Surah

Information

Surah # 99 | Verses: 8 | Ruku: 1 | Sajdah: 0 | Chronological # 93 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD)
بِسۡمِ اللهِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِيۡمِ
شروع کرتا ہوں اللہ تعا لٰی کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے ۔
بسم الله الرحمن الرحيم
In the name of Allah , the Entirely Merciful, the Especially Merciful.
Shuroo Allah kay naam say jo bara meharban nehayat reham kerney wala hai
شروع اللہ کے نام سے جو سب پر مہربان ہے ، بہت مہربان ہے
اللہ کے نام سے شروع جو نہایت مہربان رحم والا
اللہ کے نام سے جو رحمان و رحیم ہے ۔
اللہ کے نام سے شروع جو نہایت مہربان ہمیشہ رحم فرمانے والا ہے ۔
نام : پہلی آیت کے لفظ زلزالھا سے ماخوذ ہے ۔ زمانۂ نزول : اس کے مکی اور مدنی ہونے میں اختلاف ہے ۔ ابن مسعود رضی اللہ عنہ ، عطاء ، جابر اور مجاہد کہتے ہیں کہ یہ مکی ہے اور ابن عباس رضی اللہ عنہ کا بھی ایک قول اس کی تائید کرتا ہے ۔ بخلاف اس کے قتادہ اور مقاتل کہتے ہیں کہ یہ مدنی ہے اور ابن عباس رضی اللہ عنہ سے بھی دوسرا قول اس کے مدنی ہونے کی تائید میں نقل ہوا ہے ۔ اس کے مدنی ہونے پر حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کی اس روایت سے استدلال کیا جاتا ہے جو ابن ابی حاتم نے ان سے نقل کی ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی کہ فمن یعمل مثقال ذرۃ خیرا یرہ ومن یعمل مثقال ذرۃ شرا یرہ تو میں نے عرض کیا یا رسول اللہ کیا میں اپنا عمل دیکھنے والا ہوں؟ حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہاں ، میں نے عرض کیا یہ بڑے بڑے گناہ؟ آپ نے جواب دیا ہاں میں نے عرض کیا اور یہ چھوٹے چھوٹے گناہ بھی؟ حضور نے فرمایا ہاں ۔ اس پر میں نے کہا پھر تو میں مارا گیا ؟ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا خوش ہو جاؤ اے ابو سعید ، کیونکہ ہر نیکی اپنے جیسی دس نیکیوں کے برابر ہوگی ۔ اس حدیث سے اس سورت کے مدنی ہونے پر استدلال کی بنا یہ ہے کہ حضرت ابو سعید خدری مدینے کے رہنے والے تھے اور غزوۂ احد کے بعد سن بلوغ کو پہنچے ۔ اس لیے اگر یہ سورت ان کی موجودگی میں نازل ہوئی تھی ، جیسا کہ ان کے بیان سے ظاہر ہے ، تو اسے مدنی ہونا چاہیے لیکن صحابہ اور تابعین کا جو طریقہ آیات اور سورتوں کی شان نزول کے بارے میں تھا ، اس کی تشریح سورۂ دہر کے مضمون میں بیان کی جا چکی ہے ، اس لیے کسی صحابی کا یہ کہنا ہے کہ یہ آیت فلاں موقع پر نازل ہوئي ، اس بات کا قطعی ثبوت نہیں ہے کہ اس کا نزول اسی وقت ہوا تھا ۔ ہو سکتا ہے کہ حضرت ابو سعید نے ہوش سنبھالنے کے بعد جب پہلی مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبان مبارک سے یہ سورت سنی ہو اس وقت اس کے آخری حصے سے خوف زدہ ہو کر انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے وہ سوالات کیے ہوں جو اوپر درج کیے گئے ہیں اور اس واقعہ کو انہوں نے اس طرح بیان کیا ہو کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو میں نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے یہ عرض کیا ۔ اگر یہ روایت سامنے نہ ہو تو قرآن کو سمجھ کر پڑھنے والا ہر شخص یہی محسوس کرے گا کہ یہ مکی سورت ہے ، بلکہ اس کے مضمون اور انداز بیان سے تو اس کو یہ محسوس ہوگا کہ یہ مکہ کے بھی اس ابتدائی دور میں نازل ہوئی ہوگی جب نہایت مختصر اور انتہائی دلنشین طریقہ سے اسلام کے بنیادی عقائد لوگوں کے سامنے پیش کیے جا رہے تھے ۔ موضوع اور مضمون : اس کا موضوع ہے موت کے بعد دوسری زندگی اور اس میں ان سب اعمال کا پورا کچا چٹھا انسان کے سامنے آ جانا جو اس نے دنیا میں کیے تھے ۔ سب سے پہلے تین مختصر تقریروں میں یہ بتایا گیا ہے کہ موت کے بعد دوسری زندگی کس طرح واقع ہوگی اور وہ انسان کے لیے کیسی حیران کن ہوگی ۔ پھر دو فقروں میں بتایا گیا ہے کہ یہی زمین جس پر رہ کر انسان نے بے فکری کے ساتھ ہر طرح کے اعمال کیے ہیں ، اور جس کے متعلق کبھی اس کے وہم و گمان میں بھی یہ بات نہیں آئی کہ یہ بے جان چیز کسی وقت اس کے افعال کی گواہی دے گی ، اس روز اللہ تعالٰی کے حکم سے بول پڑے گی اور ایک ایک انسان کے متعلق یہ بیان کردے گی کہ کس وقت کہاں اس نے کیا کام کیا تھا ۔ اس کے بعد فرمایا گیا ہے کہ اس دن زمین کے گوشے گوشے سے انسان گروہ در گروہ اپنے مرقدوں سے نکل نکل کر آئیں گے تاکہ ان کے اعمال ان کو دکھائے جائیں ، اور اعمال کی یہ پیشی ایسی مکمل اور مفصل ہوگی کہ کوئی ذرہ برابر نیکی یا بدی بھی ایسی نہ رہ جائے گی جو سامنے نہ آ جائے ۔
جامع سورت اور عید قربان کے احکام: ترمذی شریف میں ہے کہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آیا اور کہاحضور صلی اللہ علیہ وسلم مجھے پڑھائیے آپ نے فرمایا الروالی تین سورتیں پڑھو تو اس نے کہا بوڑھا ہو گیا حافظہ کمزور ہو گیا زبان موٹی ہو گئی تو آپ نے فرمایا اچھا حم والی سورتیں پڑھا کرو اس نے پھر وہی عذر بیان کیا آپ نے فرمایا یسبح والی تین سورتیں پڑھ لیا کرو اس نے پھر وہی عذر بیان کیا اور درخواست کی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم مجھے تو کوئی جامع سورت کا سبق دے دیجئے تو آپ نے اسے یہ سورت پڑھائی جب پڑھا چکے تو وہ کہنے لگا اس اللہ کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ نبی بنا کر بھیجا ہے کہ میں کبھی اس پر زیادتی نہ کروں گا پھر وہ پیٹھ پھیر کر جانے لگا تو آپ نے فرمایا اس مرد نے فلاح پالی یہ نجات کو پہنچ گیا ۔ پھر فرمایا ذرا اسے بلاؤ وہ حاضر ہوا تو آپ نے فرمایا مجھے بقر عید کا حکم کیا گیا ہے اس دن کو اللہ تعالیٰ نے اس امت کی عید کا دن بنایا ہے تو اس شخص نے کہا کہ اگر میرے پاس قربانی کا جانور نہ ہو اور کسی شخص نے مجھے دودھ پینے کے لیے کوئی جانور تحفہً دے رکھا ہو تو کیا میں اس کو ذبح کر ڈالوں؟ فرمایا نہیں پھر تو اپنے بال کتروا ، ناخن کٹوا مونچھیں پست کرا زیر ناف کے بال صاف کر اللہ تعالیٰ عزوجل کے نزدیک تیری پوری قربانی یہی ہے یہ حدیث مسند احمد ابو داؤد نسائی میں بھی ہے ترمذی شریف کی اور حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں جو شخص اس سورت کو پڑھے اسے نصف قرآن پڑھنے کا ثواب ملتا ہے یہ حدیث غریب ہے اور روایت میں ہے اذا زلزلت ، آدھے قرآن کے برابر ہے اور قل ھواللّٰہ تہائی قرآن کے برابر ہے اور قل یاایھالاکافرون چوتھائی قرآن کے برابر یہ حدیث بھی غریب ہے اور حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے صحابیوں میں سے ایک سے فرمایا کیا تم نے نکاح کر لیا اس نے کہا نہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس اتنا ہے ہی نہیں جو میں اپنا نکاح کر سکوں آپ نے فرمایا قل ہو اللہ تیرے ساتھ نہیں؟ اس نے کہا ہاں یہ تو ہے فرمایا تہائی قرآن یہ ہوا اذا جآء نہیں ؟ کہا وہ بھی ہے فرمایا چوتھائی قرآن یہ ہوا فرمایا قل یایھا الکافرون یاد نہیں؟ کہا ہاں ۔ فرمایا چوتھائی قرآن کے برابر یہ ہے جا اب نکاح کر لے یہ حدیث حسن ہے یہ تینوں حدیثیں صرف ترمذی میں ہیں ۔