Surah

Information

Surah # 95 | Verses: 8 | Ruku: 1 | Sajdah: 0 | Chronological # 28 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Early Makkah phase (610-618 AD)
وَالتِّيۡنِ وَالزَّيۡتُوۡنِۙ‏ ﴿1﴾
قسم ہے انجیر کی اور زیتون کی ۔
و التين و الزيتون
By the fig and the olive
Qasm hai enjeer ki aur zetoon ki
قسم ہے انجیر اور زیتون کی ۔
( ۱ ) انجیر کی قسم اور زیتون ( ف۲ )
قسم ہے انجیر اور زیتون کی1
انجیر کی قَسم اور زیتون کی قَسم
سورة التِّیْن حاشیہ نمبر :1 اس کی تفسیر میں مفسرین کے درمیان بہت اختلاف ہوا ہے ۔ حسن بصری ، عکرمہ ، عطاء بن ابی رباح ، جابر بن زید ، مجاہد اور ابراہیم نخعی رحمہم اللہ کہتے ہیں کہ انجیر سے مراد یہی انجیر ہے جسے لوگ کھاتے ہیں اور زیتون بھی یہی زیتون ہے جس سے تیل نکالا جاتا ہے ۔ ابن ابی حاتم اور حاکم نے ایک قول حضرت عبداللہ بن عباس سے بھی اس کی تائید میں نقل کیا ہے ۔ اور جن مفسرین نے اس تفسیر کو قبول کیا ہے انہوں نے انجیر اور زیتون کے خواص اور فوائد بیان کر کے یہ رائے ظاہر کی ہے کہ اللہ تعالی نے انہی خوبیوں کی وجہ سے ان دونوں پھلوں کی قسم کھائی ہے ۔ اس میں شک نہیں کہ ایک عام عربی داں تین اور زیتون کے الفاظ سن کر وہی معنی لے گا جو عربی زبان میں معروف ہیں ۔ لیکن دو وجوہ ایسے ہیں جو یہ معنی لینے میں مانع ہیں ۔ ایک یہ کہ آگے طورِ سینا اور شہر مکہ کی قسم کھائی گئی ہے اور دو پھلوں کے ساتھ دو مقامات کی قسم کھانے میں کوئی مناسبت نظر نہیں آتی ۔ دوسرے ان چار چیزوں کی قسم کھا کر آگے جو مضمون بیان کیا گیا ہے ۔ اس پر طور سینا اور شہر مکہ تو دلالت کرتے ہیں ، لیکن یہ دو پھل اس پر دلالت نہیں کرتے ۔ اللہ تعالی نے قرآن مجید میں جہاں بھی کسی چیز کی قسم کھائی ہے ، اس کی عظمت یا اس کے منافع کی بنا پر نہیں کھائی ، بلکہ ہر قسم اس مضمون پر دلالت کرتی ہے جو قسم کھانے کے بعد بیان کیا گیا ہے ۔ اس لیے ان دونوں پھلوں کے خواص کو وجہ قسم قرار نہیں دیا جا سکتا ۔ بعض دوسرے مفسرین نے تین اور زیتون سے مراد بعض مقامات لیے ہیں ، کعب احبار ، قتادہ اور ابن زید کہتے ہیں کہ تین سے مراد دمشق اور زیتون سے مراد بیت ا لمقدس ۔ ابن عباس کا ایک قول ابن جریر ، ابن ابی حاتم اور ابن مردویہ نے یہ نقل کیا ہے کہ تین سے مراد حضرت نوح کی وہ مسجد ہے جو انہوں نے جودی پہاڑ پر بنائی تھی ۔ اور زیتون سے مراد بیت المقدس ہے ۔ لیکن والتین و الزیتون کے الفاظ سن کر یہ معنی ایک عام عرب کے ذہن میں نہیں آسکتے تھے اور نہ یہ بات قرآن کے مخاطب اہل عرب میں معروف تھی کہ تین اور زیتون ان مقامات کے نام ہیں ۔ البتہ یہ طریقہ اہل عرب میں رائج تھا کہ جو پھل کسی علاقے میں کثرت سے پیدا ہوتا ہو اس علاقے کو وہ بسا اوقات اس پھل کے نام سے موسوم کر دیتے تھے ۔ اس محاورے کے لحاظ سے تین زیتون کے الفاظ کا مطلب مناسبت تین و زیتون ، یعنی ان پھلوں کی پیداوار کا علاقہ ہو سکتا ہے ، اور وہ شام و فلسطین کا علاقہ ہے کیونکہ اس زمانے میں اہل عرب میں یہی علاقہ انجیر اور زیتون کی پیداوار کے مشہور تھا ۔ ابن تیمیہ ، ابن القیم ، زمحشری اور آلوسی رحمہم اللہ نے اسی تفسیر کو اختیار کیا ہے ۔ اور ابن جریر نے بھی اگرچہ پہلے قول کو ترجیح دی ہے ، مگر اس کے ساتھ یہ بات تسلیم کی ہے کہ تین و زیتون سے مراد ان پھلوں کی پیداوار کا علاقہ بھی ہو سکتا ہے ۔ حافظ ابن کثیر نے بھی اس تفسیر کو قابل لحاظ سمجھا ہے ۔
