Surah

Information

Surah # 95 | Verses: 8 | Ruku: 1 | Sajdah: 0 | Chronological # 28 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Early Makkah phase (610-618 AD)
ثُمَّ رَدَدۡنٰهُ اَسۡفَلَ سَافِلِيۡنَۙ‏ ﴿5﴾
پھر اسے نیچوں سے نیچا کر دیا ۔
ثم رددنه اسفل سفلين
Then We return him to the lowest of the low,
Phir isssay neechon say necha kerdiye
پھر ہم اسے پستی والوں میں سب سے زیادہ نچلی حالت میں کردیتے ہیں ۔ ( ٢ )
( ۵ ) پھر اسے ہر نیچی سے نیچی حالت کی طرف پھیردیا ( ف۵ )
پھر اسے الٹا پھیر کر ہم نے سب نیچوں سے نیچ کر دیا4 ،
پھر ہم نے اسے پست سے پست تر حالت میں لوٹا دیا
سورة التِّیْن حاشیہ نمبر :4 مفسرین نے بالعموم اس کے دو معنی بیان کیے ہیں ۔ ایک یہ کہ ہم نے اسے ارذل العمر ، یعنی بڑھاپے کی ایسی حالت کی طرف پھیر دیا جس میں وہ کچھ سوچنے سمجھنے اور کام کرنے کے قابل نہ رہا ۔ دوسرے یہ کہ ہم نے اسے جہنم کے سب سے نیچے درجے کی طرف پھیر دیا ۔ لیکن یہ دونوں معنی اس مقصود کلام کے لیے دلیل نہیں بن سکتے جسے ثابت کرنے کے لیے یہ سورہ نازل ہوئی ۔ سورۃ کا مقصود جزا و سزا کے برحق ہونے پر ا ستدلال کرنا ہے ۔ اس پر نہ یہ بات دلالت کرتی ہے کہ انسانوں میں سے بعض لوگ بڑھاپے کی انتہائی کمزور حالت کو پہنچا دیے جاتے ہیں ، اور نہ یہی بات دلالت کرتی ہے کہ انسانوں کا ایک گروہ جہنم میں ڈالا جائے گا ۔ پہلی بات اس لیے جزا و سزا کی دلیل نہیں بن سکتی کہ بڑھاپے کی حالت اچھے برے ، دونوں قسم کے لوگوں پر طاری ہو تی ہے ، اور کسی کا اس حالت کو پہنچنا کوئی سزا نہیں ہے جو اسے اس کے اعمال پر دی جاتی ہو ۔ رہی دوسری بات تو وہ آخرت میں پیش آنے والا معاملہ ہے ۔ اسے ان لوگوں کے سامنے دلیل کے طور پر کیسے پیش کیا جا سکتا ہے ۔ جنہیں آخرت ہی کی جزا و سزا کا قائل کرنے کے لیے یہ سارا استدلال کیا جا رہا ہے؟ اس لیے ہمارے نزدیک آیت کاصحیح مفہوم یہ ہے کہ بہترین ساخت پرپیدا کیے جانے کے بعد جب انسان اپنے جسم اور ذہن کی طاقتوں کو برائی کے راستے میں استعمال کرتا ہے تو اللہ تعالی اسے برائی ہی کی توفیق دیتا ہے اور گراتے گراتے اسے گراوٹ کی اس انتہا تک پہنچا دیتا ہے کہ کوئی مخلوق گراوٹ میں اس حد کو پہنچی ہوئی نہیں ہوتی ۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جو انسانی معاشرے کے اندر بکثرت مشاہدے میں آتی ہے ۔ حرص ، طمع ، خود غرضی ، شہوت پرستی ، نشہ بازی ، کمینہ پن ، غیظ و غضب اور ایسی ہی دوسری خصلتوں میں جو لوگ غرق ہو جاتے ہیں وہ اخلاقی حیثیت سے فی الواقع سب نیچوں سے نیچ ہو کر رہ جاتے ہیں ۔ مثال کے طور پر صرف اسی ایک بات کو لے لیجیے کہ ایک قوم جب دوسری قوم کی دشمنی میں اندھی ہو جاتی ہے تو کس طرح درندگی میں تمام درندوں کو مات دیتی ہے ۔ درندہ تو صرف اپنی غذا کے لیے کسی جانور کا شکار کرتا ہے ۔ جانوروں کا قتل عام نہیں کرتا ۔ مگر یہ احسن تقویم پر پیدا ہونے والا انسان اپنی عقل سے کام لے کر توپ ، بندوق ، ٹینک ، ہوائی جہاز ، ایٹم بم ، ھائیڈروجن بم اور دوسرے بے شمار ہتھیار ایجاد کرتا ہے تاکہ آن کی آن میں پوری پوری بستیوں کو تباہ کر کے رکھ دے ۔ درندہ صرف زخمی یا ہلاک کرتا ہے ۔ مگر انسان اپنے ہی جیسے انسانوں کو اذیت دینے کے لیے ایسے ایسے درد ناک طریقے اختراع کرتا ہے جن کا تصور بھی کبھی کسی درندے کے دماغ میں نہیں آ سکتا ۔ پھر یہ اپنی دشمنی اور انتقام کی آگ ٹھنڈی کرنے کے لیے کمینہ پن کی اس انتہا کو پہنچتا ہے کہ عورتوں کے ننگے جلوس نکالتا ہے ، ایک ایک عورت کو دس دس بیس بیس آدمی اپنی حوس کا نشانہ بناتے ہیں ، باپوں اور بھائیوں اور شوہروں کے سامنے ان کے گھر کی عورتوں کی عصمت لوٹتے ہیں ، بچوں کو ان کے ماں باپ کے سامنے قتل کرتے ہیں ۔ ماؤں کو اپنے بچوں کا خون پینے پر مجبور کرتے ہیں ، انسانوں کو زندہ جلاتے اور زندہ دفن کرتے ہیں ۔ دنیا میں وحشی سے وحشی جانوروں کی بھی کوئی قسم ایسی نہیں ہے جو انسان کی اس وحشت کا کسی درجہ میں بھی مقابلہ کر سکتی ہو ۔ یہی حال دوسری بری صفات کا بھی ہے کہ ان میں سے جس کی طرف بھی انسان رخ کرتا ہے ، اپنے آپ کو ارذل المخلوقات ثابت کر دیتا ہے ۔ حتی کہ مذہب ، جو انسان کے لیے مقدس ترین شے ہے ، اس کو بھی وہ اتنا گرا دیتا ہے کہ درختوں اور جانوروں اور پتھروں کو پوجتے پوجتے پستی کی انتہا کو پہنچ کر مرد و عورت کے اعضائے جنسی تک کو پوج ڈالتا ہے ، اور دیوتاؤں کی خوشنودی کے لیے عبادت گاہوں میں دیو داسیاں رکھتا ہے جن سے زنا کا ارتکاب کار ثواب سمجھ کر کیا جاتا ہے ۔ جن ہستیوں کو وہ دیوتا اور معبود کا درجہ دیتا ہے ان کی طرف اس دیو مالا میں ایسے ایسے گندے قصے منسوب ہوتے ہیں جو ذلیل ترین انسان کے لیے بھی باعث شرم ہیں ۔