Surah

Information

Surah # 91 | Verses: 15 | Ruku: 1 | Sajdah: 0 | Chronological # 26 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Early Makkah phase (610-618 AD)
وَنَفۡسٍ وَّمَا سَوّٰٮهَا ۙ‏ ﴿7﴾
قسم ہے نفس کی اور اسے درست بنانے کی
و نفس و ما سوىها
And [by] the soul and He who proportioned it
Qasam hai nafs ki or ussy durust bananey ki
اور انسانی جان کی ، اور اس کی جس نے اسے سنوارا ۔
( ۷ ) اور جان کی اور اس کی جس نے اسے ٹھیک بنایا ( ف۵ )
اور نفس انسانی کی اور اس ذات کی قسم جس نے اسے ہموار کیا4
اور انسانی جان کی قَسم اور اسے ہمہ پہلو توازن و درستگی دینے والے کی قَسم
سورة الشَّمْس حاشیہ نمبر :4 ہموار کرنے سے مراد یہ ہے کہ اس کو ایسا جسم عطا کیا جو اپنے قامت راست اور اپنے ہاتھ پاؤں اور اپنے دماغ کے اعتبار سے انسان کی سی زندگی بسر کرنے کے لیے موزوں ترین تھا ۔ اس کو دیکھنے ، سننے ، چھونے ، چکھنے اور سونگھنے کے ایسے حواس عطا کیے جو اپنے تناسب اور اپنی خصوصیات کی بنا پر اس کے لیے بہترین ذریعہ علم بن سکتے تھے ۔ اس کو قوت عقل و فکر ، قوت استدلال و استنباط ، قوت خیال ، قوت حافظہ ، قوت تمیز ، قوت فیصلہ ، قوت ارادی اور دوسری ایسی ذہنی قوتیں عطا کیں جن کی بدولت وہ دنیا میں اس کام کے قابل ہوا جو انسان کے کرنے کا ہے ۔ اس کے علاوہ ہموار کرنے میں یہ مفہوم بھی شامل ہے کہ اسے پیدائشی گناہ گار اور جبلی بدمعاش بنا کر نہیں بلکہ راست اور سیدھی فطرت پر پیدا کیا اور اسکی ساخت میں کوئی خلقی کجی نہیں رکھ دی کہ وہ سیدھی راہ اختیار کرنا چاہے بھی تو نہ کر سکے ۔ یہی بات ہے جسے سورہ روم میں بایں الفاظ بیان کیا گیا ہے کہ فِطْرَتَ اللَّـهِ الَّتِي فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا ، قائم ہو جاؤ اس فطرت پر جس پر اللہ تعالی نے انسانوں کو پیدا کیا ، ( آیت 30 ) ۔ اور اس بات کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک حدیث میں یوں بیان فرمایا ہے کہ کوئی بچہ ایسا نہیں ہے جو فطرت کے سوا کسی اور چیز پر پیدا ہوتا ہو ، پھر اس کے ماں باپ اسے یہودی یا نصرانی یا مجوسی بنا دیتے ہیں ۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے جانور کے پیٹ سے پورا کا پورا صحیح و سالم بچہ پیدا ہوتا ہے کیا تم ان میں کسی کا کان کٹا ہوا پاتے ہو؟ ( بخاری و مسلم ) ۔ یعنی یہ مشرکین ہیں جو بعد میں اپنے اوہام جاہلیت کی بنا پر جانوروں کے کان کاٹتے ہیں ، ورنہ خدا کسی جانور کو ماں کے پیٹ سے کٹے ہوئے کان لے کر پیدا نہیں کرتا ۔ ایک اور حدیث میں حضور کا ا رشاد ہے میرا رب فرماتا ہے کہ میں نے اپنے تمام بندوں کو حنیف ( صحیح الفطرت ) پیدا کیا تھا ، پھر شیاطین نے آ کر ان کو ان کے دین ( یعنی ان کے فطری دین ) سے گمراہ کر دیا اور ان پر وہ چیزیں حرام کر دیں جو میں نے ان کے لیے حلال کی تھیں اور ان کو حکم دیا کہ میرے ساتھ ان کو شریک کریں جن کے شریک ہونے پر میں نے کوئی دلیل نازل نہیں کی ۔ ( مسند احمد ، مسلم نے بھی اس سے ملتے جلتے الفاظ میں حضور کا یہ ارشاد نقل کیا ہے ) ۔