Surah

Information

Surah # 94 | Verses: 8 | Ruku: 1 | Sajdah: 0 | Chronological # 12 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Early Makkah phase (610-618 AD)
اَلَمۡ نَشۡرَحۡ لَـكَ صَدۡرَكَۙ‏ ﴿1﴾
کیا ہم نے تیرا سینہ نہیں کھول دیا ۔
الم نشرح لك صدرك
Did We not expand for you, [O Muhammad], your breast?
Kiya hum nay tera seena nahi khol diya
۔ ( اے پیغمبر ) کیا ہم نے تمہاری خاطر تمہارا سینہ کھول نہیں دیا؟
( ۱ ) کیا ہم نے تمہارا سینہ کشادہ نہ کیا ( ف۲ )
﴿اے نبی ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ﴾ کیا ہم نے تمہارا سینہ تمہارے لیے کھول نہیں دیا1؟
کیا ہم نے آپ کی خاطر آپ کا سینہ ( انوارِ علم و حکمت اور معرفت کے لئے ) کشادہ نہیں فرما دیا
سورة الْاِنْشِرَاح حاشیہ نمبر :1 اس سوال سے کلام کا آغاز ، اور پھر بعد کا مضمون یہ ظاہر کرتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس زمانے میں ان شدید مشکلات پر سخت پریشان تھے جو دعوت اسلامی کا کام شروع کرنے کے بعد ابتدائی دور میں آپ کو پیش آ رہی تھیں ۔ ان حالات میں اللہ تعالی نے آپ کو مخاطب کر کے تسلی دیتے ہوئے فرمایا اے نبی ، کیا ہم نے یہ اور یہ عنایات تم پر نہیں کی ہیں؟ پھر ان ابتدائی مشکلات پر تم پریشان کیوں ہوتے ہو؟ سینہ کھولنے کا لفظ قرآن مجید میں جن مواقع پر آیا ہے ان پر نگاہ ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کے دو معنی ہیں: ( 1 ) سورۃ انعام آیت 125 میں فرمایا فَمَن يُرِدِ اللَّـهُ أَن يَهْدِيَهُ يَشْرَحْ صَدْرَهُ لِلْإِسْلَامِ پس جس شخص کو اللہ تعالی ہدایت بخشنے کا ارادہ فرماتا ہے اس کا سینہ اسلام کے لیے کھول دیتا ہے ۔ اور سورہ زمر آیت 22 میں فرمایا أَفَمَن شَرَحَ اللَّـهُ صَدْرَهُ لِلْإِسْلَامِ فَهُوَ عَلَىٰ نُورٍ مِّن رَّبِّهِ تو کیا وہ شخص جس کا سینہ اللہ نے اسلام کے لیے کھول دیا ہو پھر وہ اپنے رب کی طرف سے ایک روشنی پر چل رہا ہو ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ان دونوں مقامات پر شرح صدر سے مراد ہر قسم کے ذہنی خلجان اور تردد سے پاک ہو کر اس بات پر پوری طرح مطمئن ہو جانا ہے کہ اسلام کا راستہ ہی برحق ہے اور وہی عقائد ، وہی اصول اخلاق و تہذیب و تمدن ، اور وہی احکام و ہدایات بالکل صحیح ہیں جو اسلام نے انسان کو دیے ہیں ۔ ( 2 ) سورہ شعراء آیت 12 ۔ 13 میں ذکر آیا ہے کہ حضرت موسی کو جب اللہ تعالی نبوت کے منصب عظیم پر مامور کر کے فرعون اور اس کی عظیم سلطنت سے جا ٹکرانے کا حکم دے رہا تھا تو انہوں نے عرض کیا قَالَ رَبِّ إِنِّي أَخَافُ أَن يُكَذِّبُونِ وَيَضِيقُ صَدْرِي میرے رب ، میں ڈرتا ہو کہ وہ لوگ مجھے جھٹلا دیں گے اور میرا سینہ تنگ ہو رہا ہے ۔ اور سورہ طہ آیات 25 ۔ 