سورة القارعہ حاشیہ نمبر : 1
اصل میں لفظ قارعہ استعمال ہوا ہے جس کا لفظی ترجمہ ہے ٹھونکنے والی قرع کے معنی کسی چیز کو کسی چیز پر زور سے مارنے کے ہیں جس سے سخت آواز نکلے ۔ اس لغوی معنی کی مناسبت سے قارعہ کا لفظ ہولناک حادثے اور بڑی بھاری آفت کے لیے بولا جاتا ہے ۔ مثلا عرب کہتے ہیں قرعتہم القارعہ یعنی فلاں قبیلے یا قوم کے لوگوں پر سخت آفت آگئی ہے ۔ قرآن مجید میں بھی ایک جگہ یہ لفظ کسی قوم پر بڑی مصیبت نازل ہونے کے لیے استعمال ہوا ہے ۔ سورہ رعد میں ہے وَلَا يَزَالُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا تُصِيْبُهُمْ بِمَا صَنَعُوْا قَارِعَةٌ ۔ جن لوگوں نے کفر کیا ہے ان پر ان کے کرتوتوں کی وجہ سے کوئہ نہ کوئی آفت نازل ہوتی رہتی ہے ( آیت 31 ) لیکن یہاں القارعہ کا لفظ قیامت کے لیے استعمال کیا گیا ہے اور سورہ الحاقہ میں بھی قیامت کو اسی نام سے موسوم کیا گیا ہے ۔ ( آیت 4 ) اس مقام پر یہ بات نگاہ میں رہنی چاہیے کہ یہاں قیامت کے پہلے مرحلے سے لے کر عذاب و ثواب کے آخری مرحلے تک پورے عالم آخرت کا یکجا ذکر ہورہا ہے ۔