Surah

Information

Surah # 98 | Verses: 8 | Ruku: 1 | Sajdah: 0 | Chronological # 100 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD)
وَمَا تَفَرَّقَ الَّذِيۡنَ اُوۡتُوا الۡكِتٰبَ اِلَّا مِنۡۢ بَعۡدِ مَا جَآءَتۡهُمُ الۡبَيِّنَةُ ؕ‏ ﴿4﴾
اہل کتاب اپنے پاس ظاہر دلیل آ جانے کے بعد ہی ( اختلاف میں پڑ کر ) متفرق ہوگئے ۔
و ما تفرق الذين اوتوا الكتب الا من بعد ما جاءتهم البينة
Nor did those who were given the Scripture become divided until after there had come to them clear evidence.
Ehl-e-kitab apnay pass zahir daleel ajanay kay baad hi ( ikhtilaaf mein par ker ) mutafarriq hogaey
اور جو اہل کتاب تھے ، انہوں نے جدا راستہ اسی کے بعد اختیار کیا جب ان کے پاس روش دلیل آچکی تھی ۔ ( ٢ )
( ٤ ) اور پھوٹ نہ پڑی کتاب والوں میں مگر بعد اس کے کہ وہ روشن دلیل ( ف۸ ) ان کے پاس تشریف لائے ( ف۹ )
پہلے جن لوگوں کو کتاب دی گئی تھی ان میں تفرقہ برپا نہیں ہوا مگر اس کے بعد کہ ان کے پاس ﴿راہ راست کا ﴾ بیان واضح آچکا تھا ۔ 6
۔ ( ان ) اہل کتاب میں ( نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت و رسالت پر ایمان لانے اور آپ کی شانِ اقدس کو پہچاننے کے بارے میں پہلے ) کوئی پھوٹ نہ پڑی تھی مگر اس کے بعد کہ جب ( بعثتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ) روشن دلیل ان کے پاس آگئی ( تو وہ باہم بٹ گئے کوئی ان پر ایمان لے آیا اور کوئی حسد کے باعث منکر و کافر ہوگیا )
سورة البینہ حاشیہ نمبر : 6 یعنی اس سے پہلے اہل کتاب جو مختلف گمراہیوں میں بھٹک کر بے شمار فرقوں میں بٹ گئے اس کی وجہ یہ نہ تھی کہ اللہ تعالی نے اپنی طرف سے ان کی رہنمائی کے لیے دلیل روشن بھیجنے میں کوئی کسر اٹھا رکھی تھی ، بلکہ یہ روشن انہوں نے اللہ کی جانب سے رہنمائی آجانے کے بعد اختیار کی تھی ، اس لیے اپنی گمراہی کے وہ خود ذمہ داری تھے ، کیونکہ ان پر حجت تمام کی جاچکی تھی ۔ اسی طرح اب چونکہ ان کے صحیفے پاک نہیں رہے ہیں اور ان کی کتابیں بالکل راست اور درست تعلیمات پر مشتمل نہیں رہی ہیںِ اس لیے اللہ تعالی نے ایک دلیل روشن کی حیثیت سے اپنا ایک رسول بھیج کر اور اس کے ذریعہ سے پاک صحیفے بالکل راست اور درست تعلیمات پر مشتمل پیش کر کے ان پر پھر حجت تمام کردی ہے ، تاکہ اس کے بعد بھی اگر وہ متفرق رہیں تو اس کی ذمہ داری انہی پر ہو ، اللہ کے مقابلہ میں وہ کوئی حجت پیش نہ کرسکیں ۔ یہ بات قرآن مجید میں بکثرت مقامات پر فرمائی گئی ہے ۔ مثال کے طور پر ملاحظہ البقرہ ، آیات 213 ۔ 253 ۔ آل عمران 19 ۔ المائدہ 44 تا 50 ۔ یونس 93 ۔ الشوری 13 تا 15 ۔ الجاثیہ 16 تا 18 ۔ اس کے ساتھ اگر وہ حواشی بھی پیش نظر رکھے جائیں جو تفہیم القرآن میں ان آیات پر ہم نے لکھے ہیں تو بات سمجھنے میں مزید آسانی ہوگی ۔