تین سے مراد کسی کے نزدیک تو مسجد دمشق ہے کوئی کہتا ہے خود دمشق مراد ہے ، کسی کے نزدیک دمشق کا ایک پہاڑ مراد ہے بعض کہتے ہیں کہ اصحاب کہف کی مسجد مراد ہے ، کوئی کہتا ہے کہ جودی پہاڑ پر مسجد نوح ہے وہ مراد ہے ۔ بعض کہتے ہیں انجیر مراد ہے زیتون سے کوئی کہتا ہے مسجد بیت المقدس مراد ہے ۔ کسی نے کہا کہ وہ زیتون جسے نچوڑتے ہو ، طور سینین وہ پہاڑ ہے جس پر حضرت موسیٰ سے اللہ تعالیٰ نے کلام کیا تھابلد الامین سے مراد مکہ شریف ہے اس میں کسی کو اختلاف نہیں ۔ بعض کا قول یہ ہے کہ یہ تینوں وہ جگہیں ہیں جہاں تین اولو العزم صاحب شریعت پیغمبر بھیجے گئے تھے ، تین سے مراد تو بیت المقدس ہے ۔ جہاں پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو نبی بنا کر بھیجا گیا تھا اور طور سینین سے مراد طور سینا ہے جہاں حضرت موسیٰ بن عمران علیہ السلام سے اللہ تعالیٰ نے کلام کیا تھا اور بلد امین سے مراد مکہ مکرمہ جہاں ہمارے سردار حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھیجے گئے ، تورات کے آخر میں بھی ان تینوں جگہوں کا نام ہے اس میں ہے کہ طور سینا سے اللہ تعالیٰ آیا یعنی وہاں پر حضرت عیسیٰ کو وہاں بھیجا اور فاران کی چوٹیوں پر وہ بلند ہوا یعنی مکہ کے پہاڑوں سے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بھیجا ، پھر ان تینوں زبردست بڑے مرتبے والے پیغمبروں کی زمانی اور وجودی ترتیب بیان کر دی ۔ اسی طرح یہاں بھی پہلے جس کا نام لیا اس سے زیادہ شریف چیز کا نام پھر لیا اور پھر ان دونوں سے بزرگ تر چیز کا نام آخر میں لیا ۔ پھر ان قسموں کے بعد بیان فرمایا کہ انسان کو اچھی شکل و صورت میں صحیح قدو قامت والا ، درست اور سڈول اعضاء والا خوبصورت اور سہانے چہرے والا پیدا کیا پھر اسے نیچوں کا نیچ کر دیا یعنی جہنمی ہو گیا ، اگر اللہ کی اطاعت اور رسول کی اتباع نہ کی تو اسی لیے ایمان والوں کو اس سے الگ کر لیا ، بعض کہتے ہیں کہ مراد انتہائی بڑھاپے کی طرگ لوٹا دینا ہے ۔ حضرت عکرمہ فرماتے ہیں جس نے قرآن جمع کیا وہ رذیل عمر کو نہ پہنچے گا ، امام ابن جریر اسی کو پسند فرماتے ہیں لیکن اگر یہی بڑھاپا مراد ہوتا تو مومنوں کا استشناء کیوں ہوتا ؟ بڑھاپا تو بعض مومنوں پر بھی آتا ہے پس ٹھیک بات وہی ہے جوا وپر ہم نے ذکر کی جیسے اور جگہ سورہ والعصر میں ہے کہ تمام انسان نقصان میں ہیں سوائے ایمان اور اعمال صالح والوں کے کہ انہیں ایسی نیک جزاملے گی جس کی انتہا نہ ہو جیسے پہلے بیان ہو چکا ہے پھر فرماتا ہے اے انسان جبکہ تو اپنی پہلی اور اول مرتبہ کی پیدائش کو جانتا ہے تو پھر جزا و سزا کے دن کے آنے پر اور تیرے دوبارہ زندہ ہونے پر تجھے کیوں یقین نہیں ؟ کیا وجہ ہے کہ تو اسے نہیں مانتا حالانکہ ظاہر ہے کہ جس نے پہلی دفعہ پیدا کر دیا اس پردوسری دفعہ کا پیدا کرنا کیا مشکل ہے ؟ حضرت مجاہد ایک مرتبہ حضرت ابن عباس سے پوچھ بیٹھے کہ اس سے مراد آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں؟ آپ نے فرمایا معاذ اللہ اس سے مراد مطلق انسان ہے عکرمہ وغیرہ کا بھی یہی قول ہے ۔ پھر فرماتا ہے کہ کیا اللہ حکم الحاکمین نہیں ہے وہ نہ ظلم کرے نہ بےعدلی کرے اسی لیے وہ قیامت قائم کرے گا اور ہر ایک ظالم سے مظلوم کا انتقال لے گا ، حضرت ابو ہریرہ سے مرفوع حدیث میں یہ گذر چکا ہے کہ جو شخص والتین والزیتون پڑھے اور اس کے آخر کی آیت الیس اللّٰہ پڑھے تو کہہ دے بلی وانا علی ذالک من الشاھدین یعنی ہاں اور میں اس پر گواہ ہوں ۔ اللہ کے فضل و کرم سے سورہ التین کی تفسیر ختم ہوئی فالحمد اللہ ۔