے کہ لڑکے تو تمہارے اور لڑکیاں میری؟ اور آیت میں ہے ( وَجَعَلُوا الْمَلٰۗىِٕكَةَ الَّذِيْنَ هُمْ عِبٰدُ الرَّحْمٰنِ اِنَاثًا ۭاَشَهِدُوْا خَلْقَهُمْ ۭ سَـتُكْتَبُ شَهَادَتُهُمْ وَيُسْــَٔــلُوْنَ ) 43 ۔ الزخرف:19 ) ان لوگوں نے اللہ تعالیٰ اور جنات میں نسب نکالے ہیں ، ابن عباس فرماتے ہیں مراد مردے ہیں ، حسن فرماتے ہیں ہر بےروح چیز اناث ہے خواہ خشک لکڑی ہو خواہ پتھر ہو ، لیکن یہ قول غریب ہے ۔ پھر ارشاد ہے کہ دراصل یہ شیطانی پوجا کے پھندے میں تھے ، شیطان کو رب نے اپنی رحمت سے کر دیا اور اپنی بارگاہ سے نکال باہر کیا ہے ، اس نے بھی بیڑا اٹھا رکھا ہے کہ اللہ کے بندوں کو معقول تعداد میں بہکائے ، قتادہ فرماتے ہیں یعنی ہر ہزار میں سے نو سو ننانوے کو جنم میں اپنے ساتھ لے جائے گا ، ایک بچ رہے گا جو جنت کا مستحق ہو گا ، شیطان نے کہا ہے کہ میں انہیں حق سے بہکاؤں گا اور انہیں امید دلاتا رہوں گا یہ توبہ ترک کر بیٹھیں گے ، خواہشوں کے پیچھے پڑ جائیں گے موت کو بھول بیٹھیں گے نفس پروری اور آخرت سے غافل ہو جائیں گے ، جانوروں کے کان کاٹ کر یا سوراخ دار کرکے اللہ کے سوا دوسروں کے نام کرنے کی انہیں تلقین کروں گا ، اللہ کی بنائی ہوئی صورتوں کو بگاڑنا سکھاؤں گا جیسے جانوروں کو خصی کرنا ۔ ایک حدیث میں اس سے بھی ممانعت آئی ہے ( شاید مراد اس سے نل منقطع کرنے کی غرض سے ایسا کرنا ہے ) ایک معنی یہ بھی کئے گئے ہیں کہ چہرے پر گودنا گدوانا ، جو صحیح مسلم کی حدیث میں ممنوع ہے اور جس کے کرنے والے پر اللہ کی لعنت وارد ہوئی ہے ، ابن مسعود سے صحیح سند سے مروی ہے کہ گود نے والیوں اور گدوانے والیوں ، پیشانی کے بال نوچنے والیوں اور نچوانے والیوں اور دانتوں میں کشادگی کرنے والیوں پر جو حسن و خوبصورتی کے لئے اللہ کی بناوٹ کو بگاڑتی ہیں اللہ کی لعنت ہے میں ان پر لعنت کیوں نہ بھیجوں؟ جن پر رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت کی ہے اور جو کتاب اللہ میں موجود ہے پھر آپ نے ( وَمَآ اٰتٰىكُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْهُ ۤ وَمَا نَهٰىكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوْا ۚ وَاتَّقُوا اللّٰهَ ۭ اِنَّ اللّٰهَ شَدِيْدُ الْعِقَابِ ) 59 ۔ الحشر:7 ) پڑھی بعض اور مفسرین کرام سے مروی ہے کہ مراد اللہ کے دین کو بدل دینا ہے جیسے اور آیت میں ہے ( فَاَقِمْ وَجْهَكَ لِلدِّيْنِ حَنِيْفًا ۭ فِطْرَتَ اللّٰهِ الَّتِيْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا ۭ لَا تَبْدِيْلَ لِخَلْقِ اللّٰهِ ۭ ذٰلِكَ الدِّيْنُ الْـقَيِّمُ ڎ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُوْنَ ) 30 ۔ الروم:30 ) یعنی اپنا چہرہ قائم رکھ کر اللہ کے یکطرفہ دین کا رخ اختیار کرنا یہ اللہ کی وہ فطرت ہے جس پر تمام انسانوں کو اس نے پیدا کیا ہے اللہ کی خلق میں کوئی تبدیلی نہیں ، اس سے پچھلے ( آخری ) جملے کو اگر امر کے معنی میں لیا جائے تو یہ تفسیر ٹھیک ہو جاتی ہے یعنی اللہ کی فطرف کو نہ بدلو لوگوں کو میں نے جس فطرف پر پیدا کیا ہے اسی پر رہنے دو ، بخاری ومسلم میں ہے ہر بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے لیکن اس کے ماں باپ پھر اسے یہودی یا نصرانی یا مجوسی بنا لیتے ہیں جیسے بکری کا صحیح سالم بچہ بےعیب ہوتا ہے لیکن پھر لوگ اس کے کان وغیرہ کاٹ دیتے ہیں اور اسے عیب دار کر دیتے ہیں ، صحیح مسلم میں ہے اللہ عزوجل فرماتا ہے میں نے اپنے بندوں کو یکسوئی والے دین پر پیدا کیا لیکن شیطان نے آکر انہیں بہکا دیا پھر میں نے اپنے حلال کو ان پر حرام کر دیا ۔ شیطان کو دوست بنانے والا اپنا نقصان کرنے والا ہے جس نقصان کی کبھی تلافی نہ ہو سکے ۔ کیونکہ شیطان انہیں سبز باغ دکھاتا رہتا ہے غلط راہوں میں ان کی فلاح وبہود کا یقین دلاتا ہے دراصل وہ بڑا فریب اور صاف دھوکا ہوتا ہے ، چنانچہ شیطان قیامت کے دن صاف کہے گا اللہ کے وعدے سچے تھے اور میں تو وعدہ خلاف ہوں ہی میرا کوئی زور تم پر تھا ہی نہیں میری پکار کو سنتے ہی کیوں تم مست و بےعقل بن گئے؟ اب مجھے کیوں کوستے ہو؟ اپنے آپ کو برا کہو ۔ شیطانی وعدوں کو صحیح جاننے والے اس کی دلائی ہوئی اُمیدوں کو پوری ہونے والی سمجھنے والے آخرش جہنم واصل ہو نگے جہاں سے چھٹکارا محال ہو گا ۔ ان بدبختوں کے ذکر کے بعد اب نیک لوگوں کا حال بیان ہو رہا ہے کہ جو دل سے میرے ماننے والے ہیں اور جسم سے میری تابعداری کرنے والے ہیں میرے احکام پر عمل کرتے ہیں میری منع کردہ چیزوں سے باز رہتے ہیں میں انہیں اپنی نعمتیں دوں گا انہیں جنتوں میں لے جاؤں گا جن کی نہریں جہاں یہ چاہیں خود بخود بہنے لگیں جن میں زوال ، کمی یا نقصان بھی نہیں ہے ، اللہ کا یہ وعدہ اصل اور بالکل سچا ہے اور یقینا ہونے والا ہے اللہ سے زیادہ سچی بات اور کس کی ہو گی؟ اس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں نہ ہی کوئی اس کے سوا مربی ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے خطبے میں فرمایا کرتے تھے سب سے زیادہ سچی بات اللہ کا کلام ہے اور سب سے بہتر ہدایت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت ہے اور تمام کاموں میں سب سے برا کام دین میں نئی بات نکالنا ہے اور ہر ایسی نئی بات کا نام بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی اور ہر گمراہی جہنم میں ہے ۔