Surah

Information

Surah # 4 | Verses: 176 | Ruku: 24 | Sajdah: 0 | Chronological # 92 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD)
وَيَسۡتَفۡتُوۡنَكَ فِى النِّسَآءِ ‌ؕ قُلِ اللّٰهُ يُفۡتِيۡكُمۡ فِيۡهِنَّ ۙ وَمَا يُتۡلٰى عَلَيۡكُمۡ فِى الۡكِتٰبِ فِىۡ يَتٰمَى النِّسَآءِ الّٰتِىۡ لَا تُؤۡتُوۡنَهُنَّ مَا كُتِبَ لَهُنَّ وَتَرۡغَبُوۡنَ اَنۡ تَـنۡكِحُوۡهُنَّ وَالۡمُسۡتَضۡعَفِيۡنَ مِنَ الۡوِلۡدَانِ ۙ وَاَنۡ تَقُوۡمُوۡا لِلۡيَتٰمٰى بِالۡقِسۡطِ‌ ؕ وَمَا تَفۡعَلُوۡا مِنۡ خَيۡرٍ فَاِنَّ اللّٰهَ كَانَ بِهٖ عَلِيۡمًا‏ ﴿127﴾
آپ سے عورتوں کے بارے میں حکم دریافت کرتے ہیں ، آپ کہہ دیجئے! کہ خود اللہ ان کے بارے میں حکم دے رہا ہے اور قرآن کی وہ آیتیں جو تم پر ان یتیم لڑکیوں کے بارے میں پڑھی جاتی ہیں جنہیں ان کا مقرر حق تم نہیں دیتے اور انہیں اپنے نکاح میں لانے کی رغبت رکھتے ہو اور کمزور بچوں کے بارے میں اور اس بارے میں کہ یتیموں کی کارگزاری انصاف کے ساتھ کرو ۔ تم جو نیک کام کرو بے شبہ اللہ اسے پوری طرح جاننے والا ہے ۔
و يستفتونك في النساء قل الله يفتيكم فيهن و ما يتلى عليكم في الكتب في يتمى النساء التي لا تؤتونهن ما كتب لهن و ترغبون ان تنكحوهن و المستضعفين من الولدان و ان تقوموا لليتمى بالقسط و ما تفعلوا من خير فان الله كان به عليما
And they request from you, [O Muhammad], a [legal] ruling concerning women. Say, " Allah gives you a ruling about them and [about] what has been recited to you in the Book concerning the orphan girls to whom you do not give what is decreed for them - and [yet] you desire to marry them - and concerning the oppressed among children and that you maintain for orphans [their rights] in justice." And whatever you do of good - indeed, Allah is ever Knowing of it.
Aap say aurton kay baray mein hukum daryaft kertay hain aap keh dijiye! Kay khud Allah unn kay baray mein hukum dey raha hai aur quran ki woh aayaten jo tum per inn yateem larkiyon kay baray mein parhi jati hain jinhen inn ka muqarrar haq tum nahi detay aur enhen apney nikkah mein laaney ki raghbat rakhtay ho aur kamzor bachon kay baray mein aur iss baray mein kay yateemon ki kaar guzari insaf kay sath kero. Tum jo nek kaam kero bey shuba Allah ussay poori tarah janney wala hai.
