Surah

Information

Surah # 99 | Verses: 8 | Ruku: 1 | Sajdah: 0 | Chronological # 93 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD)
يَوۡمَٮِٕذٍ يَّصۡدُرُ النَّاسُ اَشۡتَاتًا  ۙ لِّيُرَوۡا اَعۡمَالَهُمۡؕ‏ ﴿6﴾
اس روز لوگ مختلف جماعتیں ہو کر ( واپس ) لوٹیں گے تاکہ انہیں ان کے اعمال دکھا دیئے جائیں ۔
يومىذ يصدر الناس اشتاتا ليروا اعمالهم
That Day, the people will depart separated [into categories] to be shown [the result of] their deeds.
Uss rozlog mukhtalif jamatein hoker ( wapis ) lotein gay takey unhein unkay aiymaal dikha diey jaein.
اس روز لوگ مختلف ٹولیوں میں واپس ہوں گے ، تاکہ ان کے اعمال انہیں دکھا دیے جائیں ۔ ( ٣ )
( ٦ ) اس دن لوگ اپنے رب کی طرف پھریں گے ( ف۸ ) کئی راہ ہو کر ( ف۹ ) تاکہ اپنا کیا ( ف۱۰ ) دکھائیں جائیں تو ،
اس روز لوگ متفرق حالت میں پلٹیں گے 5 تاکہ ان کے اعمال ان کو دکھائے جائیں ۔ 6
اس دن لوگ مختلف گروہ بن کر ( جدا جدا حالتوں کے ساتھ ) نکلیں گے تاکہ انہیں ان کے اَعمال دکھائے جائیں
سورة الزلزال حاشیہ نمبر : 5 اس کے دو معنی ہوسکتے ہیں ۔ ایک یہ کہ ہر ایک اکیلا اپنی انفرادی حیثیت میں ہوگا ، خاندان ، جتھے ، پارٹیاں ، قومیں سب بکھر جائیں گی ۔ یہ بات قرآن مجید میں دوسرے مقامات پر بھی فرمائی گئی ہے ۔ مثلا سورہ انعام میں ہے کہ اللہ تعالی اس روز لوگوں سے فرمائے گا کہ لو اب تم ویسے ہی تن تنہا ہمارے سامنے حاضر ہوگئے جیسا ہم نے پہلی مرتبہ تمہیں پیدا کیا تھا ( آیت 94 ) اور سورہ مریم میں فرمایا یہ اکیلا ہمارے پاس آئے گا ( آیت 80 ) اور یہ کہ ان میں سے ہر ایک قیامت کے روز اللہ کے حضور اکیلا حاضر ہوگا ( آیت 95 ) دوسرے معنی یہ بھی ہوسکتے ہیں کہ وہ تمام لوگ جو ہزار ہا برس کے دوران میں جگہ جگہ مرے تھے ، زمین کے گوشے گوشے سے گروہ در گروہ چلے آرہے ہوں گے ، جیسا کہ سورہ نباء میں فرمایا گیا جس روز صور میں پھونک مار دی جائے گی تم فوج در فوج آجاؤ گے ( آیت 18 ) اس کے علاوہ جو مطلب مختلف مفسرین نے بیان کیے ہیں ان کی گنجائش لفظ اشتاتا میں نہیں ہے ، اس لیے ہمارے نزدیک وہ اس لفظ کے معنوی حدود سے باہر ہیں ، اگرچہ بجائے خود صحیح ہیں اور قرآن و حدیث کے بیان کردہ احوال قیامت سے مطابقت رکھتے ہیں ۔ سورة الزلزال حاشیہ نمبر : 6 اس کے دو معنی ہوسکتے ہیں ۔ ایک یہ کہ ان کو ان کے اعمال دکھائے جائیں ، یعنی ہر ایک کو بتایا جائے کہ وہ دنیا میں کیا کر کے آیا ہے ۔ دوسرے یہ کہ ان کو ان کے اعمال کی جزا دکھائی جائے ۔ اگرچہ یہ دوسرے معنی بھی لِّيُرَوْا اَعْمَالَهُمْ کے لیے جاسکتے ہیں ، لیکن اللہ تعالی نے لِّيُرَوْا جَزٓاءَ اَعْمَالَهُمْ ( تاکہ انہیں ان کے اعمال کی جزا دکھائی جائے ) نہیں فرمایا ہے بلکہ لِّيُرَوْا اَعْمَالَهُمْ ( تاکہ ان کے اعمال ان کو دکھائے جائیں ) فرمایا ہے ۔ اس لیے پہلے معنی ہی قابل ترجیح ہیں ، خصوصا جبکہ قرآن مجید میں متعدد مقامات پر اس کی تصریح فرمائی گئی ہے کہ کافر و مومن ، صالح و فاسق ، تابع فرمان اور نافرمان ، سب کو ان کے نامہ اعمال ضرور دیے جائیں گے ( مثال کے طور پر ملاحظۃ ہو الحاقہ آیات 19 و 25 ، اور الانشقاق ، آیات7 و 10 ) ظاہر ہے کہ کسی کو اس کے اعمال دکھانے ، اور اس کارنامہ اعمال اس کے حوالہ کرنے میں کوئی فرق نہیں ہے ۔ علاوہ بریں زمین جب اپنے اوپر گزرے ہوئے حالات پیش کرے گی تو حق و باطل کی وہ کشمکش جو ابتدا سے برپا ہے اور قیامت تک برپا رہے گی ، اس کا پورا نقشہ بھی سب کے سامنے آجائے گا ، اور اس میں سب ہی دیکھ لیں گے کہ حق کے لیے کام کرنے والوں نے کیا کچھ کیا ، اور باطل کی حمایت کرنے والوں نے ان کے مقابلہ میں کیا کیا حرکتیں کیں ۔ بعید نہیں کہ ہدایت کی طرف بلانے والوں اور ضلالت پھیلانے والوں کی ساری تقریریں اور گفتگوئیں لوگ اپنے کانوں سے سن لیں ۔ دونوں طرف کی تحریروں اور لٹریچر کا پورا ریکارڈ جوں کا توں سب کے سامنے لاکر رکھ دیا جائے ۔ حق پرستوں باطل پرستوں کے ظلم ، اور دونوں گروہوں کے درمیان برپا ہونے والے معرکوں کے سارے مناظر میدان حشر کے حاضرین اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں ۔