26 میں بیان کیا گیا ہے کہ اسی موقع پر حضرت موسی نے اللہ تعالی سے دعا مانگی کہ رَبِّ اشْرَحْ لِي صَدْرِي وَيَسِّرْ لِي أَمْرِي میرے رب میرا سینہ میرے لیے کھول دے اور میرا کام میرے لیے آسان کر دے ۔ یہاں سینے کی تنگی سے مراد یہ ہے کہ نبوت جیسے کار عظیم کا بار سنبھالنے اور تن تنہا کفر کی ایک جابر و قاہر طاقت سے ٹکر لینے کی آدمی کو ہمت نہ پڑ رہی ہو ۔ اور شرح صدر سے مراد یہ ہے کہ آدمی کا حوصلہ بلند ہو جائے ، کسی بڑی سے بڑی مہم پر جانے اور کسی سخت سے سخت کام کو انجام دینے میں بھی اسے تامل نہ ہو ، اور نبوت کی عظیم ذمہ داریاں سنبھالنے کی اس میں ہمت پیدا ہو جائے ۔ غور کیا جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ اس آیت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا سینہ کھول دینے سے یہ دونوں معنی مراد ہیں ۔ پہلے معنی کے لحاظ سے اس کا مطلب یہ ہے کہ نبوت سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مشرکین عرب ، نصاری ، یہود ، مجوس ، سب کے مذہت کو غلط سمجھتے تھے ، اور اس حنیفیت پر بھی مطمئن نہ تھے جو عرب کے بعض قائلین توحید میں پائی جاتی تھی ، کیونکہ یہ ایک مبہم عقیدہ تھا جس میں راہ راست کی کوئی تفصیل نہ ملتی تھی ( اس کی تشریح ہم تفہیم القرآن ، جلد چہارم ، السجدہ ، حاشیہ 5 کر چکے ہیں ) ، لیکن آپ کو چونکہ خود یہ معلوم نہ تھا کہ راہ راست کیا ہے ، اس لیے آپ سخت ذہنی خلجان میں مبتلا تھے ۔ نبوت عطا کر کے اللہ تعالی نے آپ کو اس خلجان سے دور کر دیا اور وہ راہ راست کھول کر آپ کے سامنے رکھ دی جس سے آپ کو کامل اطمینان قلب حاصل ہو گیا ۔ دوسرے معنی کے لحاظ سے اس کا مطلب یہ ہے کہ نبوت عطا کرنے کے ساتھ اللہ تعالی نے آپ کو وہ حوصلہ ، وہ ہمت ، وہ اولوالعزمی اور وہ وسعت قلب عطا فرما دی جو اس منصب عظیم کی ذمہ داریاں سنبھالنے کے لیے درکار تھی ۔ آپ اس وسیع علم کے حامل ہو گئے جو آپ کے سوا کسی انسان کے ذہن میں سما نہ سکتا تھا ۔ آپ کو وہ حکمت نصیب ہو گئی جو بڑے سے بڑے بگاڑ کو دور کرنے اور سنوار دینے کی اہلیت رکھتی تھی ۔ آپ اس قابل ہو گئے کہ جاہلیت میں مستغرق اور جہالت کے اعتبار سے انتہائی اکھڑ معاشرے میں کسی سرو سامان اور ظاہراً کسی پشت پناہ طاقت کی مدد کے بغیر اسلام کے علمبردار بن کر کھڑے ہو جائیں ، مخالفت اور دشمنی کے کسی بڑے سے بڑے طوفان کا مقابلہ کرنے سے نہ ہچکچائیں ، اس راہ میں جو تکلیفیں اور مصیبتیں بھی پیش آئیں ان کو صبر کے ساتھ برداشت کر لیں ، اور کوئی طاقت آپ کو اپنے موقف سے نہ ہٹا سکے ۔ یہ شرح صدر کی بیش بہا دولت جب اللہ نے آپ کو عطا کر دی ہے تو آپ ان مشکلات پر دل گرفتہ کیوں ہوتے ہیں جو آغاز کار کے اس مرحلے میں پیش آ رہی ہیں ۔ بعض مفسرین نے شرح صدر کو شق صدر کے معنی میں لیا ہے اور اس آیت کو اس معجزہ شق صدر کا ثبوت قرار دیا ہے جو احادیث کی روایات میں بیان ہوا ہے ۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس معجزے کے ثبوت کا مدار احادیث کی روایات ہی پر ہے قرآن سے اس کو ثابت کرنے کی کوشش صحیح نہیں ہے ۔ عربی زبان کے لحاظ سے شرح صدر کو کسی طرح بھی شق صدر کے معنی میں نہیں لیا جا سکتا ۔ علامہ آلوسی روح المعانی میں فرماتے ہیں کہ حمل الشرح فی الایۃ علی شق الصدر ضعیف عند المحققین محققین کے نزدیک اس آیت میں شرح کو شقِ صدر پر محمول کرنا ایک کمزور بات ہے ۔