اور ( اے پیغمبر ) لوگ تم سے عورتوں کے بارے میں شریعت کا حکم پوچھتے ہیں ۔ ( ٧٤ ) کہہ دو کہ اللہ تم کو ان کے بارے میں حکم بتاتا ہے ، اور اس کتاب ( یعنی قرآن ) کی جو آیتیں جو تم کو پڑھ کر سنائی جاتی ہیں وہ بھی ان یتیم عورتوں کے بارے میں ( شرعی حکم بتاتی ہیں ) جن کو تم ان کا مقرر شدہ حق نہیں دیتے ، اور ان سے نکاح کرنا بھی چاہتے ہو ( ٧٥ ) نیز کمزور بچوں کے بارے میں بھی ( حکم بتاتی ہیں ) اور یہ تاکید کرتی ہیں کہ تم یتیموں کی خاطر انصاف قائم کرو ۔ اور تم جو بھلائی کا کام کرو گے ، اللہ کو اس کا پورا پورا علم ہے ۔
اور تم سے عورتوں کے بارے میں فتویٰ پوچھتے ہیں ( ف۳۲٤ ) تم فرمادو کہ اللہ تمہیں ان کا فتویٰ دیتا ہے اور وہ جو تم پر قرآن میں پڑھا جاتا ہے ان یتیم لڑکیوں کے بارے میں تم انہیں نہیں دیتے جو ان کا مقرر ہے ( ف۳۲۵ ) اور انہیں نکاح میں بھی لانے سے منہ پھیرتے ہو اور کمزور ( ف۳۲٦ ) بچوں کے بارے میں اور یہ کہ یتیموں کے حق میں انصاف پر قائم رہو ( ف۳۲۷ ) اور تم جو بھلائی کرو تو اللہ کو اس کی خبر ہے ،
لو گ تم سے عورتوں کے معاملہ میں فتویٰ پوچھتے ہیں ۔ 152 کہو اللہ تمہیں ان کے معاملہ میں فتویٰ دیتا ہے ، اور ساتھ ہی وہ احکام بھی یاد دلاتا ہے جو پہلے سے تمہیں اس کتاب میں سنائے جا رہے ہیں ۔ 153 یعنی وہ احکام جو ان یتیم لڑکیوں کے متعلق ہیں جن کے حق تم ادا نہیں کرتے 154 اور جن کے نکاح کرنے سے تم باز رہتے ہو﴿یا لالچ کی بناء پر تم خود ان سے نکاح کر لینا چاہتے ہو﴾ ، 155 اور وہ احکام جو ان بچّوں کے متعلق ہیں جو بیچارے کوئی زور نہیں رکھتے ۔ 156 اللہ تمہیں ہدایت کرتا ہے کہ یتیموں کے ساتھ انصاف پر قائم رہو ، جو بھلائی تم کرو گے وہ اللہ کے علم سے چھپی نہ رہ جائے گی ۔
اور ( اے پیغمبر! ) لوگ آپ سے ( یتیم ) عورتوں کے بارے میں فتویٰ پوچھتے ہیں ۔ آپ فرما دیں کہ اللہ تمہیں ان کے بارے میں حکم دیتا ہے اور جو حکم تم کو ( پہلے سے ) کتابِ مجید میں سنایا جا رہا ہے ( وہ بھی ) ان یتیم عورتوں ہی کے بارے میں ہے جنہیں تم وہ ( حقوق ) نہیں دیتے جو ان کے لئے مقرر کئے گئے ہیں اور چاہتے ہو کہ ( ان کا مال قبضے میں لینے کی خاطر ) ان کے ساتھ خود نکاح کر لو اور نیز بے بس بچوں کے بارے میں ( بھی حکم ) ہے کہ یتیموں کے معاملے میں انصاف پر قائم رہا کرو ، اور تم جو بھلائی بھی کروگے تو بیشک اللہ اسے خوب جاننے والا ہے
سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :152 اس کی تصریح نہیں فرمائی گئی کہ عورتوں کے معاملہ میں لوگ کیا پوچھتے تھے ۔ مگر آگے چل کر جو فتویٰ دیا گیا ہے اس سے سوال کی نوعیت خود واضح ہو جاتی ہے ۔ سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :153 یہ اصل استفتاء کا جواب نہیں ہے بلکہ لوگوں کے سوال کی طرف توجہ فرمانے سے پہلے اللہ تعالیٰ نے ان احکام کی پابندی پر پھر ایک مرتبہ زور دیا ہے جو اسی سورۃ کے آغاز میں یتیم لڑکیوں کے متعلق بالخصوص اور یتیم بچوں کے متعلق بالعموم ارشاد فرمائے تھے ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کی نگاہ میں یتیموں کے حقوق کی اہمیت کتنی زیادہ ہے ۔ ابتدائی دو رکوعوں میں ان کے حقوق کے تحفظ کی تاکید بڑی شدت کے ساتھ کی جا چکی تھی ۔ مگر اس پر اکتفا نہیں کیا گیا ۔ اب جو معاشرتی مسائل کی گفتگو چھڑی تو قبل اس کے کہ لوگوں کے پیش کردہ سوال کا جواب دیا جاتا ، یتیموں کے مفاد کا ذکر بطور خود چھیڑ دیا گیا ۔ سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :154 ”اشارہ ہے اس آیت کی طرف جس میں ارشاد ہوا ہے کہ ”اگر یتیموں کے ساتھ بے انصافی کرنے سے ڈرتے ہو تو جو عورتیں تم کو پسند آئیں ۔ ۔ ۔ ۔ “ ( سورہ نساء ۔ آیت ۳ ) سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :155 تَرْغَبُوْنَ اَنْ تَنْکِحُوْ ھُنَّ کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ”تم ان سے نکاح کرنے کی رغبت رکھتے ہو“ اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ”تم ان سے نکاح کرنا پسند نہیں کرتے“ ۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اس کی تشریح میں فرماتی ہیں کہ جن لوگوں کی سرپرستی میں ایسی یتیم لڑکیاں ہوتی تھیں جن کے پاس والدین کی چھوڑی ہوئی کچھ دولت ہوتی تھی وہ ان لڑکیوں کے ساتھ مختلف طریقوں سے ظلم کرتے تھے ۔ اگر لڑکی مالدار ہونے کے ساتھ خوبصورت بھی ہوتی تو یہ لوگ چاہتے تھے کہ خود اس سے نکاح کرلیں اور مہر و نفقہ ادا کیے بغیر اس کے مال اور جمال دونوں سے فائدہ اٹھائیں ۔ اور اگر وہ بدصورت ہوتی تو یہ لوگ نہ اس سے خود نکاح کرتے تھے اور نہ کسی دوسرے سے اس کا نکاح ہونے دیتے تھے تاکہ اس کا کوئی ایسا سر دھرا پیدا نہ ہو جائے جو کل اس کے حق کا مطالبہ کرنے والا ہو ۔ سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :156 اشارہ ہے ان احکام کی طرف جو اسی سورہ کے پہلے اور دوسرے رکوع میں یتیموں کے حقوق کے متعلق ارشاد ہو ئے ہیں ۔
یتیموں کے مربیوں کی گوشمالی اور منصفانہ احکام صحیح بخاری شریف میں ہے حضرت عائشہ فرماتی ہے اس سے مراد وہ شخص ہے جس کی پرورش میں کوئی یتیم بچی ہو جس کا ولی وارث بھی وہی مال میں شریک ہو گیا ہو اب چاہتا یہ ہو کہ اس یتیم سے میں نکاح کرلوں اس بنا پر اور جگہ اس کی شادی روکتا ہو ایسے شخص کے بارے میں یہ آیت اتری ہے ، ایک روایت میں ہے کہ اس آیت کے اترنے کے بعد جب پھر لوگوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ان یتیم لڑکیوں کے بارے میں سوال کیا تو اللہ تعالیٰ نے ( يَسْتَـفْتُوْنَكَ ۭ قُلِ اللّٰهُ يُفْتِيْكُمْ فِي الْكَلٰلَةِ ) 4 ۔ النسآء:176 ) نازل فرمائی ۔ فرماتی ہیں کہ اس آیت میں جو یہ فرمایا گیا ہے ( ۙ وَمَا يُتْلٰي عَلَيْكُمْ فِي الْكِتٰبِ فِيْ يَتٰمَي النِّسَاۗءِ الّٰتِيْ لَا تُؤْتُوْنَھُنَّ مَا كُتِبَ لَھُنَّ وَتَرْغَبُوْنَ اَنْ تَنْكِحُوْھُنَّ وَالْمُسْتَضْعَفِيْنَ مِنَ الْوِلْدَانِ ) 4 ۔ النسآء:127 ) اس سے مراد پہلی ( وَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا تُقْسِطُوْا فِي الْيَتٰمٰى فَانْكِحُوْا مَا طَابَ لَكُمْ مِّنَ النِّسَاۗءِ مَثْنٰى وَثُلٰثَ وَرُبٰعَ ۚ فَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا تَعْدِلُوْا فَوَاحِدَةً اَوْ مَا مَلَكَتْ اَيْمَانُكُمْ ۭ ذٰلِكَ اَدْنٰٓى اَلَّا تَعُوْلُوْا ) 4 ۔ النسآء:3 ) ہے آپ سے بھی منقول ہے کہ یتیم لڑکیوں کے ولی وارث جب ان کے پاس مال کم پاتے یا وہ حسین نہ ہوتیں تو ان سے نکاح کرنے سے باز رہتے اور اگر مالدار اور صاحب جمال پاتے تو نکاح کی رغبت کرتے لیکن اس حال میں بھی چونکہ ان لڑکیوں کا اور کوئی محافظ نہیں ہوتا تھا ان کے مہر اور حقوق میں کمی کرتے تھے تو اللہ تعالیٰ نے انہیں روک دیا کہ بغیر پورا مہر اور پورے حقوق دینے کے نکاح کر لینے کی اجازت نہیں ۔ مقصد یہ ہے کہ ایسی یتیم بچی جس سے اس کے ولی کو نکاح حلال ہو تو وہ اس سے نکاح کر سکتا ہے بشرطیکہ جو مہر اس جیسی اس کے کنبے قبیلے کی اور لڑکیوں کو ملا ہے اسے بھی اتنا ہی دے اور اگر ایسا نہ کرے تو اسے چاہئے اس سے نکاح بھی نہ کرے ۔ اس سورت کے شروع کی اس مضمون کی پہلی آیت کا بھی یہی مطلب ہے اور کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ اس یتیم بچی سے خود اس کا ایسا ولی جسے اس سے نکاح کرنا حلال ہے اسے اپنے نکاح میں لانا نہیں چاہتا خواہ کسی وجہ سے ہو لیکن یہ جان کر کہ جب یہ دوسرے کے نکاح میں چلی جائے گی تو جو مال میرے اس لڑکی کے درمیان شراکت میں ہے وہ بھی میرے قبضے سے جاتا رہے گا ۔ تو ایسے ناواجبی فعل سے اس آیت میں روک دیا گیا ۔ یہ بھی مروی ہے کہ جاہلیت میں دستور تھا کہ یتیم لڑکی کا والی جب لڑکی کو اپنی ولایت میں لیتا تو اس پر ایک کپڑا ڈال دیتا اب کسی کی مجال نہ تھی کہ اس سے خود آپ نکاح کر لیتا اور مال بھی ہضم کر جاتا اور اگر وہ صورت شکل میں اچھی نہ ہوتی اور مالدار ہوتی تو اسے دوسری جگہ نکاح کرنے سے روک دیتا وہ بیچاری یونہی مر جاتی اور یہ اس کا مال قبضہ میں کر لیتا ۔ اس سے اللہ تعالیٰ اس آیت میں منع فرما رہا ہے ۔ حضرت ابن عباس سے اس کے ساتھ ہی یہ بھی مروی ہے کہ جاہلیت والے چھوٹے لڑکوں کو وارث نہیں سمجھتے تھے اس رسم کو بھی قرآن نے ختم دیا اور ہر ایک کو حصہ دلوایا اور فرمایا کہ لڑکی اور لڑکے کو خواہ چھوٹے ہوں خواہ بڑے حصہ ضرور دو ۔ البتہ لڑکی کو آدھا اور لڑکے کو پورا یعنی دو لڑکیوں کے برابر اور یتیم لڑکیوں کے بارے میں انصاف کا حکم دیا کہ جب جمال و مال والی سے خود تم اپنا نکاح کر لیتے ہو تو پھر ان سے بھی کر لیا کرو جو مال وجمال میں کم ہوں پھر فرمایا یقین مانو کہ تمہارے تمام اعمال سے اللہ تعالیٰ باخبر ہے ۔ تمہیں چاہئے کہ خیر کے کام کرو فرماں برداری کرو اور نیک جزا حاصل کرو ۔