یعنی ہم نے تیرے سینے کو منور کر دیا چوڑا کشادہ اور رحمت و کرم والا کردیا اور جگہ ہے فمن برد اللّٰہ الخ ، یعنی جسے اللہ ہدایت دینا چاہتا ہے اس کے سینے کو اسلام کے لیے کھول دیتا ہے ۔ جس طرح آپکا سینہ کشادہ کردیا گیا تھا ۔ اسی طرح آپ کی شریعت بھی کشادگی والی نرمی اور آسانی والی بنا دی ، جس میں نہ تو کوئی حرج ہے نہ تنگی ، نہ ترشی ، نہ تکلیف ، اور سختی ، اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ مراد معراج والی رات سینے کا شق کیا جانا ہے ۔ جیسے کہ مالک بن صعصعہ کی روایت سے پہلے گذرچکا ، امام ترمذی نے اس حدیث کو یہیں وارد کیا ہے ۔ لیکن یہ یاد رہے کہ یہ دونوں واقعات مراد ہو سکتے ہیں یعنی معراج کی رات سینے کا شق کیا جانا اور سینہ کو راز اللہ کا گنجینہ بنا دینا ۔ واللہ اعلم ۔ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بڑی دلیری سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے وہ باتیں پوچھ لیا کرتے تھے جسے دوسرے نہ پوچھ سکتے تھے ایک مرتبہ سوال کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم امر نبوت میں سب سے پہلے آپ نے کیا دیکھا ؟ آپ سنبھل بیٹھے اور فرمانے لگے ابو ہریرہ میں دس سال کچھ ماہ کا تھا جنگل میں کھڑا تھا کہ میں نے اوپر آسمان کی طرف سے کچھ آواز سنی کہ ایک شخص دوسرے سے کہہ رہا ہے کیا یہ وہی ہیں ؟ اب دو شخص میرے سامنے آئے جن کے منہ ایسے منور تھے کہ میں نے ایسے کبھی نہیں دیکھے اور ایسی خوشبو آرہی تھی کہ میرے دماغ نے ایسی خوشبو کبھی نہیں سونگھی اور ایسے کپڑے پہنے ہوئے تھے کہ میں نے کبھی کسی پر ایسے کپڑے نہیں دیکھے اور آکر انہوں نے میرے دونوں بازو تھام لئے لیکن مجھے یہ بھی نہیں معلوم ہوتا تھا کہ کوئی میرے بازو تھامے ہوئے ہے ۔ پھر ایک نے دوسرے سے کہا کہ انہیں لٹا دو چنانچہ اس نے لٹا دیا لیکن اس میں بھی نہ مجھے تکلیف ہوئی نہ برا محسوس ہوا ۔ پھر ایک نے دوسرے سے کہا ان کا سینہ شق کرو چنانچہ میرا سینہ چیر دیا لیکن نہ تو مجھے اس میں کچھ دکھ ہوا اور نہ میں نے خود دیکھا پھر کہا اس میں سے غل و غش ، حسد و بغض سب نکال دو ، چنانچہ اس نے ایک خون بستہ جیسی کوئی چیز نکالی اور اسے پھینک دیا پھر اس نے کہا اس میں رافت و رحمت رحم و کرم بھر دو پھر ایک چاندی جیسی چیز جتنی نکالی تھی اتنی ڈال دی پھر میرے دائیں پاؤں کا انگوٹھا ہلا کر کہا جائیے اور سلامتی سے زندگی گزارئیے اب میں چلا تو میں نے دیکھا کہ ہر چھوٹے پر میرے دل میں شفقت ہے اور ہربڑے پر رحمت ہے ( مسند احمد ) پھر فرمان ہے کہ ہم نے تیرا بوجھ اتار دیا ۔ یہ اسی معنی میں ہے کہ اللہ نے آپ کے اگلے پچھلے گناہ معاف فرمادئیے ۔ جس بوجھ نے تیری کمر سے آواز نکلوا دی تھی یعنی جس نے تیری کمر کو بوجھل کر دیا تھا ۔ ہم نے تیرا ذکر بلند کیا ۔ حضرت مجاہد فرماتے ہیں یعنی جہاں میرا ذکر کیا جائے گا وہاں تیرا ذکر کیا جائے گا جیسے اشہدان لا الہ اللہ واشہد ان محمد ارسول اللہ ۔ قتادہ فرماتے ہیں کہ دنیا اور آخرت میں اللہ تعالیٰ نے آپ کا ذکر بلند کر دیا کوئی خطیب کوئی واعظ کوئی کلمہ گو کوئی نمازی ایسا نہیں جو اللہ کی وحدانیت کا اور آپ کی رسالت کا کلمہ نہ پڑھتا ہو ۔ ابن جریر میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حضرت جبرائیل آئے اور فرمایا کہ میرا اور آپ کا رب فرماتا ہے کہ میں آپ کا ذکر کس طرح بلند کروں؟ آپ نے فرمایا اللہ ہی کو پورا علم ہے فرمایا جب میں ذکر کیا جاؤں تو آپ کا بھی ذکر کیا جائے گا ، ابن ابی حاتم میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں میں نے اپنے رب سے ایک سوال کیا لیکن نہ کرتا تو اچھا ہوتا میں نے کہا اللہ مجھ سے پہلے نبیوں میں سے کسی کے لیے تونے ہوا کو تابعدار کردیا تھا کسی کے ہاتھوں مردوں کو زندہ کر دیا تھا تو اللہ تعالیٰ نے مجھ سے فرمایا کیا تجھے میں نے یتیم پا کر جگہ نہیں دی ؟ میں نے کہا بیشک فرمایا راہ گم کردہ پاکر میں نے تجھے ہدایت نہیں کی ؟ میں نے کہا بیشک فرمایا کیا فقیر پاکر غنی نہیں بنا دیا ؟ میں نے کہا بیشک فرمایا کیا میں نے تیرا سینہ کھول نہیں دیا ؟ کیا میں نے تیرا ذکر بلند نہیں کیا ؟ میں نے کہا بیشک کیا ہے ۔ ابو نعیم دلائل النبوۃ میں لائے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جب میں فارغ ہوا اس چیز سے جس کا حکم مجھے میرے رب عزوجل نے کیا تھا آسمان اور زمین کے کام سے تو میں نے کہا اللہ مجھ سے پہلے جتنے انبیاء ہوئے اب سب کی تو نے تکریم کی ، ابراہیم کو خلیل بنایا ، موسیٰ کو کلیم بنایا داؤد کے لیے پہاڑوں کو مسخر کیا ، سلیمان کے لیے ہواؤں اور شیاطین کو بھی تابعدار بنایا اور عیسیٰ کے ہاتھ پر مردے زندہ کرائے ، پس میرے لیے کیا کیا ہے ؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ کیا میں نے تجھے ان سب سے افضل چیز نہیں دی کہ میرے ذکر کے ساتھ ہی تیرا ذکر بھی کیا جاتا ہے اور میں نے تیری امت کے سینوں کو ایسا کر دیا کہ وہ قرآن کو قرأت سے پڑھتے ہیں ۔ یہ میں نے کسی اگلی امت کو نہیں دیا اور میں نے تجھے اپنے عرش کے خزانوں میں سے خزانہ دیا جولاحول ولا قوت الا باللہ العلی العظیم ہے ابن عباس اور مجاہد فرماتے ہیں کہ اس سے مراس اذان ہے یعنی اذان میں آپ کا ذکر ہے جس طرح حضرت حسان کے شعروں میں ہے ۔ اغر علیہ للنبوۃ خاتم من اللّٰہ من نور یلوح ویشھد وضم الالہ اسم النبی اسمہ اذا قال فی الخمس الموذن اشھد وشق لہ من اسمہ لیجلہ فذو العرش محمود وھذا محمد یعنی اللہ تعالیٰ نے مہر نبوت کو اپنے پاس کا ایک نور بنا کر آپ پر ثبت فرمایا جو آپ کی رسالت کی گواہ ہے اپنے نام کے ساتھ اپنے نبی کا نام ملا لیا جبکہ پانچویں وقت اشھد کہتا ہے آپ کی عزت و جلال کے اظہار کے لیے اپنے نام میں سے آپ کا نام نکالا دیکھو وہ عرش والامحمود ہے اور آپ محمد ہیں ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) اور لوگ کہتے ہیں کہ اگلوں پچھلوں میں اللہ تعالیٰ نے آپ کا ذکر بلند کیا اور تمام انبیاء علیہم السلام سے روز میثاق میں عہد لیا گیا کہ وہ آپ پر ایمان لائیں اور اپنی اپنی امتوں کو بھی آپ پر ایمان لانے کا حکم کریں پھر آپ کی امت میں آپ کے ذکر کو مشہور کیا کہ اللہ کے ذکر کے ساتھ آپ کا ذکر کیا جائے ، صرصری نے کتنی اچھی بات بیان فرمائی ہے فرماتے ہیں کہ فرضوں کی اذان صحیح نہیں ہوتی مگر آپ کے پیارے اور میٹھے نام سے جو پسند یدہ اور اچھے منہ سے ادا ہو ۔ اور فرماتے ہیں کہ تم نہیں دبکنے کہ ہماری اذان اور ہمارا فرض صحیح نہیں ہوتا جب تک کہ آپ کا ذکر باربار اس میں نہ آئے ، پھر اللہ تبارک و تعالیٰ تکرار اور تاکید کے ساتھ دو دو دفعہ فرماتا ہے کہ سختی کے ساتھ آسانی دشواری کے ساتھ سہولت ہے ۔ ابن ابی حاتم میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیٹھے ہوئے تھے اور آپ کے سامنے ایک پتھر تھا پس لوگوں نے کہا اور سختی آئے اور اس پتھر پر گھس جائے تو آسانی ہی آئے گی اور اسی میں جائے گی ۔ اور اسے نکال لائے گی اس پر یہ آیت اتری ۔ مسند بزار حم میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہا گردشواری اس پتھر میں داخل ہو جائے تو آسانی آکر اسے نکالے گی ، پھر آپ نے اس آیت کی تلاوت کی ، یہ حدیث عائز بن شریح حضرت انس سے روایت کرتے ہیں اور ان کے بارے میں ابو حاتم راضی کا فیصلہ ہے کہ ان کی حدیث میں ضعف ہے اور ابن مسعود سے یہ موقوف مروی ہے ۔ حضرت حسن فرماتے ہیں لوگ کہتے تھے کہ ایک سختی دو آسانیوں پر غالب نہیں آسکتی ، حضرت حسن ابن جریر میں مروی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن شادان اور فرحاں آئے اور ہنستے ہوئے فرمانے لگے ہرگزایک دشواری پر دو نرمیوں پر غالب نہیں آسکتی ۔ پھر اس آیت کی آپ نے تلاوت کی ، یہ حدیث مرسل ہے ۔ حضرت قتادہ فرماتے ہیں کہ ہم سے ذکر کیا گیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب کو خوش خبری سنائی کہ دو آسانیوں پر ایک سختی غالب نہیں آسکتی ۔ مطلب یہ ہے کہ عسرہ کے لفظ کو تو دونوں جگہ معرفہ لائے ہیں تو وہ مفرد ہوا اور یسر کے لفظ کو نکرہ لائے ہیں تو وہ متعدد ہو گیا ۔ ایک حدیث میں ہے کہ معونتہ یعنی امداد الٰہی بقدر معونتہ یعنی تکلیف کے آسمان سے نازل ہوتی ہے یعنی صبرمصیبت کی مقدار پر نازل ہوتا ہے حضرت امام شافعی فرماتے ہیں صبر اجمیلا ما اقرب الفرجا من راقب اللّٰہ فی الامر نجا من صدق اللّٰہ لم ینلہ اذی ومن رجاہ یکون حیث رجا یعنی اچھا صبر آسانیوں سے کیا ہی قریب ہے ؟ اپنے کاموں میں اللہ تعالیٰ لحاظ رکھنے والا ، نجات یافتہ ہے ، اللہ تعالیٰ کی باتوں کی تصدیق کرنے والے کو کوئی ایذاء نہیں پہنچتی اس سے بھلائی کی امید رکھنے والا اسے اپنی امید کے ساتھ ہی پاتا ہے ۔ حضرت ابو حاتم سجستانی رحمۃ اللہ علیہ کے اشعار ہیں کہ جب مایوسی دل پر قبضہ کر لیتی ہے اور سینہ باوجود کشادگی کے تنگ ہو جاتا ہے تکلیفیں گھیر لیتی ہیں اور مصیبتیں ڈیرہ جما لیتی ہیں کوئی چارہ سجھائی نہیں دیتا اور کوئی تدبیر نجات کارکردگی نہیں ہوتی اس وقت اچانک اللہ کی مدد آپہنچتی ہے ۔ اور وہ دعاؤں کا سننے والا باریک بین اللہ اس سختی کو آسانی سے اور اس تکلیف کو راحت میں بدل دیتا ہے ۔ تنگیاں جب کہ بھر پور آپڑی ہیں پروردگار معاوسعتیں نازل فرما کر نقصن کو فائدے سے بدل دیتا ہے کسی اور شاعر نے کہا ہے : ولرب نازل یضیق بہ الفتی ذرھا وعند اللّٰہ منھا المخرج کملت فلما :ستحلت حلقا تھا فرجت وکان یظنھا لا تفرج یعنی بہت سی ایسی مصیبتیں انسان پر نازل ہوتی ہیں جن سے وہ تنگ دل ہو جاتا ہے حالانکہ اللہ کے پاس ان سے چھٹکارا بھی ہے جب یہ مصیبتیں کامل ہو جاتی ہیں اور اس زنجیر کے حلقے ، مضبوط ہو جاتے ہیں اور انسان گمان کرنے لگتا ہے کہ بھلا یہ کیا ہٹیں گی کہ اچانک اس رحیم و کریم اللہ کی شفقت بھری نظریں پڑتی ہیں اور اس مصیبت کو اس طرح ودر کرتا ہے کہ گویا آئی ہی نہ تھی ۔ اس کے بعد ارشاد باری ہوتا ہے کہ جب تو دینوی کاموں سے اور یہاں کے اشغال سے فرصت پائے تو ہماری عبادتوں میں لگ جا اور فارغ البال ہو کر دلی توجہ کے ساتھ ہمارے سامنے عاجزی میں لگ جا ، اپنی نیت خالص کر لے اپنی پوری رغبت کے ساتھ ہماری جناب کی طرف متوجہ ہوجا ۔ اسی معنی کی وہ حدیث ہے جس کی صحت پر اتفاق ہے جس میں ہے کہ کھاناسامنے موجود ہونے کے وقت نماز نہیں اور اس حالت میں بھی کہ انسان کو پاخانہ پیشاب کی حاجت ہو اور حدیث میں ہے کہ جب نماز کھڑی کی جائے اور شام کا کھانا سامنے موجود ہو تو پہلے کھانے سے فراغت حاصل کر لو ۔ حضرت مجاہد اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ جب امر دنیا سے فارغ ہو کر نماز کے لیے کھڑے ہو تو محنت کے ساتھ عبادت کرو اور مشغولیت کے ساتھ رب کی طرف توجہ کر ۔ حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ جب فرض نماز سے فارغ ہو تو تہجد کی نماز میں کھڑا ہو ۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ نماز سے فارغ ہو کر بیٹھے ہوئے اپنے رب کی طرف توجہ کر ، حضرت عبداللہ بن عباس فرماتے ہیں یعنی دعا کر ، زید بن اسلم اور ضحاک فرماتے ہیں جہاد سے فارغ ہو کر اللہ کی عبادت میں لگ جا ، ثوری فرماتے ہیں اپنی نیت اور اپنی رغبت اللہ ہی کی طرف رکھ ۔ سورہ الم نشرح کی تفسیر اللہ کے فضل و کرم سے ختم ہوئی ۔ فالحمد اللہ ۔